(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، ان عمر بن الخطاب راى حلة سيراء، يعني: تباع عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة"، ثم جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل، فاعطى عمر بن الخطاب منها حلة، فقال عمر: كسوتنيها يا رسول الله، وقد قلت في حلة عطارد ما قلت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني لم اكسكها لتلبسها" فكساها عمر اخا له مشركا بمكة. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةً سِيَرَاءَ، يَعْنِي: تُبَاعُ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ"، ثُمَّ جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ، فَأَعْطَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مِنْهَا حُلَّةً، فَقَالَ عُمَرُ: كَسَوْتَنِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدَ مَا قُلْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا" فَكَسَاهَا عُمَرُ أَخًا لَهُ مُشْرِكًا بِمَكَّةَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا بکتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش! آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جس دن آپ کے پاس باہر کے وفود آئیں، اسے پہنا کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تو صرف وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی قسم کے کچھ جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تو عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ کپڑا مجھے پہننے کو دیا ہے؟ حالانکہ عطارد کے جوڑے کے سلسلہ میں آپ ایسا ایسا کہہ چکے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں یہ جوڑا اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم پہنو“، چنانچہ عمر نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا پہننے کے لیے دے دیا۔
Abdullah bin Umar said: Umar bin al-Khattab saw a silken suit sold at the gate of the mosque. He said: Messenger of Allah, would that you purchase this suit and wear it on Friday and on the occasion when a delegation (from the outside) comes to you. The Messenger of Allah ﷺ said: One who has no share in the afterlife will put on this (suit). Afterwards suits of similar nature were brought to the Messenger of Allah ﷺ. He gave Umar bin al-Khattab one of these suits. Umar said: Messenger of Allah, you are giving it to me for use while you had told me such-and-such about the suit of ‘Utarid (I. e. sold by ‘Utarid). The Messenger of Allah ﷺ said: I did not give it to you that you should wear it. Hence Umar gave it to his brother who was a disbeliever at Makkah for wearing.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 1071
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (886) صحيح مسلم (2068)
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، اخبرني يونس، وعمرو بن الحارث، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، قال: وجد عمر بن الخطاب حلة إستبرق تباع بالسوق فاخذها، فاتى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ابتع هذه تجمل بها للعيد وللوفود، ثم ساق الحديث، والاول اتم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: وَجَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ حُلَّةَ إِسْتَبْرَقٍ تُبَاعُ بِالسُّوقِ فَأَخَذَهَا، فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ابْتَعْ هَذِهِ تَجَمَّلْ بِهَا لِلْعِيدِ وَلِلْوُفُودِ، ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ، وَالْأَوَّلُ أَتَمُّ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بازار میں ایک موٹے ریشم کا جوڑا بکتا ہوا پایا تو اسے لے کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: آپ اسے خرید لیجئیے اور عید میں یا وفود سے ملتے وقت آپ اسے پہنا کیجئے۔ پھر راوی نے پوری حدیث اخیر تک بیان کی اور پہلی حدیث زیادہ کامل ہے۔
Abdullah bin Umar said: Umar bin al-Khattab saw a suit of silken cloth being sold in the market. He took it to the Messenger of Allah ﷺ, and said: Purchase it ad decorate with it on Eid on the occasion of the arrival of delegations. The narrator then narrated the tradition. The former version is complete.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 1072
محمد بن یحییٰ بن حبان نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میسر ہو سکے تو تمہارے لیے کوئی حرج کی بات نہیں کہ تم میں سے ہر ایک اپنے کام کاج کے کپڑوں کے علاوہ دو کپڑے جمعہ کے لیے بنا رکھے ۱؎“۔ عمرو کہتے ہیں: مجھے ابن ابوحبیب نے خبر دی ہے، انہوں نے موسیٰ بن سعد سے، موسیٰ بن سعد نے ابن حبان سے، ابن حبان نے ابن سلام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے منبر پر فرماتے سنا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے وہب بن جریر نے اپنے والد سے، انہوں نے یحییٰ بن ایوب سے، یحییٰ نے یزید بن ابوحبیب سے، انہوں نے موسیٰ بن سعد سے، موسیٰ بن سعد نے یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة 83 (1095)، (تحفة الأشراف: 5334، 11855)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجمعة 8 (17) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے لئے کام کاج کے کپڑوں کے علاوہ الگ کپڑے رکھنا بہتر ہے۔
Narrated Muhammad ibn Yahya ibn Habban: The Messenger of Allah ﷺ said: What is the harm if any of you has two garments, if he can provide them, for Friday (prayer) in addition to the two garments for his daily work? Amr reported from Ibn Habib from Musa ibn Saad from Ibn Habban from Ibn Salam who heard this (tradition) from the Messenger of Allah ﷺ on the pulpit. Abu Dawud said: This tradition has been reported by Yusuf bin Abdullah bin Salam from the Prophet ﷺ through a different chain of narrators.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1073
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (1389) أخرجه ابن ماجه (1095 وسنده حسن) وللحديث شواھد كثيرة جدًا
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن عجلان، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن الشراء والبيع في المسجد، وان تنشد فيه ضالة، وان ينشد فيه شعر، ونهى عن التحلق قبل الصلاة يوم الجمعة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الشِّرَاءِ وَالْبَيْعِ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنْ تُنْشَدَ فِيهِ ضَالَّةٌ، وَأَنْ يُنْشَدَ فِيهِ شِعْرٌ، وَنَهَى عَنِ التَّحَلُّقِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید و فروخت کرنے، کوئی گمشدہ چیز تلاش کرنے، شعر پڑھنے اور جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 124 (322)، سنن النسائی/المساجد 23 (716)، (تحفة الأشراف: 8796)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/المساجد 5 (749)، مسند احمد (2/179) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: کیوں کہ جمعہ کے دن خطبہ سننا اور خاموش رہنا ضروری ہے، اور جب لوگ حلقہ باندھ کر بیٹھیں گے تو خواہ مخواہ باتیں کریں گے ا س لئے حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ جمعہ سے پہلے کسی وقت بھی حلقہ باندھ کر نہیں بیٹھ سکتے۔
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: The Messenger of Allah ﷺ prohibited buying and selling in the mosque, announcing aloud about a lost thing, the recitation of a poem in it, and prohibited sitting in a circle (in the mosque) on Friday before the prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1074
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (732) أخرجه النسائي (715 وسنده حسن) ابن عجلان صرح بالسماع عند أحمد (2/179)
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن عبد القاري القرشي، حدثني ابو حازم بن دينار، ان رجالا اتوا سهل بن سعد الساعدي وقد امتروا في المنبر مم عوده، فسالوه عن ذلك، فقال: والله إني لاعرف مما هو، ولقد رايته اول يوم وضع، واول يوم جلس عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم" ارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى فلانة امراة قد سماها سهل ان مري غلامك النجار ان يعمل لي اعوادا اجلس عليهن إذا كلمت الناس" فامرته فعملها من طرفاء الغابة، ثم جاء بها فارسلته إلى النبي صلى الله عليه وسلم" فامر بها فوضعت هاهنا" فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" صلى عليها وكبر عليها، ثم ركع وهو عليها، ثم نزل القهقرى فسجد في اصل المنبر، ثم عاد" فلما فرغ اقبل على الناس، فقال:" ايها الناس إنما صنعت هذا لتاتموا بي، ولتعلموا صلاتي". (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيُّ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ رِجَالًا أَتَوْا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ وَقَدِ امْتَرَوْا فِي الْمِنْبَرِ مِمَّ عُودُهُ، فَسَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُ مِمَّا هُوَ، وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ أَوَّلَ يَوْمٍ وُضِعَ، وَأَوَّلَ يَوْمٍ جَلَسَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى فُلَانَةَ امْرَأَةٌ قَدْ سَمَّاهَا سَهْلٌ أَنْ مُرِي غُلَامَكِ النَّجَّارَ أَنْ يَعْمَلَ لِي أَعْوَادًا أَجْلِسُ عَلَيْهِنَّ إِذَا كَلَّمْتُ النَّاسَ" فَأَمَرَتْهُ فَعَمِلَهَا مِنْ طَرْفَاءِ الْغَابَةِ، ثُمَّ جَاءَ بِهَا فَأَرْسَلَتْهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَأَمَرَ بِهَا فَوُضِعَتْ هَاهُنَا" فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى عَلَيْهَا وَكَبَّرَ عَلَيْهَا، ثُمَّ رَكَعَ وَهُوَ عَلَيْهَا، ثُمَّ نَزَلَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ فِي أَصْلِ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ عَادَ" فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا صَنَعْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا بِي، وَلِتَعْلَمُوا صَلَاتِي".
ابوحازم بن دینار بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ لوگ منبر کے سلسلے میں جھگڑ رہے تھے کہ کس لکڑی کا تھا؟ تو انہوں نے سہل بن سعد سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: قسم اللہ کی! میں جانتا ہوں کہ وہ کس لکڑی کا تھا اور میں نے اسے پہلے ہی دن دیکھا جب وہ رکھا گیا اور جب اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے پاس- جس کا سہل نے نام لیا- یہ پیغام بھیجا کہ تم اپنے نوجوان بڑھئی کو حکم دو کہ وہ میرے لیے چند لکڑیاں ایسی بنا دے جن پر بیٹھ کر میں لوگوں کو خطبہ دیا کروں، تو اس عورت نے اسے منبر کے بنانے کا حکم دیا، اس بڑھئی نے غابہ کے جھاؤ سے منبر بنایا پھر اسے لے کر وہ عورت کے پاس آیا تو اس عورت نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ایک جگہ) رکھنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ منبر اسی جگہ رکھا گیا، پھر میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور تکبیر کہی پھر اسی پر رکوع بھی کیا، پھر آپ الٹے پاؤں اترے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا، پھر منبر پر واپس چلے گئے، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: لوگو! میں نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ تم میری پیروی کرو اور میری نماز کو جان سکو۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 18 (377)، والجمعة 26 (917)، صحیح مسلم/المساجد 10 (544)، سنن النسائی/المساجد 45 (740)، (تحفة الأشراف: 4775)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 199 (1416)، مسند احمد (5/339)، سنن الدارمی/الصلاة 45 (1293) (صحیح)»
Abu Hazim bin Dinar said: People came to Sahl bin Saad al-Saeedi, when they were doubtful about the kind of wood of the pulpit (in the mosque of the Prophet). They asked him about it. He said: By Allah, I know (the wood) of which it was made; I saw it the first day when it was placed there, and the first day when the Messenger of Allah ﷺ sat on it. The Messenger of Allah ﷺ sent for a woman whom Sahl named and asked her: Order your boy, the carpenter, to construct for me a wooden pulpit so that I sit on it when I deliver a speech to the people. So she ordered him and he made a pulpit of a wood called tarfa taken from al-Ghabah (a place at a distance of nine miles from Madina). He brought it to her. She sent it to the Messenger of Allah ﷺ. He ordered and that was placed here. I saw the Messenger of Allah ﷺ praying on it: he said: "Allah is most great"; he then bowed while he was on it; then he returned and prostrated in the root of the pulpit; he then returned (to the pulpit). When he finished (the prayer), he addressed himself to the people and said: O people, I did this so that you may follow me and know my prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 1075
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (917) صحيح مسلم (544)
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا ابو عاصم، عن ابن ابي رواد، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم لما بدن، قال له تميم الداري: الا اتخذ لك منبرا يا رسول الله يجمع، او يحمل عظامك؟ قال:" بلى" فاتخذ له منبرا مرقاتين. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَدَّنَ، قَالَ لَهُ تَمِيمٌ الدَّارِيُّ: أَلَا أَتَّخِذُ لَكَ مِنْبَرًا يَا رَسُولَ اللَّهِ يَجْمَعُ، أَوْ يَحْمِلُ عِظَامَكَ؟ قَالَ:" بَلَى" فَاتَّخَذَ لَهُ مِنْبَرًا مِرْقَاتَيْنِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم (بڑھاپے کی وجہ سے) جب بھاری ہو گیا تو تمیم داری رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ کے لیے ایک منبر نہ تیار کر دوں جو آپ کی ہڈیوں کو مجتمع رکھے یا اٹھائے رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، کیوں نہیں!“، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دو زینوں والا ایک منبر بنا دیا۔
Ibn Umar said: When the Prophet ﷺ became fat, Tamim al-Dari said to him: Should I make for you pulpit, Messenger of Allah, that will bear the burden of your body ? He said: Yes. So he made a pulpit consisting of two steps.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 1076
(مرفوع) حدثنا محمد بن عيسى، حدثنا حسان بن إبراهيم، عن ليث، عن مجاهد، عن ابي الخليل، عن ابي قتادة، عن النبي صلى الله عليه وسلم" انه كره الصلاة نصف النهار إلا يوم الجمعة، وقال: إن جهنم تسجر إلا يوم الجمعة". قال ابو داود: هو مرسل، مجاهد اكبر من ابي الخليل، وابو الخليل لم يسمع من ابي قتادة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَّهُ كَرِهَ الصَّلَاةَ نِصْفَ النَّهَارِ إِلَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَالَ: إِنَّ جَهَنَّمَ تُسَجَّرُ إِلَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: هُوَ مُرْسَلٌ، مُجَاهِدٌ أَكْبَرُ مِنْ أَبِي الْخَلِيلِ، وَأَبُو الْخَلِيلِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي قَتَادَةَ.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھیک دوپہر کے وقت نماز پڑھنے کو ناپسند کیا ہے سوائے جمعہ کے دن کے اور آپ نے فرمایا: جہنم سوائے جمعہ کے دن کے ہر روز بھڑکائی جاتی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث مرسل (منقطع) ہے، مجاہد عمر میں ابوالخلیل سے بڑے ہیں اور ابوالخلیل کا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔
Narrated Abu Qatadah: The Prophet ﷺ disapproved of the offering of prayer at the meridian except on Friday. The Hell-fire is kindled except on Friday. Abu Dawud said: This is a mursal tradition (i. e. the successor is narrating it directly from the Prophet). Mujahid is older than Abu al-Khalil, and Abu al-Khalil did not hear (any tradition from) Abu Qatadah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1078
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ليث بن أبي سليم ضعيف والسند منقطع كما بينه الإمام أبو داود رحمه اللّٰه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 49
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے پھر نماز سے فارغ ہو کر واپس آتے تھے اور دیواروں کا سایہ نہ ہوتا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 25 (4168)، صحیح مسلم/الجمعة 9 (860)، سنن النسائی/الجمعة 14 (1392)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 84 (1100)، (تحفة الأشراف: 4512)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/46، 50)، سنن الدارمی/الصلاة 194(1587) (صحیح)»
Salamah bin al-Akwa reported on the authority of his father: We used to offer the Friday prayer along with the Messenger of Allah ﷺ and return (to our homes) while no shade of the walls was seen (at that time).
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 1080
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4168) صحيح مسلم (860)