اس سند سے بھی ابوسہیل نافع بن مالک بن ابی عامر سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے باپ کی قسم! ۱؎ اگر اس نے سچ کہا تو وہ بامراد رہا، اور اس کے باپ کی قسم! اگر اس نے سچ کہا تو وہ جنت میں جائے گا“۔
وضاحت: ۱؎: یہ قسم عادت کے طور پر ہے، بالارادہ نہیں، یا غیر اللہ کی قسم کی ممانعت سے پہلے کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 5009) (صحیح)»
This tradition has also been reported by Abu Suhail Nafi bin Malik bin Abi Amir through a different chain of narrators. It adds: He will be successful, by his father, if he speaks the truth; he will enter Paradise, by his father, if he speaks the truth.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 392
قال الشيخ الألباني: شاذ بزيادة وأبيه
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1891 مختصرًا) صحيح مسلم (11)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 392
392۔ اردو حاشیہ: اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسم کھائی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے، اس کی بابت علماء نے کہا ہے کہ یہ واقعہ ممانعت سے پہلے کا ہے یا پھر اس کی حیثیت بغیر قصد کے عادت کے طور پر قسم کھانے کی ہے جو قرآن کریم کی آیت «لا يواخذ كم الله باللغو فى ايمانكم»[البقره: 2؍ 225] ” اللہ تعالیٰ تم سے تمہاری لغو قسموں پر مواخذہ نہیں کرے گا۔“ کی رُو سے معاف ہے۔ تاہم یہ عادت صحیح نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں میں جہالت اور مشرکانہ عقیدے عام ہیں، ایسے ماحول میں غیر اللہ کی قسم کھانے سے سختی کے ساتھ رکنے اور دوسروں کو روکنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ لوگ شرک سے بچ سکیں۔ ویسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت میں الفاظ «وابيه»” قسم ہے اس کے باپ کی۔“ کو شاذ قرار دیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 392