سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
35. باب فِي الإِمَامِ يَقْبَلُ هَدَايَا الْمُشْرِكِينَ
باب: امام کا کفار و مشرکین سے ہدیہ قبول کرنا۔
حدیث نمبر: 3057
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ، قَالَ: أَهْدَيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةً، فَقَالَ" أَسْلَمْتَ، فَقُلْتُ: لَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ".
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹنی ہدیہ میں دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم مسلمان ہو گئے ہو؟“ میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے مشرکوں سے تحفہ لینے کی ممانعت کر دی گئی ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/السیر 24 (1577)، (تحفة الأشراف: 11015)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/162) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی، مقوقس، اکیدر دومہ اور رئیس فدک کے ہدایا قبول کئے تو یہ «إني نهيت عن زبد المشركين» کے خلاف نہیں ہے کیونکہ مذکورہ سب کے سب ہدایا اہل کتاب کے تھے نہ کہ مشرکین کے، گویا اہل کتاب کے ہدایا لینے درست ہیں نہ کہ مشرکین کے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
وللحديث شاھد عند أحمد (3/402 وسنده حسن)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3057 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3057
فوائد ومسائل:
چونکہ ہدیہ لینا دینا دلوں میں قربت اورمحبت پیدا کرتا ہے۔
اس لئے کافروں اور مشرکوں سے آذادانہ طور پر ہدیہ کے تبادلے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
تاہم جہاں کوئی شرعی اور سیاسی مصلحت ہو تو ہدیہ لینے میں کوئ حرج نہیں۔
مثلاکوئی کافرمسلمانوں کےلئے اپنے خضوع کا اظہار کرنا چاہتا ہو یا امید ہو کہ اس کے ساتھ موانست سے وہ اسلام کے قریب ہوگا۔
یا اسلام لے آئے گا وغیرہ۔
امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب لہبہ باب قبول الہدیہ من المشرکین اور باب الہدیۃ للمشرکین میں یہی ثابت کیا ہے۔
2۔
حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہدیہ قبول نہ کرنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ انہیں اسلام لانے پر ابھارنا مقصود تھا۔
آپﷺ نے اکیدر دومہ اورنجاشی کا ہدیہ قبول کیاہے۔
کیونکہ ان کے ایمان لانے کی قوی امید تھی۔
3۔
حضرت عیاض بن حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔
اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت اختیار کی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3057
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1577
´کفار و مشرکین سے ہدیہ تحفہ قبول کرنے کی کراہت کا بیان۔`
عیاض بن حمار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے (اسلام لانے سے قبل) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تحفہ دیا یا اونٹنی ہدیہ کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم اسلام لا چکے ہو؟“ انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”مجھے تو مشرکوں کے تحفہ سے منع کیا گیا ہے۔“ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1577]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرکین کا ہدیہ قبول نہ کرنا ہی اصل ہے،
لیکن کسی خاص یا عام مصلحت کی خاطر اسے قبول کیاجا سکتا ہے،
چنانچہ بعض علماء نے قبول کرنے اور نہ کرنے کی حدیثوں کے مابین تطبیق کی یہ صورت نکالی ہے کہ جو لوگ دوستی اور موالاۃ کی خاطر ہدیہ دینا چاہتے تھے آپ نے ان کے ہدیہ کو قبول نہیں کیا اور جن کے دلوں میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے متعلق انسیت دیکھی گئی تو ان کے ہدایا قبول کیے گئے۔
(واللہ اعلم)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1577