حدثنا زهير بن حرب ، وهارون بن عبد الله واللفظ لزهير، قالا: حدثنا حجاج بن محمد ، عن ابن جريج ، اخبرني ابن ابي مليكة ، ان حميد بن عبد الرحمن بن عوف اخبره، ان مروان، قال: اذهب يا رافع لبوابه إلى ابن عباس، فقل: لئن كان كل امرئ منا فرح بما اتى واحب ان يحمد بما لم يفعل معذبا لنعذبن اجمعون، فقال ابن عباس: " ما لكم ولهذه الآية إنما انزلت هذه الآية في اهل الكتاب، ثم تلا ابن عباس وإذ اخذ الله ميثاق الذين اوتوا الكتاب لتبيننه للناس ولا تكتمونه سورة آل عمران آية 187 هذه الآية وتلا ابن عباس لا تحسبن الذين يفرحون بما اتوا ويحبون ان يحمدوا بما لم يفعلوا سورة آل عمران آية 188، وقال ابن عباس : سالهم النبي صلى الله عليه وسلم عن شيء، فكتموه إياه واخبروه بغيره، فخرجوا قد اروه ان قد اخبروه بما سالهم عنه، واستحمدوا بذلك إليه وفرحوا بما اتوا من كتمانهم إياه ما سالهم عنه.حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ مَرْوَانَ، قَالَ: اذْهَبْ يَا رَافِعُ لِبَوَّابِهِ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْ: لَئِنْ كَانَ كُلُّ امْرِئٍ مِنَّا فَرِحَ بِمَا أَتَى وَأَحَبَّ أَنْ يُحْمَدَ بِمَا لَمْ يَفْعَلْ مُعَذَّبًا لَنُعَذَّبَنَّ أَجْمَعُونَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " مَا لَكُمْ وَلِهَذِهِ الْآيَةِ إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي أَهْلِ الْكِتَابِ، ثُمَّ تَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلا تَكْتُمُونَهُ سورة آل عمران آية 187 هَذِهِ الْآيَةَ وَتَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا سورة آل عمران آية 188، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : سَأَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَتَمُوهُ إِيَّاهُ وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ، فَخَرَجُوا قَدْ أَرَوْهُ أَنْ قَدْ أَخْبَرُوهُ بِمَا سَأَلَهُمْ عَنْهُ، وَاسْتَحْمَدُوا بِذَلِكَ إِلَيْهِ وَفَرِحُوا بِمَا أَتَوْا مِنْ كِتْمَانِهِمْ إِيَّاهُ مَا سَأَلَهُمْ عَنْهُ.
ابن جریج سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے ابن ابی ملیکہ نے بتایا، انہیں حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی کہ مروان نے اپنے دربان سے کہا: "رافع! حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور کہو کہ اگر یہ بات ہے کہ ہم میں سے ہر شخص جو اپنے کیے پر خوش ہوتا ہے اور ہر ایک جو یہ پسند کرتا ہے کہ جو اس نے نہیں کیا، اس پر اس کی تعریف کی جائے، اس کو عذاب ہو گا تو ہم سب ہی ضرور عذاب میں ڈالے جائیں گے۔ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم لوگوں کا اس آیت سے کیا تعلق (بنتا) ہے؟ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں اتری تھی، پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے (اس سے پہلی) یہ آیت پڑھی: "اور جب اللہ نے ان لوگوں کا، جنہیں کتاب دی گئی تھی، عہد لیا کہ تم اسے لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کرو گے اور اس کو چھپاؤ گے نہیں۔" پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے (اس کے بعد والی) آیت تلاوت فرمائی: "ان لوگوں کے بارے میں گمان نہ کرو جو اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں اور پسند کرتے ہیں کہ اس کام پر ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کیا۔" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (ان کی کتاب میں لکھی ہوئی) کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے آپ سے وہ چیز چھپا لی اور (اس کے بجائے) ایک دوسری بات بتا دی اور وہ اس طرح نکلے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ظاہر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جو پوچھا تھا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی بتا دیا ہے اور اس بات پر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعریف بھی بٹورنی چاہی اور جو بات آپ نے ان سے پوچھی وہ بات چھپا کر انہوں نے جو کچھ لیا تھا اس پر (اپنے دلوں میں) خوش بھی ہوئے۔
حمید رحمۃ اللہ علیہ بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مروان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دربان سے کہا، اے ابو رافع! حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤ اور پوچھو، اگر ہم میں سے ہر وہ فرد جو اپنے کیے پر خوش ہوتا ہے اور جو کام نہیں کیا، اس پر تعریف چاہتا ہے، عذاب سے دوچار ہو گا تو پھر ہم سب کو عذاب سے گزرنا پڑے گا تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا۔ تمھارا اس آیت سے کیا تعلق؟ یہ آیت تو بس اہل کتاب کے بارے میں اتری ہے۔پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت پڑھی۔"اس وقت کو یاد کرو، جب اللہ نے ان لوگوں سے عہد لیا جنہیں کتاب دی گئی تھی کہ تم اسے اچھی طرح بیان کرو گے۔اور اسے چھپاؤ گے نہیں تو انھوں نے اس عہد کو پس پشت پھینک دیا اور اس کے عوض حقیر مال حاصل کیا، انتہائی بری چیز جو وہ لے رہے ہیں۔"اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت پڑھی،"وہ لوگ جو اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں جو کام انھوں نے نہیں کیا، اس پر ان کی تعریف کی جائے خیال نہ کریں۔"(آل عمران،آیت نمبر187۔188۔) اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے چھپا لیا اور آپ کوکوئی اور چیز بتادی اور آپ یہ ظاہر کرتے ہوئے نکلے کہ انھوں نے آپ کو وہ چیز بتادی ہے، جس کے بارے میں آپ نے ان سے سوال کیا اور اس طرز عمل سے آپ سے تعریف کی خواہش کی اور آپ نے ان سے جس کے بارے میں سوال کیا تھا، اس کے آپ سے چھپانے پر خوش ہوئے۔"
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا شعبة بن الحجاج ، عن قتادة ، عن ابي نضرة ، عن قيس ، قال: قلت لعمار ارايتم صنيعكم هذا الذي صنعتم في امر علي ارايا رايتموه او شيئا عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فقال: ما عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس كافة، ولكن حذيفة اخبرني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " في اصحابي اثنا عشر منافقا، فيهم ثمانية لا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل في سم الخياط ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة واربعة "، لم احفظ ما قال شعبة فيهم.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ أَرَأَيْتُمْ صَنِيعَكُمْ هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ فِي أَمْرِ عَلِيٍّ أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنْ حُذَيْفَةُ أَخْبَرَنِي، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ "، لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ.
اسود بن عامر نے کہا: ہمیں شعبہ بن حجاج نے قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابونضرہ سے اور انہوں نے قیس (بن عباد) سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ نے اپنے اس کام پر غور کیا جو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معاملے میں کیا ہے (ان کا بھرپور ساتھ دیا ہےاور ان کے مخالفین سے جنگ تک کی ہے) یہ آپ کے اپنے غوروفکر سے اختیار کی ہوئی آپ کی رائے تھی یا ایسی چیز تھی جس کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ لوگوں کے سپرد کی تھی؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی ذمہ داری ہمارے سپرد نہیں کی جو انہوں نے تمام لوگوں کے سپرد نہ کی ہو لیکن حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے ساتھیوں میں سے بارہ افراد منافق ہیں، ان میں سے آٹھ ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے (کبھی داخل نہیں ہوں گے)، ان میں آٹھ ایسے ہیں (کہ ان کے شر سے نجات کے لیے ان کے کندھوں کے درمیان ظاہر ہونے والا سرخ) پھوڑا تمہاری نجات کے لیے تمہیں کفایت کرے گا۔ اور چار۔" (آگے کا حصہ) مجھے (اسود بن عامر کو) یاد نہیں کہ شعبہ نے ان (چار) کے بارے میں کیا کہا تھا۔
قیس رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا بتائیے آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معاملہ میں جو وطیرہ (مددو نصرت) اپنایا کیا یہ طرز عمل تمھاری اپنی سوچ تھی، جو تم نے سوچی یا ایسی چیز جس کی تلقین تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی؟ تو انھوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسی ایسی چیز کی تلقین نہیں فرمائی،جس کی تاکید سب لوگوں کو نہ کی ہو، لیکن حضرت خذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میرے ساتھیوں میں منافق ہیں(یعنی میرے ماننے والوں میں سے) ان میں سے آٹھ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکیں گے، جب تک اونٹ سوئی کے ناکہ سے نہ گزرجائے، ان میں سے آٹھ کے لیے دبیلہ (پیٹ کا پھوڑا) کافی ہو گا اور چار" کے بارے میں مجھے یاد نہیں ہے۔(یعنی اسود کو) کہ شعبہ نے کیا کہا تھا۔
حدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، عن ابي نضرة ، عن قيس بن عباد ، قال: قلنا لعمار : ارايت قتالكم ارايا رايتموه فإن الراي يخطئ ويصيب او عهدا عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فقال: ما عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس كافة، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن في امتي، قال شعبة: واحسبه، قال: حدثني حذيفة ، وقال غندر: اراه قال: " في امتي اثنا عشر منافقا لا يدخلون الجنة، ولا يجدون ريحها حتى يلج الجمل في سم الخياط، ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة سراج من النار يظهر في اكتافهم حتى ينجم من صدورهم ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ: قُلْنَا لِعَمَّارٍ : أَرَأَيْتَ قِتَالَكُمْ أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ فَإِنَّ الرَّأْيَ يُخْطِئُ وَيُصِيبُ أَوْ عَهْدًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ فِي أُمَّتِي، قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ ، وَقَالَ غُنْدَرٌ: أُرَاهُ قَالَ: " فِي أُمَّتِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدُونَ رِيحَهَا حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ، ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ سِرَاجٌ مِنَ النَّارِ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ حَتَّى يَنْجُمَ مِنْ صُدُورِهِمْ ".
محمد بن جعفر (غندر) نے کہا؛ ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابونضرہ سے اور انہوں نے قیس بن عباد سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم لوگوں نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں) اپنی جنگ کو کیسے دیکھتے ہیں، کیا یہ ایک رائے ہے جو آپ نے غوروفکر سے اختیار کی ہے؟ تو رائے غلط بھی ہو سکتی ہے اور صحیح بھی، یا کوئی ذمہ داری ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کوئی ایسی (خصوصی) ذمہ داری نہیں دی تھی جو تمام لوگوں کے سپرد نہ کی ہو اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "بےشک میری امت میں۔۔۔" شعبہ نے کہا: اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے کہا تھا: مجھے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے (یہ) حدیث سنائی۔ اور غندر نے کہا: مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے کہا: "میری امت میں بارہ منافق ہیں، وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے اور نہ اس کی خوشبو پائیں گے، جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہ ہو جائے۔ ان میں سے آٹھ ایسے ہیں (کہ ان کے شر سے بچاؤ کے لیے) تمہاری کفایت ایک ایسا پھوڑا کرے گا جو آگ کے جلتے ہوئے دیے کی طرح (اوپر سے سرک) ہو گا، ان کے کندھوں میں طاہر ہو گا یہاں تک کہ ان کے سینوں سے نکل آئے گا۔"
قیس بن عباد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ہم نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، لڑائی میں حصہ لینے کے بارے میں بتائیں، کیا یہ تمھاری سوچ تھی، جو تم نے سوچی؟کیونکہ رائے خطا بھی ہو سکتی ہے اور راست بھی،یا یہ تلقین تھی جو تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی؟تو انھوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسی ایسی چیز کی تلقین نہیں کی، جس کی تلقین سب لوگوں کو نہ کی ہو، اور کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میری امت میں۔"شعبہ کہتے ہیں میرا خیال ہے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، مجھے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا غندر کہتے ہیں میرا خیال ہے، آپ نے فرمایا: "میری امت میں بارہ منافق ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہیں ہوں گے اور نہ اس کی مہک محسوس کریں گے۔حتی کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہو جائے۔ ان میں سے آٹھ کے لیے دبیلہ کافی ہو گا۔" یعنی آگ کا چراغ جو ان کے کندھوں میں ظاہر ہو گا حتی کہ ان کے سینوں میں پھوٹے گا۔ یعنی سینوں سے نکلے گا۔"
حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا ابو احمد الكوفي ، حدثنا الوليد بن جميع ، حدثنا ابو الطفيل ، قال: كان بين رجل من اهل العقبة وبين حذيفة بعض ما يكون بين الناس، فقال " انشدك بالله كم كان اصحاب العقبة؟ قال: فقال له: القوم اخبره إذ سالك، قال: كنا نخبر انهم اربعة عشر، فإن كنت منهم فقد كان القوم خمسة عشر واشهد بالله ان اثني عشر منهم حرب لله ولرسوله في الحياة الدنيا، ويوم يقوم الاشهاد وعذر ثلاثة، قالوا: ما سمعنا منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا علمنا بما اراد القوم، وقد كان في حرة فمشى، فقال: إن الماء قليل فلا يسبقني إليه احد، فوجد قوما قد سبقوه فلعنهم يومئذ ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ، فَقَالَ " أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ قَالَ: فَقَالَ لَهُ: الْقَوْمُ أَخْبِرْهُ إِذْ سَأَلَكَ، قَالَ: كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ، فَإِنْ كُنْتَ مِنْهُمْ فَقَدْ كَانَ الْقَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ وَأَشْهَدُ بِاللَّهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حَرْبٌ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ وَعَذَرَ ثَلَاثَةً، قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَلِمْنَا بِمَا أَرَادَ الْقَوْمُ، وَقَدْ كَانَ فِي حَرَّةٍ فَمَشَى، فَقَالَ: إِنَّ الْمَاءَ قَلِيلٌ فَلَا يَسْبِقْنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ، فَوَجَدَ قَوْمًا قَدْ سَبَقُوهُ فَلَعَنَهُمْ يَوْمَئِذٍ ".
ولید بن جمیع نے کہا: ہمیں ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: عقبہ والوں میں سے ایک شخص اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان (اس طرح کا) جھگڑا ہو گیا جس طرح لوگوں کے درمیان ہو جاتا ہے۔ (گفتگو کے دوران میں) انہوں نے (اس شخص سے) کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ عقبہ والوں کی تعداد کتنی تھی؟ (حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے) کہا: لوگوں نے اس سے کہا: جب وہ آپ سے پوچھ رہے ہیں تو انہیں بتاؤ۔ (پھر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے خود ہی جواب دیتے ہوئے) کہا: ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ چودہ لوگ تھے اور اگر تم بھی ان میں شامل تھے تو وہ کل پندرہ لوگ تھے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے بارہ دنیا کی زندگی میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ میں تھے اور (آخرت میں بھی) جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین لوگوں کا عذر قبول فرما لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کرنے والے کا اعلان نہیں سنا تھا اور اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ ان لوگوں کا ارادہ کیا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حرہ میں تھے، آپ چل پڑے اور فرمایا: "پانی کم ہے، اس لیے مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے۔" چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہاں پہنچ کر) دیکھا کہ کچھ لوگ آپ سے پہلے وہاں پہنچ گئے ہیں تو آپ نے اس روز ان پر لعنت کی۔
حضرت ابو طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ تبوک کی گھاٹی والوں میں سے ایک کا حضرت خذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جھگڑا ہوا جیسا کہ لوگوں میں ہوہی جاتا ہےتو اس نے کہا، میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، اہل عقبہ کتنے اشخاص تھے؟ تو لوگوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا جب یہ آپ سے پوچھ رہا ہے تو آپ اسے بتادیں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہمیں بتایا جاتا تھا وہ چودہ تھے،اگر تو بھی ان کے ساتھ تھا تو وہ لوگ پندرہ ہو گئے اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں ان میں سے بارہ وہ ہیں جو دنیا میں اور جس دن گواہ کھڑےہوں گے۔اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے والے ہوں گے اور آپ نے تین کی معذرت قبول فرمائی انھوں نے کہا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کی آواز نہیں سنی تھی اور نہ ہمیں پتہ تھا ان لوگوں کا ارادہ کیا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنگریزوں میں چل رہے تھے تو آپ نے فرمایا:"آگے تھوڑا سا پانی آنے والا ہے تو مجھ سے پہلے اس پر کوئی نہ پہنچے۔"سو آپ نے کچھ لوگوں کو پایا کہ وہ آپ سے پہلے پانی پر پہنچ چکے ہیں تو آپ نے ان پر لعنت بھیجی۔"
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا قرة بن خالد ، عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من يصعد الثنية ثنية المرار، فإنه يحط عنه ما حط عن بني إسرائيل "، قال: فكان اول من صعدها خيلنا خيل بني الخزرج ثم تتام الناس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وكلكم مغفور له إلا صاحب الجمل الاحمر "، فاتيناه، فقلنا له: تعال يستغفر لك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: والله لان اجد ضالتي احب إلي من ان يستغفر لي صاحبكم، قال: وكان رجل ينشد ضالة له "،حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يَصْعَدُ الثَّنِيَّةَ ثَنِيَّةَ الْمُرَارِ، فَإِنَّهُ يُحَطُّ عَنْهُ مَا حُطَّ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ "، قَالَ: فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ صَعِدَهَا خَيْلُنَا خَيْلُ بَنِي الْخَزْرَجِ ثُمَّ تَتَامَّ النَّاسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَكُلُّكُمْ مَغْفُورٌ لَهُ إِلَّا صَاحِبَ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ "، فَأَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا لَهُ: تَعَالَ يَسْتَغْفِرْ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَأَنْ أَجِدَ ضَالَّتِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي صَاحِبُكُمْ، قَالَ: وَكَانَ رَجُلٌ يَنْشُدُ ضَالَّةً لَهُ "،
معاذ عنبری نے کہا: ہمیں قروہ بن خالد نے ابو زبیر سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سےروایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کون ہے جو اس گھاٹی (یعنی) مرار کی گھاٹی پرچڑھے گا!بے شک اس کے گناہ بھی اسی طرح جھڑ جائیں گے جس طرح بنی اسرائیل کے گناہ جھڑ گئے تھے۔" (حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو سب سے پہلے جو اس گھاٹی پر چڑھے وہ ہمارے بنو خزرج کے گھوڑ ے تھے، پھر لوگوں کا تانتابندھ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سب وہ ہو جن کے گناہ بخش دیئے گئے، سوائے سرخ اونٹ والے شخص کے۔"ہم اس کے پاس آئے اور (اس سے) کہا: آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے بھی استغفار فرمائیں۔اس نے کہا: اللہ کی قسم!اگر میں اپنی گم شدہ چیز پالوں تو یہ بات مجھے اس کی نسبت زیادہ پسند ہے کہ تمہارا صاحب میرے لئے مغفرت کی دعا کرے۔ (حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: وہ آدمی اس وقت اپنی سے کم شدہ چیز کو ڈھونڈنے کے لئے آوازیں لگارہا تھا۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھاٹی پر یعنی مرار کی گھاٹی پر کون چڑھے گا،کیونکہ اس سے گناہ اس طرح جھڑ جائیں گے، جس طرح بنو اسرائیل سے جھڑ گئے تھے تو اس پر سب سے پہلے ہمارے یعنی خزرج کے گھوڑے چڑھے پھر لوگوں کا تانتابندھ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم سب کو بخش دیا جائے گا سوائےسرخ اونٹ والے کے۔"چنانچہ ہم اس کے پاس آئے اور اسے کہا، آؤتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لیے بخشش طلب کریں تو اس نے کہا، واللہ!میرے لیے میری گمشدہ چیز کامل جانا،اس سے زیادہ محبوب ہے تمھارا ساتھی میرے لیے بخشش طلب کرے، اور وہ آدمی اپنی گمشدہ چیز تلاش کررہا تھا۔
یحییٰ بن حبیب حارثی نے ہمیں یہی حدیث بیان کی، کہا: ہمیں خالد بن حارث نےحدیث بیان کی، کہا: ہمیں قرہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں ابو زبیر نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کون ہےجو مراد مرار یا مرار کی گھاٹی پر چڑھے گا۔" (آگے) معاذ عنبری کی حدیث کے مانند، البتہ (اس حدیث میں) انھوں نے کہا: اور وہ ایک اعرابی تھا جو اپنی گم شدہ چیز ڈھونڈنے کے لئے اعلان کرنے کے لئے آیا تھا۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ثنیہ مرار یا مرار پر کون چڑھے گا؟"آگے مذکورہ روایت ہے،ہاں یہ فرق ہے اس میں یہ ہے کہ وہ ایک جنگلی تھا جو اپنی گمشدہ چیز تلاش کر رہا تھا۔
حدثني محمد بن رافع ، حدثنا ابو النضر ، حدثنا سليمان وهو ابن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: " كان منا رجل من بني النجار قد قرا البقرة وآل عمران، وكان يكتب لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فانطلق هاربا حتى لحق باهل الكتاب، قال: فرفعوه، قالوا: هذا قد كان يكتب لمحمد، فاعجبوا به فما لبث ان قصم الله عنقه فيهم، فحفروا له فواروه، فاصبحت الارض قد نبذته على وجهها، ثم عادوا فحفروا له فواروه، فاصبحت الارض قد نبذته على وجهها، ثم عادوا فحفروا له فواروه، فاصبحت الارض قد نبذته على وجهها فتركوه منبوذا ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " كَانَ مِنَّا رَجُلٌ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ قَدْ قَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ، وَكَانَ يَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقَ هَارِبًا حَتَّى لَحِقَ بِأَهْلِ الْكِتَابِ، قَالَ: فَرَفَعُوهُ، قَالُوا: هَذَا قَدْ كَانَ يَكْتُبُ لِمُحَمَّدٍ، فَأُعْجِبُوا بِهِ فَمَا لَبِثَ أَنْ قَصَمَ اللَّهُ عُنُقَهُ فِيهِمْ، فَحَفَرُوا لَهُ فَوَارَوْهُ، فَأَصْبَحَتِ الْأَرْضُ قَدْ نَبَذَتْهُ عَلَى وَجْهِهَا، ثُمَّ عَادُوا فَحَفَرُوا لَهُ فَوَارَوْهُ، فَأَصْبَحَتِ الْأَرْضُ قَدْ نَبَذَتْهُ عَلَى وَجْهِهَا، ثُمَّ عَادُوا فَحَفَرُوا لَهُ فَوَارَوْهُ، فَأَصْبَحَتِ الْأَرْضُ قَدْ نَبَذَتْهُ عَلَى وَجْهِهَا فَتَرَكُوهُ مَنْبُوذًا ".
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: ہم بنو نجار میں سے ایک شخص تھا، اس نے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھی (یاد کی) ہوئی تھی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا، وہ بھاگ کر چلا گیا اور اہل کتاب کے ساتھ شامل ہوگیا، انھوں نے اس کو بہت اونچا اٹھایا اور کہا: یہ ہے جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے کتابت کرتا تھا وہ اس کے آنے سے بہت خوش ہوئے، تھوڑے ہی دن گزرے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بیچ میں (ہوتے ہوئے) اس کی گردن توڑ دی۔انھوں نے اس کے لیے قبر کھودی اور اسے دفن کردیا۔صبح ہوئی تو زمین نے اسے اپنی سطح کے ا وپر پھینک دیا تھا۔ انھوں نے دوبارہ وہی کیا، اس کی قبر کھودی اور اسے دفن کردیا۔پھر صبح ہوئی تو زمین نے اسے باہر پھینک دیا تھا، انھوں نے پھر (تیسری بار) اسی طرح کیا، اس کے لئے قبر کھودی اور اسے دفن کردیا، صبح کو زمین نے اسے باہر پھینک دیا ہواتھا تو انھوں نے اسے اسی طرح پھینکا ہوا چھوڑ دیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم بنو نجار میں سے ایک آدمی تھا جو سورۃ بقرہ اور آل عمران پڑھ چکا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لکھا کرتا تھا، وہ بھاگ گیا، حتی کہ اہل کتاب سے جا ملا اور انھوں نے اسے بلند مقام دیا۔ کہنے لگے یہ محمد کے لیے لکھا کرتا تھا، چنانچہ وہ اس پر فریفتہ ہو گئے، تھوڑے عرصہ کے بعد اللہ نے ان میں اس کی گردن توڑدی،(اسے ہلاک کر دیا) تو انھوں نے اس کے لیے گڑھا کھود کر، اسے چھپا دیا (دفن کر دیا) سوزمین نے اسے اپنی سطح پر باہر پھینک دیا،(اسے قبول نہ کیا)پھر انھوں نے اس کے لیے دوبارہ گڑھا کھودااوراسے دفن کر دیا۔ زمین نے پھر اسے اپنے اوپر باہر پھینک دیا، چنانچہ انھوں نے اسے باہر پھینکا ہواہی چھوڑدیا۔
حدثني ابو كريب محمد بن العلاء ، حدثنا حفص يعني ابن غياث ، عن الاعمش ، عن ابي سفيان ، عن جابر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم من سفر، فلما كان قرب المدينة هاجت ريح شديدة تكاد ان تدفن الراكب، فزعم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " بعثت هذه الريح لموت منافق "، فلما قدم المدينة فإذا منافق عظيم من المنافقين قد مات ".حَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ غِيَاثٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَلَمَّا كَانَ قُرْبَ الْمَدِينَةِ هَاجَتْ رِيحٌ شَدِيدَةٌ تَكَادُ أَنْ تَدْفِنَ الرَّاكِبَ، فَزَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بُعِثَتْ هَذِهِ الرِّيحُ لِمَوْتِ مُنَافِقٍ "، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَإِذَا مُنَافِقٌ عَظِيمٌ مِنَ الْمُنَافِقِينَ قَدْ مَاتَ ".
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے و اپس آئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے قریب تھے تو اتنے زور کی آندھی چلی کہ قریب تھا وہ سوار کو بھی (ریت میں) دفن کردے گی۔تو وہ (جابر رضی اللہ عنہ) یقین سے کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "یہ آندھی کسی منافق کی موت کے لئے بھیجی گئی ہے"جب آ پ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو منافقوں میں سے ایک بہت بڑا منافق مرچکا تھا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس آئے تو جب مدینہ کے قریب پہنچے تو شدید آندھی چلی کہ سوار دفن ہونے کے قریب ہو گئے۔(خطرہ پیدا ہو گیا آندھی سوار کو اٹھا لے جائے گی) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ آندھی کسی منافق کی موت کے لیے بھیجی گئی ہے۔" تو جب آپ مدینہ پہنچے سو منافقوں میں سے ایک بہت بڑا منافق مر چکا تھا۔
حدثني عباس بن عبد العظيم العنبري ، حدثنا ابو محمد النضر بن محمد بن موسى اليمامي ، حدثنا عكرمة ، حدثنا إياس ، حدثني ابي ، قال: عدنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا موعوكا، قال: فوضعت يدي عليه، فقلت: والله ما رايت كاليوم رجلا اشد حرا، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " الا اخبركم باشد حرا منه يوم القيامة هذينك الرجلين الراكبين المقفيين لرجلين حينئذ من اصحابه ".حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، حَدَّثَنَا إِيَاسٌ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: عُدْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مَوْعُوكًا، قَالَ: فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ رَجُلًا أَشَدَّ حَرًّا، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَشَدَّ حَرًّا مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَذَيْنِكَ الرَّجُلَيْنِ الرَّاكِبَيْنِ الْمُقَفِّيَيْنِ لِرَجُلَيْنِ حِينَئِذٍ مِنْ أَصْحَابِهِ ".
ایاس (بن سلمہ بن اکوع) نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: مجھے میرے والد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک شخص کی، جسے بخار چڑھا ہوا تھا، عیادت کی، کہا: میں نے اس (کےجسم) پر اپنا ہاتھ رکھا تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے آج کی طرح کسی شخص کو نہیں دیکھا جو اس سے زیادہ تپ رہا ہو، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمھیں قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ تپتے ہوؤں کے بارے میں نہ بتاؤں؟یہ دونوں شخص جو (اونٹوں پر) سوار ہیں، اپنے منہ دوسری طرف کیے ہوئے ہیں۔" (آپ نے یہ بات) دو آدمیوں کے بارے میں (فرمائی) جو اس وقت (ظاہر طور) آپ کے ساتھیوں میں (شمار ہوتے) تھے۔
ایاس رحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ (سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ)سے بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بخار زدہ شخص کی عیادت کے لیے گئے تو میں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا، چنانچہ میں نے کہا، واللہ! میں نے آج تک اس قدر گرم بدن آدمی نہیں دیکھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمھیں قیامت کے دن اس سے بھی گرم بدن آدمی کے بارے میں نہ بتاؤں؟ یہ دو سوار آدمی جو منہ پھیرے ہوئے ہیں۔"یہ دو آدمی اس وقت آپ کے ساتھیوں میں سے تھے۔"
عبیداللہ نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو بکریوں کے دو ریوڑوں کے درمیان ممیاتی ہوئی بھاگی پھرتی ہے کبھی بھاگ کر اس ریوڑ میں جاتی ہے اور کبھی اس طرف جاتی ہے (کسی بھی ایک ریوڑ کا حصہ نہیں ہوتی۔)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"منافق کی تمثیل اس بکری کی طرح ہے، بکریوں میں حیران و پریشان گھومتی پھرتی ہے،کبھی اس کی طرف بھاگتی ہے، کبھی اس کی طرف دوڑتی ہے۔"