محمد بن عباد اور ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں مروان فزاری نے یزید بن کیسان سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو حازم سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!جبکہ ابن عباد نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جان ہے!۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے گھروالوں کو تین لگاتار گندم کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھلائی تھی یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے!ابن عباد کی روایت میں ہے،ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان جس کے ہاتھ میں ہے!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے اہل کو متواتر تین دن پیٹ بھر گندم کی روٹی نہیں کھلائی،حتی کہ دنیا چھوڑگئے۔
یحییٰ بن سعید نے ہمیں یزید بن کیسان سے حدیث بیان کی، انھوں نےکہا: مجھے حازم نے حدیث بیان کی کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کئی بار دیکھا وہ انگلی سے اشارہ کرتے تھے کہتے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جان ہے!اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھروالوں نے کبھی لگاتار تین دن گندم کی روٹی سیر ہوکر نہیں کھائی تھی یہاں تک کہ آپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ابوحازم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں میں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بار بار انگلی کا اشارہ کرتے دیکھا وہ کہہ رہے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والےمسلسل تین دن گندم کی روٹی سےسیر نہیں ہوئے حتی کہ آپ نے دنیا کو چھوڑدیا۔
قتیبہ بن سعید اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں ابو احوص نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: کیا تم لوگوں کو اپنی مرضی کا کھانا اور پینا میسر نہیں؟میں نے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا آپ کے پاس روٹی کھجور بھی اتنی نہیں ہو تی تھی جس سے آپ اپنا پیٹ بھر لیں۔اور قتیبہ نےبہ (جس سے) کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے،کیا تم اپنی مرضی کاکھاتے پیتے نہیں ہو؟میں تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حالات سے گزرتے دیکھ چکا ہوں کہ آپ کو سیر ہونے کے لیے(پیٹ بھرنے کے لیے)روی کھجوریں بھی میسر نہ تھیں۔قتیبہ نے "يَملابه" کے بعد نہیں کہا۔
زہیر اور اسرائیل دونوں نے سماک سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مطابق حدیث بیان کی اور زہیر کی حدیث میں مزید ہے اور تم کھجوروں اور مکھن کی کئی قسموں کے بغیر راضی نہیں ہوتے۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں اور زبیر کی روایت میں یہ اضافہ ہے اور تم رنگ برنگ کھجوروں اور مکھن کے بغیر مطمئن ہی نہیں ہوتے ہو۔
شعبہ نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات کا ذکر کیا کہ لوگوں نے دنیا میں سے کیا کچھ حاصل کر لیاہے۔پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا آپ پورا دن بھوک لوٹتے تھے اور آپ کو سوکھی ہوئی اتنی سخت کھجور بھی میسر نہ ہوتی تھی جس سے اپنا پیٹ بھر لیتے۔
سماک بن حرب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتےہیں،میں نے نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطبہ میں یہ بیان کرتے سنا،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں نے جس قدر دنیا حاصل کرلی ہے،اس کاذکر کرکے فرمایا،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دن بھر بھوک سے پیچ وتاب کھاتے دیکھا،آپ کو پیٹ بھرنے کے لیے ردی کھجوریں بھی دستیاب نہ تھیں۔
ابو ہانی نے ابو عبد الرحمٰن کو کہتے ہوئے سنا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے سنا ان سے کسی آدمی نے پوچھا تھا کیا: ہم فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہیں؟تو حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: کیا تمھاری بیوی ہے جس کے پاس تم آرام کرنے کے لیے جاتے ہو۔"اس نے کہا: ہاں پوچھا: کیا تمھارے پاس رہائش گاہ ہےجہاں تم رہتے ہو؟ اس نے کہا: میرے پاس تو خادم (بھی) ہے کہا: پھر تو تم بادشاہوں میں سے ہو۔
ابو عبد الرحمٰن حُبلی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ان سے کسی آدمی نے پوچھا تھا کیا:ہم فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہیں؟تو حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے کہا:کیا تمھاری بیوی ہے جس کے پاس تم آرام کرنے کے لیے جاتے ہو۔"اس نے کہا:ہاں پوچھا:کیا تمھارے پاس رہائش گاہ ہےجہاں تم رہتے ہو؟ اس نے کہا: میرے پاس تو خادم (بھی) ہے کہا: پھر تو تم بادشاہوں میں سے ہو۔(جن کو یہ سہولت میسر ہوتی ہے)
(حديث موقوف) قال ابو عبد الرحمن : وجاء ثلاثة نفر إلى عبد الله بن عمرو بن العاص ، وانا عنده، فقالوا يا ابا محمد: إنا والله ما نقدر على شيء، لا نفقة، ولا دابة، ولا متاع، فقال لهم: ما شئتم إن شئتم رجعتم إلينا، فاعطيناكم ما يسر الله لكم، وإن شئتم ذكرنا امركم للسلطان، وإن شئتم صبرتم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن فقراء المهاجرين يسبقون الاغنياء يوم القيامة إلى الجنة باربعين خريفا "، قالوا: فإنا نصبر لا نسال شيئا.(حديث موقوف) قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ : وَجَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالُوا يَا أَبَا مُحَمَّدٍ: إِنَّا وَاللَّهِ مَا نَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ، لَا نَفَقَةٍ، وَلَا دَابَّةٍ، وَلَا مَتَاعٍ، فَقَالَ لَهُمْ: مَا شِئْتُمْ إِنْ شِئْتُمْ رَجَعْتُمْ إِلَيْنَا، فَأَعْطَيْنَاكُمْ مَا يَسَّرَ اللَّهُ لَكُمْ، وَإِنْ شِئْتُمْ ذَكَرْنَا أَمْرَكُمْ لِلسُّلْطَانِ، وَإِنْ شِئْتُمْ صَبَرْتُمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَسْبِقُونَ الْأَغْنِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى الْجَنَّةِ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا "، قَالُوا: فَإِنَّا نَصْبِرُ لَا نَسْأَلُ شَيْئًا.
ابو عبد الرحمان نے کہا: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس تین شخص آئے جبکہ میں ان کے ہاں تھا وہ کہنے لگے: ابو محمد!اللہ کی قسم! ہمیں کوئی چیز میسر نہیں ہے نہ خرچ نہ سواری اور نہ اور نہ سامان (وہ لوگ واقعتاًفقیر تھے) حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟اگر تم پسند کرو تو دوبارہ ہمارے پاس آؤ اللہ تعالیٰ جو تمھارےلیے مہیاکرے گا ہم تمھیں دے دیں گے۔اگر چاہو تو ہم تمھاراذکر بااختیار حاکم کے پاس کردیں گے۔ (وہ تمھاری ضرورتوں کا خیال رکھے گا) اور اگر تم چاہو تو صبر کرومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "بے شک ہجرت کر کے آنے والے فقیر قیامت کے روز اغنیاء کی نسبت چالیس سال پہلے جنت میں جا ئیں گے۔ان (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: ہم صبر کریں گے۔کوئی چیز نہیں مانگیں گے۔
ابو عبد الرحمان بیان کرتےہیں:حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تین شخص آئے جبکہ میں ان کے ہاں تھا وہ کہنے لگے:ابو محمد!اللہ کی قسم! ہمیں کوئی چیز میسر نہیں ہے نہ خرچ نہ سواری اور نہ اور نہ سامان حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟اگر تم پسند کرو تو دوبارہ ہمارے پاس آؤ اللہ تعالیٰ جو تمھارےلیے مہیاکرے گا ہم تمھیں دے دیں گے۔اگر چاہو تو ہم تمھاراذکر بااختیار حاکم کے پاس کردیں گے۔(وہ تمھاری ضرورتوں کا خیال رکھے گا)اور اگر تم چاہو تو صبر کرومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:"بے شک ہجرت کر کے آنے والے فقیر قیامت کے روز اغنیاء کی نسبت چالیس سال پہلے جنت میں جا ئیں گے۔ان(صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)نے کہا:ہم صبر کریں گے۔کوئی چیز نہیں مانگیں گے۔
عبد اللہ بن دینار نے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب حجرکے متعلق فرمایا: "ان عذاب دیے گئے لوگوں کے ہاں (ان کے گھروں میں داخل نہ ہو نا مگر اس صورت میں کہ تم (اللہ کےغضب کے ڈرسے) رورہے ہو۔ اگر تم رو نہیں رہے ہوتو ان کے ہاں داخل نہ ہونا ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب آجا ئے جو ان پر آیاتھا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب حجرکے متعلق فرمایا:"ان عذاب دیے گئے لوگوں کے ہاں ان کے گھروں میں داخل نہ ہو نا مگر اس صورت میں کہ تم رورہے ہو۔ اگر تم رو نہیں رہے ہوتو ان کے ہاں داخل نہ ہونا ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب آجا ئے جو ان پر آیاتھا۔
حدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب وهو يذكر الحجر مساكن ثمود، قال سالم بن عبد الله : إن عبد الله بن عمر ، قال: مررنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الحجر، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا انفسهم، إلا ان تكونوا باكين حذرا ان يصيبكم مثل ما اصابهم، ثم زجر فاسرع حتى خلفها ".حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ وَهُوَ يَذْكُرُ الْحِجْرَ مَسَاكِنَ ثَمُودَ، قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: مَرَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْحِجْرِ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ، إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ حَذَرًا أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ، ثُمَّ زَجَرَ فَأَسْرَعَ حَتَّى خَلَّفَهَا ".
سالم بن عبد اللہ نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجر (قوم ثمود کی اجڑی ہوئی بستی) کے پاس سے گزرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: " جن لوگوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کی رہائش گا ہوں میں داخل نہ ہونا مگر اس طرح کہ تم رورہے ہو۔ڈرہے کہ تمھیں بھی وہی عذاب نہ آئےجس نے انھیں آلیا تھا "پھر آپ نے زور سے سواری کو ہانکا رفتار تیز کی یہاں تک کہ اس جگہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجر کے پاس سے گزرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا:" جن لوگوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کی رہائش گاہوں میں داخل نہ ہونا مگر اس طرح کہ تم رورہے ہو۔ڈرہے کہ تمھیں بھی وہی عذاب نہ آئےجس نے انھیں آلیا تھا "پھر آپ نے زور سے سواری کو ہانکا رفتار تیز کی یہاں تک کہ اس جگہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔
حدثني الحكم بن موسى ابو صالح ، حدثنا شعيب بن إسحاق ، اخبرنا عبيد الله ، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر اخبره ان الناس نزلوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الحجر ارض ثمود، فاستقوا من آبارها، وعجنوا به العجين، " فامرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يهريقوا ما استقوا، ويعلفوا الإبل العجين، وامرهم ان يستقوا من البئر التي كانت تردها الناقة "،حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّاسَ نَزَلُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْحِجْرِ أَرْضِ ثَمُودَ، فَاسْتَقَوْا مِنْ آبَارِهَا، وَعَجَنُوا بِهِ الْعَجِينَ، " فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُهَرِيقُوا مَا اسْتَقَوْا، وَيَعْلِفُوا الْإِبِلَ الْعَجِينَ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْتَقُوا مِنَ الْبِئْرِ الَّتِي كَانَتْ تَرِدُهَا النَّاقَةُ "،
شعیب بن اسحٰق نے کہا: ہمیں عبید اللہ نے نافع سے خبر دی انھیں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ (سفر کرنے والے لوگ سرزمین ثمود حجر میں اتر گئے اور وہاں کے کنوؤں سے پانی حاصل کیا اور اس کے ساتھ آٹا (بھی) گوندھ لیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیاکہ انھوں نے جو پانی بھراہے وہ بہادیں اورگندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دیں اور ان سے کہا: کہ وہ اس کنویں سے پانی حاصل کریں جہاں (حضرت صالح رضی اللہ عنہ کی) اونٹنی پانی پینے کے لیے آیا کرتی تھی۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر کرنے والے لوگ سرزمین ثمود حجر میں اتر گئے اور وہاں کے کنوؤں سے پانی حاصل کیا اور اس کے ساتھ آٹا (بھی) گوندھ لیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیاکہ انھوں نے جو پانی بھراہے وہ بہادیں اورگندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دیں اور ان سے کہا: کہ وہ اس کنویں سے پانی حاصل کریں جہاں اونٹنی پانی پینے کے لیے آیا کرتی تھی۔