(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، اخبرني ابو الحسن، قال ابو داود: ابو الحسن هو مهاجر، قال: سمعت زيد بن وهب، يقول: سمعت ابا ذر، يقول: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم، فاراد المؤذن ان يؤذن الظهر، فقال: ابرد، ثم اراد ان يؤذن، فقال: ابرد، مرتين او ثلاثا حتى راينا فيء التلول، ثم قال:" إن شدة الحر من فيح جهنم، فإذا اشتد الحر فابردوا بالصلاة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي أَبُو الْحَسَنِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو الْحَسَنِ هُوَ مُهَاجِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ الظُّهْرَ، فَقَالَ: أَبْرِدْ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ: أَبْرِدْ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مؤذن نے ظہر کی اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ظہر) ٹھنڈی کر لو“، پھر اس نے اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھنڈی کر لو“، اسی طرح دو یا تین بار فرمایا یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے سے ہوتی ہے لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو“۔
Abu Dharr said: We were in the company of the Prophet ﷺ. The muadhdhin intended to call for the Zuhr prayer. He said: Make it cooler. He then intended to call for prayer. He said twice or thrice: Make it cooler. We then witnessed the shadow of the mounds. He then said: The intensity of heat comes from the bubbling over of the Hell ; so when the heat is violent, offer (the Zuhr) prayer when it becomes cooler.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 401
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (535) صحيح مسلم (616)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی کی شدت ہو تو نماز کو ٹھنڈی کر کے پڑھو، (ابن موہب کی روایت میں «فأبردوا عن الصلاة» کے بجائے «فأبردوا بالصلاة» ہے)، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اسے حقیقی اور ظاہری معنی میں لینا زیادہ صحیح ہے، کیونکہ بخاری و مسلم کی (متفق علیہ) حدیث میں ہے کہ جہنم کی آگ نے اللہ رب العزت سے شکایت کی کہ میرے بعض حصے گرمی کی شدت اور گھٹن سے بعض کو کھا گئے ہیں، تو اللہ رب العزت نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی، ایک جاڑے کے موسم میں، اور ایک گرمی کے موسم میں، جہنم جاڑے میں سانس اندر کو لیتی ہے، اور گرمی میں باہر کو، اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ گرمی کی شدت میں ظہر کو دیر سے پڑھنا جلدی پڑھنے سے بہتر ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک مثل کے بعد پڑھے، اس سے مقصود صرف اتنا ہے کہ بہ نسبت دوپہر کے کچھ ٹھنڈک ہو جائے اور جب سورج زیادہ ڈھل جاتا ہے تو دوپہر کی بہ نسبت کچھ ٹھنڈک آ ہی جاتی ہے۔
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: When the heat is violent, offer (the Zuhr) prayer when it becomes fairly cool, for the violent heat comes from the bubbling over the Hell.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 402
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (536) صحيح مسلم (615)
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، انه اخبره،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي العصر والشمس بيضاء مرتفعة حية، ويذهب الذاهب إلى العوالي والشمس مرتفعة". (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُرْتَفِعَةٌ حَيَّةٌ، وَيَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ سورج سفید، بلند اور زندہ ہوتا تھا، اور جانے والا (عصر پڑھ کر) عوالی مدینہ تک جاتا اور سورج بلند رہتا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 34 (621)، سنن النسائی/المواقیت 7 (508)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 5 (682)، (تحفة الأشراف: 1522)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت 13 (550)، والاعتصام 16 (7329)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1(11)، مسند احمد (3/223)، سنن الدارمی/الصلاة 15 (1244) (صحیح)»
وضاحت: یہ دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں عصر پڑھ لیا کرتے تھے جس کی تفصیل گذر چکی ہے کہ ایک مثل سایہ سے عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ سورج زندہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اس کی گرمی و حرارت محسوس کریں۔ مدینہ کے جنوب مشرق کی جانب کی آبادیوں کو «عوالی»(بالائی علاقے) اور شمال کی جانب کے علاقے کو «سافلہ»(نشیبی علاقہ) کہتے تھے۔
Anas bin Malik said the Messenger of Allah ﷺ used to say the Asr prayer when the sun was high and bright and living, then one would go off to al-Awali and get there while the sun was still high.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 404
(مرفوع) حدثنا القعنبي، قال: قرات على مالك بن انس، عن ابن شهاب، قال عروة: ولقد حدثتني عائشة،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها قبل ان تظهر". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ عُرْوَةُ: وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر ایسے وقت میں ادا فرماتے تھے کہ دھوپ میرے حجرے میں ہوتی، ابھی دیواروں پر چڑھی نہ ہوتی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 1 (522)، 13 (544)، والخمس 4 (3103)، صحیح مسلم/المساجد 31 (612)، (تحفة الأشراف: 16596)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 6 (109)، سنن النسائی/المواقیت 7 (506)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 5 (683)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1(2) (صحیح)»
وضاحت: حجرہ عربی زبان میں گھر کے ساتھ گھرے ہوئے آنگن کو بھی کہتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے صحن کی دیواریں چھوٹی ہی تھیں اس لیے دھوپ ابھی آنگن ہی میں ہوتی تھی۔ مشرقی دیوار پر چڑھتی نہ تھی کہ عصر کا وقت ہو جاتا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ لیتے تھے۔ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں نماز عصر پڑھتے تھے۔
علی بن شیبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے تو دیکھا کہ آپ عصر کو مؤخر کرتے جب تک کہ سورج سفید اور صاف رہتا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبوداود، (تحفة الأشراف: 10019) (ضعیف)» (اس کے دو راوی محمد بن یزید اور یزید مجہول ہیں)
Narrated Ali ibn Shayban: We came upon the Messenger of Allah ﷺ in Madina. He would postpone the afternoon prayer as long as the sun remained white and clear.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 408
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد بن يزيد اليمامي وشيخه يزيد بن عبد الرحمٰن: مجهولان (تقريب: 6404،7747) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 28
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے روز فرمایا: ”ہم کو انہوں نے (یعنی کافروں نے) نماز وسطیٰ (یعنی عصر) سے روکے رکھا، اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے“۔
وضاحت: یہ حدیث آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين»”نمازوں کی محافظت اور پابندی کرو اور درمیانی (یا افضل) نماز کی، اور اللہ کے لیے باادب ہو کر کھڑے ہوؤ“۔ کی تفسیر کرتی ہے کہ اس میں صلوۃ وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی رحیم و شفیق شخصیت کی زبان مبارک سے اس قسم کی شدید بددعا کا جاری ہونا واضح کرتا ہے کہ نماز کا بروقت ادا کرنا کتنا اہم ہے ہمیں بھی ہر نماز بروقت ادا کرنی چاہیے۔
Ali (may Allah be pleased with him) reported the Messenger of Allah ﷺ as saying on the day of Battle of Khandaq (Trench). They (the unbelievers) prevented is from offering the middle prayer i. e. Asr prayer. May Allah fill their houses and their graves with Hell-fire.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 409
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2931) صحيح مسلم (627)
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن القعقاع بن حكيم، عن ابي يونس مولى عائشة رضي الله عنها، انه قال:" امرتني عائشة ان اكتب لها مصحفا، وقالت: إذا بلغت هذه الآية فآذني حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى سورة البقرة آية 238، فلما بلغتها آذنتها، فاملت علي: 0 حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين 0، ثم قالت عائشة: سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهُ قَالَ:" أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا، وَقَالَتْ: إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى سورة البقرة آية 238، فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا، فَأَمْلَتْ عَلَيَّ: 0 حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَصَلاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ 0، ثُمَّ قَالَتْ عَائِشَةُ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
قعقاع بن حکیم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں اور کہا کہ جب تم آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» ۱؎۲؎، پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 36 (629)، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (2982)، سنن النسائی/الصلاة 14 (473)، (تحفة الأشراف: 17809)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صلاة الجماعة 7 (25)، مسند احمد (6/73) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز وسطیٰ (درمیانی نماز) نماز عصر نہیں کوئی اور نماز ہے لیکن یہ قرأت شاذ ہے اس سے استدلال صحیح نہیں، یا یہ عطف عطف تفسیری ہے۔ ۲؎: نمازوں کی حفاظت کرو خصوصی طور پر درمیان والی نماز کی اور عصر کی اور اللہ کے سامنے باادب کھڑے رہا کرو۔
Abu Yunus, the freed slave of Aishah said: Aishah commanded me to write for her come passage from the Quran. She also added: When you reach the following verse, inform me: "Be guardian of your prayers and of the midmost prayer" (2: 238). When I reached it, I informed her. She asked me to write: "Be guardians of your prayers, and of the midmost prayer, and of the Asr prayer, and stand up with devotion of Allah" (2: 238). Aishah then said: I heard it from the Messenger of Allah ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 410