سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat)
1. باب الصَّلاَةِ مِنَ الإِسْلاَمِ
1. باب: نماز کی فرضیت کا بیان۔
Chapter: The Obligation To Perform The Salat (Prayers).
حدیث نمبر: 391
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن عمه ابي سهيل بن مالك، عن ابيه، انه سمع طلحة بن عبيد الله، يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اهل نجد ثائر الراس يسمع دوي صوته ولا يفقه ما يقول حتى دنا، فإذا هو يسال عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خمس صلوات في اليوم والليلة، قال: هل علي غيرهن؟ قال: لا، إلا ان تطوع، قال: وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم صيام شهر رمضان، قال: هل علي غيره؟ قال: لا، إلا ان تطوع، قال: وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الصدقة، قال: فهل علي غيرها؟ قال: لا، إلا ان تطوع، فادبر الرجل وهو يقول: والله لا ازيد على هذا ولا انقص، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: افلح إن صدق".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي سُهَيْلِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرَ الرَّأْسِ يُسْمَعُ دَوِيُّ صَوْتِهِ وَلَا يُفْقَهُ مَا يَقُولُ حَتَّى دَنَا، فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، قَالَ: وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِيَامَ شَهْرِ رَمَضَانَ، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، قَالَ: وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّدَقَةَ، قَالَ: فَهَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلَا أَنْقُصُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ".
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اہل نجد کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، جس کے بال پراگندہ تھے، اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنی جاتی تھی لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، یہاں تک کہ وہ قریب آیا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسلام) دن رات میں پانچ وقت کی نماز پڑھنی ہے، اس نے پوچھا: ان کے علاوہ اور کوئی نماز مجھ پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ۱؎ إلا یہ کہ تم نفل پڑھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ماہ رمضان کے روزے کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: اس کے سوا کوئی اور بھی روزے مجھ پر فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، إلا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکاۃ کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: اس کے علاوہ کوئی اور بھی صدقہ مجھ پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، إلایہ کہ تم نفلی صدقہ کرو۔ پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر یہ کہتے ہوئے چلا: قسم اللہ کی! میں نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ کم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بامراد رہا اگر اس نے سچ کہا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإیمان 34 (46)، والصوم 1 (1891)، والشہادات 26 (2678)، والحیل 3 (6956)، صحیح مسلم/الإیمان 2 (11)، سنن النسائی/الصلاة 4 (459)، والصوم 1 (2092)، الإیمان 23 (5031)، (تحفة الأشراف: 5009)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ قصر الصلاة 25(94)، مسند احمد (1/162)، سنن الدارمی/الصلاة 208 (1691) (صحیح)» ‏‏‏‏

Talhah bin Ubaid Allah said: A man from among the people of Najd with disheveled hair came to the Messenger of Allah ﷺ. The humming sound of his voice could be heard but what he was suing could not be understood he came near and it was then known that he was asking about Islam. The Messenger of Allah ﷺ said: Five times of prayer each day and night: He asked: Must I observe any more than them ? He replied: No, unless you do it voluntarily. He (Talhah) said that the Messenger of Allah ﷺ mentioned fasting during the month of Ramadan. He asked: Must I observe anything else ? He replied: No, unless you do it voluntarily. The Messenger of Allah ﷺ mentioned Zakat to him. He asked: Must I pay anything else ? He replied: No, unless you do it voluntarily. The man then turned away saying: I swear any Allah, I shall not add anything to this or fall short of it. The Messenger of Allah ﷺ said: The man will be successful if he speaks truth.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 391


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (46) صحيح مسلم (11)
حدیث نمبر: 392
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود، حدثنا إسماعيل بن جعفر المدني، عن ابي سهيل نافع بن مالك بن ابي عامر، بإسناده بهذا الحديث، قال: افلح وابيه إن صدق، دخل الجنة وابيه إن صدق
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ نَافِعِ بْنِ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ، بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: أَفْلَحَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ، دَخَلَ الْجَنَّةَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ
اس سند سے بھی ابوسہیل نافع بن مالک بن ابی عامر سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے باپ کی قسم! ۱؎ اگر اس نے سچ کہا تو وہ بامراد رہا، اور اس کے باپ کی قسم! اگر اس نے سچ کہا تو وہ جنت میں جائے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 5009) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ قسم عادت کے طور پر ہے، بالارادہ نہیں، یا غیر اللہ کی قسم کی ممانعت سے پہلے کی ہے۔

This tradition has also been reported by Abu Suhail Nafi bin Malik bin Abi Amir through a different chain of narrators. It adds: He will be successful, by his father, if he speaks the truth; he will enter Paradise, by his father, if he speaks the truth.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 392


قال الشيخ الألباني: شاذ بزيادة وأبيه

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1891 مختصرًا) صحيح مسلم (11)
2. باب فِي الْمَوَاقِيتِ
2. باب: اوقات نماز کا بیان۔
Chapter: The Times Of As-Salat.
حدیث نمبر: 393
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سفيان، حدثني عبد الرحمن بن فلان بن ابي ربيعة، قال ابو داود: هو عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن ابي ربيعة، عن حكيم بن حكيم، عن نافع بن جبير بن مطعم، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امني جبريل عليه السلام عند البيت مرتين، فصلى بي الظهر حين زالت الشمس وكانت قدر الشراك، وصلى بي العصر حين كان ظله مثله، وصلى بي يعني المغرب حين افطر الصائم، وصلى بي العشاء حين غاب الشفق، وصلى بي الفجر حين حرم الطعام والشراب على الصائم، فلما كان الغد صلى بي الظهر حين كان ظله مثله، وصلى بي العصر حين كان ظله مثليه، وصلى بي المغرب حين افطر الصائم، وصلى بي العشاء إلى ثلث الليل، وصلى بي الفجر فاسفر، ثم التفت إلي، فقال: يا محمد، هذا وقت الانبياء من قبلك، والوقت ما بين هذين الوقتين".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ فُلَانِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشٍ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام عِنْدَ الْبَيْتِ مَرَّتَيْنِ، فَصَلَّى بِيَ الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَكَانَتْ قَدْرَ الشِّرَاكِ، وَصَلَّى بِيَ الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ، وَصَلَّى بِيَ يَعْنِي الْمَغْرِبَ حِينَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّى بِيَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى بِيَ الْفَجْرَ حِينَ حَرُمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَى الصَّائِمِ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ صَلَّى بِيَ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ، وَصَلَّى بِي الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَيْهِ، وَصَلَّى بِيَ الْمَغْرِبَ حِينَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّى بِيَ الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، وَصَلَّى بِيَ الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَذَا وَقْتُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِكَ، وَالْوَقْتُ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس دو بار میری امامت کی، ظہر مجھے اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا اور سایہ جوتے کے تسمے کے برابر ہو گیا، عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ۱؎ ہو گیا، مغرب اس وقت پڑھائی جب روزے دار روزہ کھولتا ہے (سورج ڈوبتے ہی)، عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق ۲؎ غائب ہو گئی، اور فجر اس وقت پڑھائی جب صائم پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے یعنی جب صبح صادق طلوع ہوتی ہے۔ دوسرے دن ظہر مجھے اس وقت پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ۳؎ ہو گیا، عصر اس وقت پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا، مغرب اس وقت پڑھائی جب روزے دار روزہ کھولتا ہے، عشاء تہائی رات میں پڑھائی، اور فجر اجالے میں پڑھائی، پھر جبرائیل علیہ السلام میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہی وقت آپ سے پہلے انبیاء کا بھی رہا ہے، اور نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے ۴؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 1 (149)، (تحفة الأشراف: 6519)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/333، 354) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ ایک مثل پر عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔
۲؎: شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے۔
۳؎: یعنی برابر ہونے کے قریب ہو گیا۔
۴؎: پہلے دن جبرئیل علیہ السلام نے ساری نمازیں اوّل وقت میں پڑھائیں، اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ ہر نماز کا اوّل اور آخر وقت معلوم ہو جائے۔

Narrated Abdullah Ibn Abbas: The Messenger of Allah ﷺ said: Gabriel ﷺ led me in prayer at the House (i. e. the Kabah). He prayed the noon prayer with me when the sun had passed the meridian to the extent of the thong of a sandal; he prayed the afternoon prayer with me when the shadow of everything was as long as itself; he prayed the sunset prayer with me when one who is fasting breaks the fast; he prayed the night prayer with me when the twilight had ended; and he prayed the dawn prayer with me when food and drink become forbidden to one who is keeping the fast. On the following day he prayed the noon prayer with me when his shadow was as long as himself; he prayed the afternoon prayer with me when his shadow was twice as long as himself; he prayed the sunset prayer at the time when one who is fasting breaks the fast; he prayed the night prayer with me when about the third of the night had passed; and he prayed the dawn prayer with me when there was a fair amount of light. Then turning to me he said: Muhammad, this is the time observed by the prophets before you, and the time is anywhere between two times.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 393


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (583)
حدیث نمبر: 394
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن سلمة المرادي، حدثنا ابن وهب، عن اسامة بن زيد الليثي، ان ابن شهاب اخبره، ان عمر بن عبد العزيز كان قاعدا على المنبر فاخر العصر شيئا، فقال له عروة بن الزبير: اما إن جبريل عليه السلام قد اخبر محمدا صلى الله عليه وسلم بوقت الصلاة، فقال له عمر: اعلم ما تقول، فقال عروة، سمعت بشير بن ابي مسعود، يقول: سمعت ابا مسعود الانصاري، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" نزل جبريل صلى الله عليه وسلم فاخبرني بوقت الصلاة، فصليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه، يحسب باصابعه خمس صلوات، فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" صلى الظهر حين تزول الشمس وربما اخرها حين يشتد الحر، ورايته يصلي العصر والشمس مرتفعة بيضاء قبل ان تدخلها الصفرة، فينصرف الرجل من الصلاة فياتي ذا الحليفة قبل غروب الشمس ويصلي المغرب حين تسقط الشمس، ويصلي العشاء حين يسود الافق، وربما اخرها حتى يجتمع الناس، وصلى الصبح مرة بغلس ثم صلى مرة اخرى فاسفر بها، ثم كانت صلاته بعد ذلك التغليس حتى مات، ولم يعد إلى ان يسفر"، قال ابو داود: وروى هذا الحديث عن الزهري معمر، ومالك، وابن عيينة، وشعيب بن ابي حمزة، والليث بن سعد، وغيرهم، لم يذكروا الوقت الذي صلى فيه ولم يفسروه، وكذلك ايضا رواه هشام بن عروة، وحبيب بن ابي مرزوق، عن عروة، نحو رواية معمر واصحابه، إلا ان حبيبا لم يذكر بشيرا، وروى وهب بن كيسان، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقت المغرب، قال: ثم جاءه للمغرب حين غابت الشمس يعني من الغد وقتا واحدا، قال ابو داود: وكذلك روي عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ثم صلى بي المغرب يعني من الغد وقتا واحدا، وكذلك روي عن عبد الله بن عمرو بن العاص من حديث حسان بن عطية، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ اللَّيْثِيِّ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَانَ قَاعِدًا عَلَى الْمِنْبَرِ فَأَخَّرَ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ: أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ عليه السلام قَدْ أَخْبَرَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَقْتِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ، فَقَالَ عُرْوَةُ، سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" نَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَنِي بِوَقْتِ الصَّلَاةِ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ وَرُبَّمَا أَخَّرَهَا حِينَ يَشْتَدُّ الْحَرُّ، وَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ قَبْلَ أَنْ تَدْخُلَهَا الصُّفْرَةُ، فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ مِنَ الصَّلَاةِ فَيَأْتِي ذَا الْحُلَيْفَةِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ حِينَ تَسْقُطُ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي الْعِشَاءَ حِينَ يَسْوَدُّ الْأُفُقُ، وَرُبَّمَا أَخَّرَهَا حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّاسُ، وَصَلَّى الصُّبْحَ مَرَّةً بِغَلَسٍ ثُمَّ صَلَّى مَرَّةً أُخْرَى فَأَسْفَرَ بِهَا، ثُمَّ كَانَتْ صَلَاتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ التَّغْلِيسَ حَتَّى مَاتَ، وَلَمْ يَعُدْ إِلَى أَنْ يُسْفِرَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ مَعْمَرٌ، وَمَالِكٌ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَشُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَغَيْرُهُمْ، لَمْ يَذْكُرُوا الْوَقْتَ الَّذِي صَلَّى فِيهِ وَلَمْ يُفَسِّرُوهُ، وَكَذَلِكَ أَيْضًا رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، وَحَبِيبُ بْنُ أَبِي مَرْزُوقٍ، عَنْ عُرْوَةَ، نَحْوَ رِوَايَةِ مَعْمَرٍ وَأَصْحَابِهِ، إِلَّا أَنَّ حَبِيبًا لَمْ يَذْكُرْ بَشِيرًا، وَرَوَى وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقْتَ الْمَغْرِبِ، قَالَ: ثُمَّ جَاءَهُ لِلْمَغْرِبِ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ يَعْنِي مِنَ الْغَدِ وَقْتًا وَاحِدًا، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ صَلَّى بِيَ الْمَغْرِبَ يَعْنِي مِنَ الْغَدِ وَقْتًا وَاحِدًا، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ مِنْ حَدِيثِ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز منبر پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے عصر میں کچھ تاخیر کر دی، اس پر عروہ بن زبیر نے آپ سے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کا وقت بتا دیا ہے؟ تو عمر بن عبدالعزیز نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو اسے سوچ لو ۱؎۔ عروہ نے کہا: میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جبرائیل علیہ السلام اترے، انہوں نے مجھے اوقات نماز کی خبر دی، چنانچہ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں (وقت کی) نماز کو شمار کرتے جا رہے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے سورج ڈھلتے ہی ظہر پڑھی، اور جب کبھی گرمی شدید ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دیر کر کے پڑھتے۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر اس وقت پڑھتے دیکھا جب سورج بالکل بلند و سفید تھا، اس میں زردی نہیں آئی تھی کہ آدمی عصر سے فارغ ہو کر ذوالحلیفہ ۲؎ آتا، تو سورج ڈوبنے سے پہلے وہاں پہنچ جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھتے اور عشاء اس وقت پڑھتے جب آسمان کے کناروں میں سیاہی آ جاتی، اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تاکہ لوگ اکٹھا ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھی، اور دوسری مرتبہ آپ نے اس میں اسفار ۳؎ کیا یعنی خوب اجالے میں پڑھی، مگر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر ہمیشہ غلس میں پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کبھی اسفار میں نماز نہیں ادا کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث زہری سے: معمر، مالک، ابن عیینہ، شعیب بن ابوحمزہ، لیث بن سعد وغیرہم نے بھی روایت کی ہے لیکن ان سب نے (اپنی روایت میں) اس وقت کا ذکر نہیں کیا، جس میں آپ نے نماز پڑھی، اور نہ ہی ان لوگوں نے اس کی تفسیر کی ہے، نیز ہشام بن عروہ اور حبیب بن ابی مرزوق نے بھی عروہ سے اسی طرح روایت کی ہے جس طرح معمر اور ان کے اصحاب نے روایت کی ہے، مگر حبیب نے (اپنی روایت میں) بشیر کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ عنہ سے، جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے وقت کی روایت کی ہے، اس میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام دوسرے دن مغرب کے وقت سورج ڈوبنے کے بعد آئے یعنی دونوں دن ایک ہی وقت میں آئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل نے مجھے دوسرے دن مغرب ایک ہی وقت میں پڑھائی۔ اسی طرح عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے یعنی حسان بن عطیہ کی حدیث جسے وہ عمرو بن شعیب سے، وہ ان کے والد سے، وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے، اور عبداللہ بن عمرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏م /المساجد 31 (610)، سنن النسائی/ المواقیت 1 (495)، سنن ابن ماجہ/ الصلاة 1 (668)، (تحفة الأشراف: 9977)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/ المواقیت 1 (521)، وبدء الخلق 6 (3221)، والمغازي 12 (4007)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1(1)، مسند احمد (4/120)، سنن الدارمی/الصلاة 3 (1223) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: عمر بن عبدالعزیز کو اس حدیث کے متعلق شبہہ ہوا کہ کہیں یہ ضعیف نہ ہو کیونکہ عروہ نے اسے بغیر سند بیان کیا تھا، یا یہ شبہہ ہوا کہ اوقات نماز کی نشاندہی تو اللہ تعالی نے معراج کی رات میں خود براہ راست کر دی ہے اس میں جبرئیل علیہ السلام کا واسطہ کہاں سے آ گیا، یا جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کیسے کی جبکہ وہ مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمتر ہیں، چنانچہ انہیں شبہات کے ازالہ کے لئے عروہ نے اسے مع سند بیان کرنا شروع کیا۔ ۲؎: ذوالحلیفہ مدینہ سے مکہ کے راستہ میں دو فرسخ (چھ میل یا ساڑھے نو کیلو میٹر) کی دوری پر ہے، اس وقت یہ بئر علی یا ابیار علی سے معروف ہے، یہ اہل مدینہ اور مدینہ کے راستہ سے گزرنے والے حجاج اور معتمرین کی میقات ہے۔ ۳؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر میں یہ پڑھنا جواز کے بیان کے لئے تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ غلس ہی میں فجر ادا کی۔

Ibn Shihab said: Umar bin Abdul Aziz was sitting on the pulpit and he somewhat postponed the afternoon prayer. Urwah bin al-Zubair said to him: "Gabriel informed Muhammed ﷺ of the time of prayer". So Umar said to him: "Be sure of what you are saying". Urwah then replied: "I heard Bashir bin Abu Masud say that he heard Abu Masud al-Ansari say that he heard the Messenger of Allah ﷺsay: 'Gabriel came down and informed me of the time of prayer, and I prayed along with him, then prayed along with him, then I prayed along with him, then I prayed along with him, then I prayed along with him, reckoning with his fingers five times of the prayer. ' I saw the Messenger of Allah ﷺ offering the Duhr prayer when the sun had passed the meridian. Sometimes he would delay it when it was sever heat ; and I witnessed that he prayer the Asr prayer when the sun was high and bright before the yellowness had overcome it; then a man could go off after the prayer and reach Dhu'l-Hulaifah before the sunset, and he would pray Maghrib when the sun had set ; and he would pray the 'Isha prayer when darkness prevailed over the horizon; sometime he would delay it until the people assembled; and once he prayer the fair prayer in the darkness of dawn and at another time he prayed it when it became fairly light; but later on he continued to pray in the darkness of dawn until his death; he never prayed it again in the light of the dawn. " Abu Dawud said: This tradition has been transmitted from al-Zuhri by Mamar, Malik, Ibn Uyainah, Shuaib bin Abi Hamzah, and al-Laith bin Saad and others; but they did not mention the time in which he (the Prophet) had prayer, nor did they explain it. And similarly it has been narrated by Hisham bin Urwah and Habib bin Abu Mazruq from Urwah like the report of Mamar and his companions. But Habib did not make a mention of Bashir. And Wahb bin Kaisan reported on the authority of Jabir from the Prophet ﷺ the time of the Maghrib prayer. He said: "Next day he (Gabriel) came to him at the time of the Maghrib prayer when the sun had already set. (He came both days) at the same time. " Abu Dawud said: Similarly, this tradition has been transmitted by Abu Hurairah from the Prophet ﷺ. He said: "Then he (Gabriel) led me in the sunset prayer next day at the same time. " Similarly, this tradition has been narrated through a different chain by Abdullah bin Amr bin al-As, through a chain from Hassan bin Atiyyah, from Amr bin Shuaib, from his father, on the authority from the Prophet ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 394


قال الشيخ زبير على زئي: حسن
للحديث شواھد حسن عند الحاكم (1/190 تا 193) وصححه الحاكم عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي . أسامة بن زيد الليثي وثقه الجمهور، وصرح الزھري بالسماع في أصل الحديث عند البيھقي (1/441)
حدیث نمبر: 395
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عبد الله بن داود، حدثنا بدر بن عثمان، حدثنا ابو بكر بن ابي موسى، عن ابي موسى،" ان سائلا سال النبي صلى الله عليه وسلم، فلم يرد عليه شيئا حتى امر بلالا، فاقام الفجر حين انشق الفجر فصلى حين كان الرجل لا يعرف وجه صاحبه، او ان الرجل لا يعرف من إلى جنبه، ثم امر بلالا فاقام الظهر حين زالت الشمس، حتى قال القائل: انتصف النهار وهو اعلم، ثم امر بلالا فاقام العصر والشمس بيضاء مرتفعة، وامر بلالا فاقام المغرب حين غابت الشمس، وامر بلالا فاقام العشاء حين غاب الشفق، فلما كان من الغد صلى الفجر وانصرف، فقلنا: اطلعت الشمس؟ فاقام الظهر في وقت العصر الذي كان قبله، وصلى العصر وقد اصفرت الشمس، او قال امسى، وصلى المغرب قبل ان يغيب الشفق، وصلى العشاء إلى ثلث الليل، ثم قال: اين السائل عن وقت الصلاة؟ الوقت فيما بين هذين"، قال ابو داود: روى سليمان بن موسى، عن عطاء، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، في المغرب بنحو هذا، قال: ثم صلى العشاء، قال بعضهم: إلى ثلث الليل، وقال بعضهم: إلى شطره، وكذلك روى ابن بريدة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى،" أَنَّ سَائِلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا حَتَّى أَمَرَ بِلَالًا، فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ انْشَقَّ الْفَجْرُ فَصَلَّى حِينَ كَانَ الرَّجُلُ لَا يَعْرِفُ وَجْهَ صَاحِبِهِ، أَوْ أَنَّ الرَّجُلَ لَا يَعْرِفُ مَنْ إِلَى جَنْبِهِ، ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، حَتَّى قَالَ الْقَائِلُ: انْتَصَفَ النَّهَارُ وَهُوَ أَعْلَمُ، ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُرْتَفِعَةٌ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ صَلَّى الْفَجْرَ وَانْصَرَفَ، فَقُلْنَا: أَطَلَعَتِ الشَّمْسُ؟ فَأَقَامَ الظُّهْرَ فِي وَقْتِ الْعَصْرِ الَّذِي كَانَ قَبْلَهُ، وَصَلَّى الْعَصْرَ وَقَدِ اصْفَرَّتِ الشَّمْسُ، أَوْ قَالَ أَمْسَى، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟ الْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الْمَغْرِبِ بِنَحْوِ هَذَا، قَالَ: ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ، قَالَ بَعْضُهُمْ: إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِلَى شَطْرِهِ، وَكَذَلِكَ رَوَى ابْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک سائل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اوقات نماز کے بارے میں) پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جب صبح صادق کی پو پھٹ گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر اس وقت پڑھی جب آدمی اپنے ساتھ والے کا چہرہ (اندھیرے کی وجہ سے) نہیں پہچان سکتا تھا، یا آدمی کے پہلو میں جو شخص ہوتا اسے نہیں پہچان سکتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت اس وقت کہی جب آفتاب ڈھل گیا یہاں تک کہ کہنے والے نے کہا: (ابھی تو) ٹھیک دوپہر ہوئی ہے، اور آپ کو خوب معلوم تھا (کہ زوال ہو چکا ہے)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی، اس وقت سورج بلند و سفید تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی اقامت سورج ڈوبنے پر کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عشاء کی اقامت اس وقت کہی جب شفق غائب ہو گئی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھی اور نماز سے فارغ ہوئے، تو ہم لوگ کہنے لگے: کیا سورج نکل آیا؟ پھر ظہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت پڑھی جس وقت پہلے روز عصر پڑھی تھی اور عصر اس وقت پڑھی جب سورج زرد ہو گیا یا کہا: شام ہو گئی، اور مغرب شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھی، اور عشاء اس وقت پڑھی جب تہائی رات گزر گئی، پھر فرمایا: کہاں ہے وہ شخص جو نماز کے اوقات پوچھ رہا تھا؟ نماز کا وقت ان دونوں کے بیچ میں ہے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سلیمان بن موسیٰ نے عطاء سے، عطاء نے جابر رضی اللہ عنہ سے، جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے بارے میں اسی طرح روایت کی ہے، اس میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی، بعض نے کہا: تہائی رات میں پڑھی، بعض نے کہا: آدھی رات میں، اور اسی طرح یہ حدیث ابن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ) سے، بریدہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 31 (613)، سنن النسائی/المواقیت 15 (522)، (تحفة الأشراف:9137)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 1 (152)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 1 (667)، مسند احمد (5/249) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: پہلے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری نمازیں اوّل وقت میں پڑھیں، اور دوسرے دن آخری وقت میں، ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتانے کے لئے کیا تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی فجر اسفار میں نہیں پڑھی اور نہ ہی کبھی بلاوجہ ظہر، عصر اور مغرب میں تاخیر کی۔

Abu Musa reported: A man asked the Prophet ﷺ [about the prayer times] but he did reply to him but he commanded Bilal, who made the announcement for the beginning of the time of the the fair prayer prayer when the dawn broke. He offered (the fair prayer) when a man (due to darkness) could not recognize the face of his companion ; or a man could not know the person who stood by his side. He then commanded Bilal who made announcement for the beginning of the time of the Zuhr prayer when the sun had passed the meridian until some said: Has the noon come ? While he (the Prophet) knew (the time) well. He the commanded Bilal who announced the beginning of the time of the Asr prayer when the sun was white and high. When the sunset he commanded Bilal who announced beginning of the time of the Maghrib prayer. When the twilight disappeared he commanded Bilal who announced the beginning of the Isha prayer. Next day he offered the Fajr prayer and returned until we said: Has the sun rise ? He observed the Zuhr prayer at the time he has previously observed the Asr prayer. He offered the Asr prayer at the time when the sun had become yellow or the evening had come. He offered the Maghrib prayer before the twilight had ended. He observed the Isha prayer when a third of the night had passed. He then asked: Where is the man who was asking me about the time of prayer. (Then replying to him he said): The time (of your prayer) lies within these two limits. Abu Dawud said: Sulaiman bin Musa has narrated this tradition about the time of the Maghrib prayer from Musa from Ata on the authority of Jabir from the Prophet ﷺ. This version adds: He then offered the Isha prayer when a third of the night had passed, as narrated (he said the Isha prayer) when half the night had passed. This tradition has been transmitted by Ibn Buraidah on the authority of his father from the Prophet ﷺ in a similar way.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 395


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (614)
حدیث نمبر: 396
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا ابي، حدثنا شعبة، عن قتادة، سمع ابا ايوب، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" وقت الظهر ما لم تحضر العصر، ووقت العصر ما لم تصفر الشمس، ووقت المغرب ما لم يسقط فور الشفق، ووقت العشاء إلى نصف الليل، ووقت صلاة الفجر ما لم تطلع الشمس".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، سَمِعَ أَبَا أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" وَقْتُ الظُّهْرِ مَا لَمْ تَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَسْقُطْ فَوْرُ الشَّفَقِ، وَوَقْتُ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ عصر کا وقت نہ آ جائے، عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہو جائے، مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ شفق کی سرخی ختم نہ ہو جائے، عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے، اور فجر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج نہ نکل آئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 31 (612)، سنن النسائی/المواقیت 14 (523)، (تحفة الأشراف: 8946)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/210، 213، 223) (صحیح)» ‏‏‏‏

Abdullah bin Amr reported the Prophet ﷺ as saying: The time of the Zuhr prayer is as along as the time of the Asr prayer has not come; the time of the Asr prayer is as long as the sun has not become yellow ; the time of the Maghrib prayer is as long as the twilight has not ended; the time of the Isha prayer is up to midnight; and the time of the Fajr prayer is as long as the sun has not risen.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 396


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (612)
3. باب فِي وَقْتِ صَلاَةِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَكَيْفَ كَانَ يُصَلِّيهَا
3. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات نماز کا بیان اور آپ نماز کیسے پڑھتے تھے؟
Chapter: The Times Of The Prophet’s (saws) Prayers And How He Used To Pray Them.
حدیث نمبر: 397
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن محمد بن عمرو وهو ابن الحسن بن علي بن ابي طالب، قال: سالنا جابرا عن وقت صلاة النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" كان يصلي الظهر بالهاجرة، والعصر والشمس حية، والمغرب إذا غربت الشمس، والعشاء إذا كثر الناس عجل وإذا قلوا اخر، والصبح بغلس".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو وَهُوَ ابْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرًا عَنْ وَقْتِ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ، وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَالْعِشَاءَ إِذَا كَثُرَ النَّاسُ عَجَّلَ وَإِذَا قَلُّوا أَخَّرَ، وَالصُّبْحَ بِغَلَسٍ".
محمد بن عمرو سے روایت ہے (اور وہ حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے لڑکے ہیں) وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جابر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے اوقات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے تھے، عصر ایسے وقت پڑھتے کہ سورج زندہ رہتا، مغرب سورج ڈوب جانے پر پڑھتے، اور عشاء اس وقت جلدی ادا کرتے جب آدمی زیادہ ہوتے، اور جب کم ہوتے تو دیر سے پڑھتے، اور فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المواقیت 18 (560)، 21 (565)، صحیح مسلم/المساجد 40 (646)، سنن النسائی/المواقیت 17 (528)، (تحفة الأشراف: 2644)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/369)، سنن الدارمی/الصلاة 2 (1222) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
اس سے پہلے والے باب میں مطلق وقت کا بیان تھا اور اس باب میں مستحب اوقات کا بیان ہے جن میں نماز پڑھنی افضل ہے۔

Muhammad bin Amr bin al-Hasan reported: We asked Jabir about the time of the prayer of the Messenger of Allah ﷺ. He said: He used to offer the Zuhr prayer in the midday heat, the Asr prayer when the sun was bright, the Maghrib prayer when the sun had completely set, the Isha prayer early when many people were present, but late if there were few, and the Fajr prayer in the darkness (of the dawn).
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 397


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (560) صحيح مسلم (646)
حدیث نمبر: 398
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن ابي المنهال، عن ابي برزة، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي الظهر إذا زالت الشمس، ويصلي العصر وإن احدنا ليذهب إلى اقصى المدينة ويرجع والشمس حية، ونسيت المغرب، وكان لا يبالي تاخير العشاء إلى ثلث الليل، قال: ثم قال: إلى شطر الليل، قال: وكان يكره النوم قبلها، والحديث بعدها، وكان يصلي الصبح وما يعرف احدنا جليسه الذي كان يعرفه، وكان يقرا فيها من الستين إلى المائة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي الْعَصْرَ وَإِنَّ أَحَدَنَا لَيَذْهَبُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَيَرْجِعُ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَنَسِيتُ الْمَغْرِبَ، وَكَانَ لَا يُبَالِي تَأْخِيرَ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، قَالَ: وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا، وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يُصَلِّي الصُّبْحَ وَمَا يَعْرِفُ أَحَدُنَا جَلِيسَهُ الَّذِي كَانَ يَعْرِفُهُ، وَكَانَ يَقْرَأُ فِيهَا مِنَ السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ".
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے اور عصر اس وقت پڑھتے کہ ہم میں سے کوئی آدمی مدینہ کے آخری کنارے پر جا کر وہاں سے لوٹ آتا، اور سورج زندہ رہتا (یعنی صاف اور تیز رہتا) اور مغرب کو میں بھول گیا، اور عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، پھر انہوں نے کہا: آدھی رات تک مؤخر کرنے میں (کوئی حرج محسوس نہیں کرتے) فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے کو اور عشاء کے بعد بات چیت کو برا جانتے تھے، اور فجر پڑھتے اور حال یہ ہوتا کہ ہم میں سے ایک اپنے اس ساتھی کو جسے وہ اچھی طرح جانتا ہوتا، اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہیں پاتا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المواقیت 11 (541)، 13 (547)، 23 (568)، 38 (598)، صحیح مسلم/المساجد 40 (647)، سنن الترمذی/الصلاة 11 (168)، سنن النسائی/المواقیت 1 (496)، 16 (526)، 20 (531)، الافتتاح 42 (949)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 3 (674)، 12 (701)، (تحفة الأشراف: 11605)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/420، 421، 423، 424، 425)، سنن الدارمی/الصلاة 66 (1338)، ویأتي في الأدب 4894 (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا معمول رہا ہے کہ آپ اول وقت میں نماز پڑھتے تھے مگر نماز عشاء میں افضل یہ ہے کہ تاخیر کی جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل بھی یہی تھا۔ عشاء سے پہلے سونا اور بعد ازاں لایعنی باتوں اور کاموں میں لگے رہنا مکروہ ہے الا یہ کہ کوئی اہم مقصد پیش نظر ہو جیسے کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ مشغول گفتگو رہتے تھے۔ فجر کی نماز کے بارے میں صحیح احادیث میں وضاحت آئی ہے کہ فراغت کے بعد ہمار ایک آدمی اپنے ساتھی کو پہچان سکتا تھا نہ کہ نماز شروع کرتے وقت۔ فجر کی نماز میں قراءت مناسب حد تک لمبی ہونی چاہیے۔

Abu Barzah reported: The Messenger of Allah ﷺ would offer the Zuhr prayer when the sun had passed the meridian; he would offer Asr prayer after which one of us would visit the skirts of Madina and return him while the sun was still bright; I forgot what he said about the Maghrib prayer; he did not fear postponing the Isha prayer until a third of night had passed, or he said: until the midnight had passed. He would dislike sleeping before it or talking after it. And he would offer the Fajr prayer when a man could recognize his neighbor whom he recognized well; and he would recite from sixty to a hundred verses during it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 398


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (541) صحيح مسلم (647)
4. باب فِي وَقْتِ صَلاَةِ الظُّهْرِ
4. باب: ظہر کے وقت کا بیان۔
Chapter: The Time For Zurh Prayer.
حدیث نمبر: 399
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، ومسدد، قالا: حدثنا عباد بن عباد، حدثنا محمد بن عمرو، عن سعيد بن الحارث الانصاري، عن جابر بن عبد الله، قال:" كنت اصلي الظهر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فآخذ قبضة من الحصى لتبرد في كفي اضعها لجبهتي اسجد عليها لشدة الحر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كُنْتُ أُصَلِّي الظُّهْرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَآخُذُ قَبْضَةً مِنَ الْحَصَى لِتَبْرُدَ فِي كَفِّي أَضَعُهَا لِجَبْهَتِي أَسْجُدُ عَلَيْهَا لِشِدَّةِ الْحَرِّ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر پڑھتا تو ایک مٹھی کنکری اٹھا لیتا تاکہ وہ میری مٹھی میں ٹھنڈی ہو جائے، میں اسے گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنی پیشانی کے نیچے رکھ کر اس پر سجدہ کرتا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏وقد تفرد بہ أبو داود: (تحفة الأشراف: 2252)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/التطبیق 33 (1080)، مسند احمد (3/327) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
معلوم ہوا کہ ظہر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں گرمی کے وقت میں ادا فرماتے تھے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کا بھی یہی معمول رہا۔ شرعی ضرورت کے تحت اس قسم کا عمل جیسے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کیا جائز ہے۔

Narrated Jabir ibn Abdullah: I would offer my noon prayer with the Messenger of Allah ﷺ and took a handful of gravels so that they might become cold in my hand and I placed them (before me) so that I may put my forehead on them at the time when I would prostrate. I did this due to the intensity of heat.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 399


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (1011)
حدیث نمبر: 400
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا عبيدة بن حميد، عن ابي مالك الاشجعي سعد بن طارق، عن كثير بن مدرك، عن الاسود، ان عبد الله بن مسعود، قال:" كانت قدر صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصيف ثلاثة اقدام إلى خمسة اقدام، وفي الشتاء خمسة اقدام إلى سبعة اقدام".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ الْأَسْوَدِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، قَالَ:" كَانَتْ قَدْرُ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّيْفِ ثَلَاثَةَ أَقْدَامٍ إِلَى خَمْسَةِ أَقْدَامٍ، وَفِي الشِّتَاءِ خَمْسَةَ أَقْدَامٍ إِلَى سَبْعَةِ أَقْدَامٍ".
اسود کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (نماز ظہر) کا اندازہ گرمی میں تین قدم سے پانچ قدم تک اور جاڑے میں پانچ قدم سے سات قدم تک تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/المواقیت 5 (504)، (تحفة الأشراف: 9186) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ آپ زوال کے بعد جو زیادہ سے زیادہ تاخیر کرتے وہ اسی قدر ہوتی تھی کہ گرمیوں میں سایہ تین سے پانچ قدم اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہوتا تھا، یعنی اصلی سایہ اور زائد دونوں کا مجموعہ ملا کر اس مقدار کو پہنچتا تھا نہ کہ صرف زائد۔

Narrated Abdullah ibn Masud: The extent of the shadow when the Messenger of Allah prayed (the noon prayer) was three to five feet in summer and five to seven feet in winter.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 400


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (586)

1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.