(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثني محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، حدثني عمرو بن ابي حكيم، قال: سمعت الزبرقان يحدث، عن عروة بن الزبير، عن زيد بن ثابت، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي الظهر بالهاجرة، ولم يكن يصلي صلاة اشد على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم منها، فنزلت: حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى سورة البقرة آية 238، وقال: إن قبلها صلاتين وبعدها صلاتين". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الزِّبْرِقَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ، وَلَمْ يَكُنْ يُصَلِّي صَلَاةً أَشَدَّ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، فَنَزَلَتْ: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى سورة البقرة آية 238، وَقَالَ: إِنَّ قَبْلَهَا صَلَاتَيْنِ وَبَعْدَهَا صَلَاتَيْنِ".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دوپہر کو پڑھا کرتے تھے، اور کوئی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر اس سے زیادہ سخت نہ ہوتی تھی، تو یہ آیت نازل ہوئی: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى»۱؎ زید نے کہا: بیشک اس سے پہلے دو نماز ہیں (ایک عشاء کی، دوسری فجر کی) اور اس کے بعد دو نماز ہیں (ایک عصر کی دوسری مغرب کی)۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 3731)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/183)، موطا امام مالک/صلاة الجماعة 7 (27موقوفا) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نماز وسطی سے مراد کون سی نماز ہے اس سلسلے میں مختلف حدیثیں وارد ہیں، زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس سے عصر مراد ہے، اکثر علماء کا رجحان اسی جانب ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
Zaid bin Thabit said: The Messenger of Allah ﷺ used to offer the Zuhr prayer in midday heat; and no prayer was harder on the Companions of the Messenger of Allah ﷺ that this one. Hence the revelation came down: "Be guardians of your prayers, and of the midmost prayer" (2: 238). He (the narrator) said: There are two prayers before it and two prayers after it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 411
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (637)
(مرفوع) حدثنا الحسن بن الربيع، حدثني ابن المبارك، عن معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من ادرك من العصر ركعة قبل ان تغرب الشمس فقد ادرك، ومن ادرك من الفجر ركعة قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنِي ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ، وَمَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْفَجْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز عصر پالی، اور جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز فجر پالی“۔
وضاحت: مذکورہ بالاحدیث صاحب عذر کے لیے ہے مثلاً جب کوئی سوتا رہ گیا ہو یا بھول گیا ہو اور بالکل آخر وقت میں جاگا ہو آخر وقت میں نماز یاد آئی ہو تو اس کے لیے یہی وقت ہے۔ مگر جو بغیر کسی عذر کے تاخیر کرے تو اس کے لیے انتہائی مکروہ ہے۔
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: If anyone says a rak'ah of the Asr prayer before sunset, he has observed (the Asr prayer), and if anyone performs a rak'ah of the Fajr prayer before sunrise, he has observed (the Fajr prayer).
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 412
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن العلاء بن عبد الرحمن، انه قال: دخلنا على انس بن مالك بعد الظهر فقام يصلي العصر، فلما فرغ من صلاته ذكرنا تعجيل الصلاة او ذكرها، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" تلك صلاة المنافقين، تلك صلاة المنافقين، تلك صلاة المنافقين، يجلس احدهم حتى إذا اصفرت الشمس فكانت بين قرني شيطان، او على قرني الشيطان، قام فنقر اربعا لا يذكر الله فيها إلا قليلا". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بَعْدَ الظُّهْرِ فَقَامَ يُصَلِّي الْعَصْرَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ ذَكَرْنَا تَعْجِيلَ الصَّلَاةِ أَوْ ذَكَرَهَا، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِينَ، تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِينَ، تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِينَ، يَجْلِسُ أَحَدُهُمْ حَتَّى إِذَا اصْفَرَّتِ الشَّمْسُ فَكَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، أَوْ عَلَى قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ، قَامَ فَنَقَرَ أَرْبَعًا لَا يَذْكُرُ اللَّهَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا".
علاء بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم ظہر کے بعد انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ عصر پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے نماز کے جلدی ہونے کا ذکر کیا یا خود انہوں نے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے کہ آدمی بیٹھا رہے یہاں تک کہ جب سورج زرد ہو جائے اور وہ شیطان کی دونوں سینگوں کے بیچ ہو جائے یا اس کی دونوں سینگوں پر ہو جائے ۱؎ تو اٹھے اور چار ٹھونگیں لگا لے اور اس میں اللہ کا ذکر صرف تھوڑا سا کرے“۔
وضاحت: یہ حدیث گویا پہلی حدیث ۴۱۲ کی شرح ہے کہ اگر کسی سے عذر شرعی کی بناء پر تاخیر ہوئی ہو اور اس نے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پالی ہو تو اس نے گویا وقت میں نماز پالی اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر خاص رحمت ہے۔ اور اگر بغیر عذر کے تاخیر کرے تو یہ منافقت کی علامت ہے۔ ”سورج کا شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہونا“ کے مفہوم میں اختلاف ہے، علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے اور سورج کے طلوع و غروب کے وقت شیطان سورج کے سامنے آ جاتا ہے اور ایسے لگتا ہے گویا سورج اس کے سر کے درمیان سے نکل رہا ہے یا غروب ہو رہا ہے اور سورج کے پجاری بھی ان اوقات میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہی تو یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہی سجدہ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ”دو سینگوں“ سے مراد مجاز شیطان کا بلند ہونا اور شیطانی قوتوں کا غلبہ ہے اور کفار طلوع و غروب کے اوقات مین سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔“ استثنائی صورتوں کو قاعدہ یا کلیہ نہیں بنانا چاہیے۔
Ala bin Abdur-Rahman said: We came upon Anas bin Malik after the Zuhr prayer. He stood for saying the Asr prayer. When he became free from praying, we mentioned to him about observing prayer in its early period or he himself mentioned it. He said: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: This is how hypocrites pray, this is how hypocrites pray, this is how hypocrites pray: He sits (watching the sun), and when it becomes yellow and is between the horns of the devil, or is on the horns of the devil, he rises and prays for rak'ahs quickly, remembering Allah only seldom during them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 413
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" الذي تفوته صلاة العصر، فكانما وتر اهله وماله"، قال ابو داود: وقال عبيد الله بن عمر: اتر، واختلف على ايوب فيه، وقال الزهري: عن سالم، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: وتر. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الَّذِي تَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: أُتِرَ، وَاخْتُلِفَ عَلَى أَيُّوبَ فِيهِ، وقَالَ الزُّهْرِيُّ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وُتِرَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی عصر چھوٹ گئی گویا اس کے اہل و عیال تباہ ہو گئے اور اس کے مال و اسباب لٹ گئے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبیداللہ بن عمر نے «وتر»(واؤ کے ساتھ) کے بجائے «أتر»(ہمزہ کے ساتھ) کہا ہے (دونوں کے معنی ہیں: لوٹ لیے گئے)۔ اس حدیث میں «وتر» اور «أتر» کا اختلاف ایوب کے تلامذہ میں ہوا ہے۔ اور زہری نے سالم سے، سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور عبداللہ بن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے «وتر» فرمایا ہے۔
وضاحت: امام خطابی نے کہا ہے وُتِرَ کے معنی ہیں کم کر دیا گیا یا چھین لیا گیا، پس وہ شخص بغیر اہل اور مال کے تنہا رہ گیا، اس لیے ایک مسلمان کو نماز عصر کو فوت کرنے سے اسی طرح بچنا چاہیے جیسے وہ گھر والوں سے اور مال کے فوت ہونے سے ڈرتا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو «باب ماجاء فی السھوعن وقت صلاۃ العصر» کے ذیل میں درج فرمایا ہے۔ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ انسان عصر کی نماز میں بھول کر بھی تاخیر کرے تو بے حدوشمار گھاٹے اور خسارے میں ہے، کجا یہ کہ عمداً تغافل کا شکار ہو۔
Ibn Umar reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Anyone who loses his Asr prayer is like a person whose family has perished and whose property has been plundered. Abu Dawud said: Abdullah bin Umar narrated the word utira (instead of wutira, meaning perished). The dispute on this point goes back to Ayyub. Al-Zuhri reported from Salim on the authority of this father from the Prophet ﷺ the word 'wutira'.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 414
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (552) صحيح مسلم (626)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب پڑھتے تھے، پھر تیر مارتے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 374) وقد أخرجہ: مسند احمد (3/370) (صحیح)»
وضاحت: یعنی غروب کے بعد فوراً ہی نماز پڑھ لی جاتی تھی کہ نماز سے فراغت کے بعد فضا میں اس قدر روشنی باقی ہوتی تھی کہ کمان سے پھینکا گیا تیر اپنے گرنے کی جگہ پر نظر آتا تھا۔
Anas bin Malik said: We used to offer the Maghrib prayer with the Prophet ﷺ and then shoot arrows, one of us could see the place where arrow would fall.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 416
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عمر، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا محمد بن إسحاق، حدثني يزيد بن ابي حبيب، عن مرثد بن عبد الله، قال: لما قدم علينا ابو ايوب غازيا وعقبة بن عامر يومئذ على مصر فاخر المغرب، فقام إليه ابو ايوب، فقال له: ما هذه الصلاة يا عقبة؟ قال: اما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا تزال امتي بخير، او قال: على الفطرة ما لم يؤخروا المغرب إلى ان تشتبك النجوم". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو أَيُّوبَ غَازِيًا وَعُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ يَوْمَئِذٍ عَلَى مِصْرَ فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ، فَقَامَ إِلَيْهِ أَبُو أَيُّوبَ، فَقَالَ لَهُ: مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ يَا عُقْبَةُ؟ قَالَ: أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ، أَوْ قَالَ: عَلَى الْفِطْرَةِ مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلَى أَنْ تَشْتَبِكَ النُّجُومُ".
مرثد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب ابوایوب رضی اللہ عنہ ہمارے پاس جہاد کے ارادے سے آئے، ان دنوں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مصر کے حاکم تھے، تو عقبہ نے مغرب میں دیر کی، ابوایوب نے کھڑے ہو کر ان سے کہا: عقبہ! بھلا یہ کیا نماز ہے؟ عقبہ نے کہا: ہم مشغول رہے، انہوں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ: ”میری امت ہمیشہ بھلائی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ ستارے چمکنے لگ جائیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 3488)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/147) (حسن صحیح)»
Narrated Abu Ayyub: Marthad ibn Abdullah said: When Abu Ayyub came upon us to fight the infidels and in those days Uqbah ibn Amir was the Governor of Egypt, he (Uqbah) delayed the sunset prayer. Hence Abu Ayyub stood and said: What kind of prayer is this, Uqbah? He said: We were busy. He said: Did you not hear the Messenger of Allah ﷺ say: My community will remain well, or he said: will remain on its natural condition, so long as it would not delay the evening prayer until the stars shine brightly just like a network.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 418
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (609)
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ اس نماز یعنی عشاء کے وقت کو جانتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز تیسری رات کا چاند ڈوب جانے کے وقت پڑھتے تھے۔
Narrated An-Numan ibn Bashir: I am the one who is best informed of the time of this prayer, i. e. the night prayer. The Messenger of Allah ﷺ used to offer it at the hour when the moon went down on its third night.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 419
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (613)
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن الحكم، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، قال: مكثنا ذات ليلة ننتظر رسول الله صلى الله عليه وسلم لصلاة العشاء، فخرج إلينا حين ذهب ثلث الليل او بعده، فلا ندري اشيء شغله ام غير ذلك، فقال حين خرج:"اتنتظرون هذه الصلاة؟ لولا ان تثقل على امتي لصليت بهم هذه الساعة، ثم امر المؤذن فاقام الصلاة". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: مَكَثْنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ، فَخَرَجَ إِلَيْنَا حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ أَوْ بَعْدَهُ، فَلَا نَدْرِي أَشَيْءٌ شَغَلَهُ أَمْ غَيْرُ ذَلِكَ، فَقَالَ حِينَ خَرَجَ:"أَتَنْتَظِرُونَ هَذِهِ الصَّلَاةَ؟ لَوْلَا أَنْ تَثْقُلَ عَلَى أُمَّتِي لَصَلَّيْتُ بِهِمْ هَذِهِ السَّاعَةَ، ثُمَّ أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک رات ہم عشاء کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظار کرتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لائے جب تہائی رات یا اس سے زیادہ گزر گئی، ہم نہیں جانتے کہ کسی چیز نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشغول کر رکھا تھا یا کوئی اور بات تھی، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر آئے تو فرمایا: ”کیا تم لوگ اس نماز کا انتظار کر رہے ہو؟ اگر میری امت پر گراں نہ گزرتا تو میں انہیں یہ نماز اسی وقت پڑھاتا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا، اس نے نماز کے لیے تکبیر کہی۔
تخریج الحدیث: «* تخريج:صحیح مسلم/المساجد 39 (639)، سنن النسائی/المواقیت 20 (538)، (تحفة الأشراف: 7649)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/مواقیت الصلاة 24 (571)، مسند احمد (2/28، 95، 126) (صحیح)»
وضاحت: انتظار کرانے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ عبادت کے انتظار کا ثواب حاصل کر لیں اور ان کو تاخیر کی فضیلت بھی بتا دی جائے۔ بہرحال اس سے عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنے کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔
Abdullah bin Umar said: We remained one night waiting for the Messenger of Allah ﷺ to offer the Isha prayer. He came out to us when one-third of the night has passed or even after it. We did not know whether anything kept him occupied or there was some other matter. When he came out, he said: Are you waiting for this prayer ? Were it not that it would impose a burden on my people, I would normally pray with them at this time. He then gave orders to the muadhdhin who declared that the time of the prayer had come.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 420