حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا الحسن بن موسى ، حدثنا زهير بن معاوية ، حدثنا ابو إسحاق ، انه سمع زيد بن ارقم ، يقول: " خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر اصاب الناس فيه شدة، فقال عبد الله بن ابي لاصحابه: لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا من حوله، قال زهير: وهي قراءة من خفض حوله، وقال: لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل، قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بذلك، فارسل إلى عبد الله بن ابي فساله فاجتهد يمينه ما فعل، فقال: كذب زيد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فوقع في نفسي مما قالوه شدة حتى انزل الله تصديقي إذا جاءك المنافقون سورة المنافقون آية 1، قال: ثم دعاهم النبي صلى الله عليه وسلم ليستغفر لهم، قال: فلووا رءوسهم، وقوله كانهم خشب مسندة سورة المنافقون آية 4، وقال: كانوا رجالا اجمل شيء ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، يَقُولُ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ أَصَابَ النَّاسَ فِيهِ شِدَّةٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ لِأَصْحَابِهِ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ، قَالَ زُهَيْرٌ: وَهِيَ قِرَاءَةُ مَنْ خَفَضَ حَوْلَهُ، وَقَالَ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِذَلِكَ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ فَسَأَلَهُ فَاجْتَهَدَ يَمِينَهُ مَا فَعَلَ، فَقَالَ: كَذَبَ زَيْدٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِمَّا قَالُوهُ شِدَّةٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقِي إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، قَالَ: ثُمَّ دَعَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، قَالَ: فَلَوَّوْا رُءُوسَهُمْ، وقَوْله كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ سورة المنافقون آية 4، وَقَالَ: كَانُوا رِجَالًا أَجْمَلَ شَيْءٍ ".
) ہمیں زہیر بن معاویہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابواسحٰق نے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، اس میں لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا: جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہ ہو جائیں، ان پر کچھ خرچ نہ کرو (مہاجرین سے تعاون بند کر دو۔) زہیر نے کہا: اور یہ اس کی قراءت ہے جس نے حولہ کو زیر کے ساتھ من حولہ پڑھا۔ اور اس نے (یہ بھی) کہا: اگر ہم مدینہ کو لوٹ گئے تو جو عزت والے ہیں وہ وہاں سے ذلت والوں کو نکال دیں گے۔ (زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ کو یہ بات بتا دی، آپ نے عبداللہ بن اُبی کو بلوایا اور اس سے (اس بات کے متعلق) پوچھا، اس نے بہت پکی قسم کھائی کہ اس نے ایسا نہیں کہا اور کہا: زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ بولا ہے۔ (حضرت زید رضی اللہ عنہ نے) کہا: میرے دل کو ان لوگوں کی اس بات سے بہت تکلیف پہنچی، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق میں یہ آیت نازل کی: "جب آپ کے پاس منافقین آتے ہیں" پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے استغفار کے لیے ان کو بلوایا تو انہوں نے (تمسخر سے) اپنے سر ٹیڑھے کر لیے۔" اور (اس آیت میں) اللہ تعالیٰ کے قول: "گویا وہ سہارے سے کھڑے ہوئے شہتیر ہیں" (سے مراد) حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا: (یہ ہے کہ) یہ لوگ (جسمانی اعتبار سے سیدھے، لمبے اور دیکھنے میں) بہت خوبصورت تھے۔
حضرت زید بن راقم بیان کرتے ہیں ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اس میں لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی تو عبد اللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر اس وقت تک کچھ خرچ نہ کرے۔ جب تک وہ اس سے الگ نہ ہو جائیں زہیر کہتے ہیں جو لوگ "حَوَلَه"پر زیرپڑھتے ہیں وہ اس سے پہلے من کا اضافہ کرتے ہیں اور اس (عبد اللہ بن ابی)نے کہا اگر ہم مدینہ لوٹ گئے تو عزت والے اس سے ذلت والوں کو نکال دیں گے، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر، آپ کو یہ بات بتادی، آپ نے عبد اللہ بن ابی کو بلوایا اور اس سے پوچھا اس نے زور دار قسم کھائی کہ اس نے یہ کام نہیں کیا اور کہا زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھوٹ بولا ہے چنانچہ لوگوں کی باتوں سے میرے دل میں بہت رنج ہوا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق میں سورہ منافقون کی یہ آیات اتاریں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلویا تاکہ ان کے لیے مغفرت طلب فرمائیں تو انھوں نے اپنے سر جھٹک دئیے اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا:"گویا وہ دیواروں کے ساتھ لگی لکڑیاں ہیں،(ان کا کردار انسانوں والا نہیں ہے) حالانکہ وہ خوبصورت انسان تھے۔
سفیان بن عیینہ نے عمرو (بن دینار) سے روایت کی، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کی قبر پر تشریف لائے، اس کو قبر سے نکال کر اپنے گھٹنوں پر رکھا، اس پر اپنا لعاب مبارک چھڑکا اور اسے اپنی قمیص پہنچائی، (ایسا کیوں کیا؟) اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبد اللہ بن ابی کی قبر پر تشریف لائے اور اسے اس کی قبر سے نکال کر اپنے زانوؤں پر رکھا، اس پر اپنا لعاب مبارک پھونکا اور اسے اپنی قمیص پہنائی حقیقت حال سے اللہ خوب آگاہ ہے۔
ابن جریج نے کہا: مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، کہا: میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے پاس اس کو اس کے گڑھے میں داخل کر دیے جانے کے بعد آئے، پھر سفیان کی حدیث کے مانند بیان کیا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبد اللہ بن ابی کے دفن کرنے کے بعد اس کے پاس پہنچے آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا ابو اسامة ، حدثنا عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: لما توفي عبد الله بن ابي ابن سلول، جاء ابنه عبد الله بن عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله ان يعطيه قميصه يكفن فيه اباه، فاعطاه ثم ساله ان يصلي عليه، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه، فقام عمر فاخذ بثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اتصلي عليه وقد نهاك الله ان تصلي عليه؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما خيرني الله، فقال: استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة وسازيده على سبعين "، قال: إنه منافق فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانزل الله عز وجل ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره سورة التوبة آية 84 "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُعْطِيَهُ قَمِيصَهُ يُكَفِّنُ فِيهِ أَبَاهُ، فَأَعْطَاهُ ثُمَّ سَأَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي عَلَيْهِ وَقَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَيْهِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً وَسَأَزِيدُهُ عَلَى سَبْعِينَ "، قَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84 "،
ابواسامہ نے کہا: ہمیں عبیداللہ بن عمر نے نافع سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مر گیا تو اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے سوال کیا کہ آپ اپنی قمیص اس کو عطا فرمائیں، جس میں وہ اپنے باپ کو کفن دیں تو آپ نے (وہ قمیص) ان کو عطا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور (التجا کرنے کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے (کے ایک کنارے) کو پکڑ لیا اور کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے، اس نے فرمایا ہے: "آپ ان کے لیے استغفار کریں یا استغفار نہ کریں، خواہ آپ ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کریں" اور میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔" (عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: یقینا وہ منافق ہے، (مگر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی، اس پر اللہ عزوجل نے (واضح حکم) نازل فرمایا: "اور ان (منافقین) میں سے جو شخص مر جائے آپ کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جب عبد اللہ بن ابی ابن سلول فوت ہو گیا،اس کا بیٹا عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اسے اپنی قمیص عنایت فرمائیں وہ اسے اپنے باپ کاکفن بنائے تو آپ نے اسے اپنی قمیص عطا فرمائی، پھر اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ اس کی نماز جنازہ ادا فرمائیں، چنانچہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا پکڑ کر عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے، اللہ کا فرمان ہے، ان کے لیے بخشش طلب کریں۔ یا بخشش طلب نہ کریں،اگر تم ان کے لیے ستر دفعہ بھی بخشش طلب کروگے(اللہ انہیں معاف نہیں فرمائے گا)اور میں ستر دفعہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا وہ تو منافق ہے سو آپ نے اس پر نماز پڑھی چنانچہ اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری،"آپ ان میں سے جو بھی مرجائے،کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔"(توبہ آیت نمبر84۔
) یحییٰ قطان نے عبیداللہ (بن عمر بن حفص) سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی اور مزید یہ کہا: چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نماز جنازہ ترک کر دی۔
امام صاحب اپنے دواور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں، اس میں یہ اضافہ ہے، چنانچہ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنی ترک کر دی۔
حدثنا محمد بن ابي عمر المكي ، حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن مجاهد ، عن ابي معمر ، عن ابن مسعود ، قال: " اجتمع عند البيت ثلاثة نفر قرشيان وثقفي او ثقفيان وقرشي قليل، فقه قلوبهم كثير شحم بطونهم، فقال احدهم: اترون الله يسمع ما نقول؟، وقال الآخر: يسمع إن جهرنا ولا يسمع إن اخفينا، وقال الآخر: إن كان يسمع إذا جهرنا فهو يسمع إذا اخفينا، فانزل الله عز وجل وما كنتم تستترون ان يشهد عليكم سمعكم ولا ابصاركم ولا جلودكم سورة فصلت آية 22 " الآية،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: " اجْتَمَعَ عِنْدَ الْبَيْتِ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قُرَشِيَّانِ وَثَقَفِيٌّ أَوْ ثَقَفِيَّانِ وَقُرَشِيٌّ قَلِيلٌ، فِقْهُ قُلُوبِهِمْ كَثِيرٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتُرَوْنَ اللَّهَ يَسْمَعُ مَا نَقُولُ؟، وَقَالَ الْآخَرُ: يَسْمَعُ إِنْ جَهَرْنَا وَلَا يَسْمَعُ إِنْ أَخْفَيْنَا، وَقَالَ الْآخَرُ: إِنْ كَانَ يَسْمَعُ إِذَا جَهَرْنَا فَهُوَ يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ وَلا جُلُودُكُمْ سورة فصلت آية 22 " الْآيَةَ،
محمد بن ابی عمر مکی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے منصور سے حدیث بیان کی، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابومعمر سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: تین آدمی بیت اللہ کے پاس اکٹھے ہوئے، (ان میں سے) دو قریشی تھے اور ایک ثقفی تھا، یا دو ثقفی تھے اور ایک قریشی تھا، ان کے دلوں کا فہم کم تھا، ان کے پیٹوں کی چربی بہت تھی۔ ان میں سے ایک نے کہا: کیا تم سمجھتے ہو کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں، اللہ سنتا ہے؟ دوسرے نے کہا: اگر ہم اونچی آواز سے بات کریں تو سنتا ہے اور آہستہ بات کریں تو نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا: اگر ہم اونچا بولیں تو وہ سنتا ہے تو پھر ہم آہستہ بولیں تو بھی سنتا ہے۔ اس پر اللہ عزوجل نے (یہ آیتیں) نازل فرمائیں: "تم اس لیے (اپنی باتیں) نہیں چھپا رہے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان گواہی دیں گے اور نہ تمہاری آنکھیں اور نہ تمہاری کھالیں۔"
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، بیت اللہ کے پاس تین اشخاص دو قریشی اور ایک ثقفی آیا، یا دو ثقفی اور ایک قریشی جمع ہوئے،ان کے دلوں میں سوجھ بوجھ کم تھی اور ان کے پیٹوں کی چربی بہت تھی،چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا، تمھارا کیا خیال ہے، اللہ ہماری بات سنتا ہے؟دوسرے نے کہا، اگر بلند آواز ہو تو سنتا ہے، اگر ہم پست آواز میں پوشیدہ بات کریں نہیں سنتا اور تیسرے نے کہا، اگر وہ ہماری گفتگو سنتا ہے تو پھر وہ ہماری آہستہ پوشیدہ گفتگو بھی سن لیتا ہے، سو اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری۔"اور تمھیں یہ خوف یا اندیشہ نہ تھا کہ تمھارے خلاف،تمھارے کان تمھاری آنکھیں اور تمھارے چمڑے گواہی دیں گے، بلکہ تم یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تمھارے بہت سے کاموں کو نہیں جانتا۔"(سورۃ فصلت،آیت 22)
) ابوبکر بن خلاد باہلی نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں یحییٰ بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے سلیمان نے عمارہ بن عمیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے وہب بن ربیعہ سے اور انہوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، نیز ہمیں یحییٰ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے حدیث سنائی، کہا: مجھے منصور نے مجاہد سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابومعمر سے اور انہوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت کی۔
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے اس کے معنی روایت بیان کرتے ہیں۔
معاذ عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے عدی بن ثابت سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے عبداللہ بن یزید کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (جنگ کے لئے) اُحد کی جانب روانہ ہوئے۔ جو لوگ آپ کے ساتھ تھے ان میں سے کچھ واپس آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ان کے بارے میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ بعض نے کہا: ہم انہیں قتل کر دیں اور بعض نے کہا: نہیں۔ تو (یہ آیت) نازل ہوئی: "تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تم وہ دو گروہ بن گئے ہو۔"
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے لیے نکلے تو آپ کے ساتھ جانے والے کچھ لوگ واپس آگئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ان کے بارے میں دو حصوں میں بٹ گئے۔ان میں سے بعض نے کہا ہم ان کو قتل کریں گے بعض نے کہا نہیں تو یہ آیت اتری،" تمھیں کیا ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ بن گئے ہو۔" (نساءآیت88)
حدثنا الحسن بن علي الحلواني ، ومحمد بن سهل التميمي ، قالا: حدثنا ابن ابي مريم ، اخبرنا محمد بن جعفر ، اخبرني زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي سعيد الخدري " ان رجالا من المنافقين في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا إذا خرج النبي صلى الله عليه وسلم إلى الغزو، تخلفوا عنه وفرحوا بمقعدهم خلاف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا قدم النبي صلى الله عليه وسلم اعتذروا إليه وحلفوا واحبوا ان يحمدوا بما لم يفعلوا، فنزلت لا تحسبن الذين يفرحون بما اتوا ويحبون ان يحمدوا بما لم يفعلوا فلا تحسبنهم بمفازة من العذاب سورة آل عمران آية 188 ".حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ " أَنَّ رِجَالًا مِنَ الْمُنَافِقِينَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا إِذَا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْغَزْوِ، تَخَلَّفُوا عَنْهُ وَفَرِحُوا بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَذَرُوا إِلَيْهِ وَحَلَفُوا وَأَحَبُّوا أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا، فَنَزَلَتْ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ سورة آل عمران آية 188 ".
) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کچھ منافقین ایسے تھے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ کے لئے تشریف لے جاتے تو وہ پیچھے رہ جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اپنے پیچھے رہ جانے پر خوش ہوتے، اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے تو آپ کے سامنے عذر بیان کرتے اور قسمیں کھاتے اور چاہتے کہ لوگ ان کاموں پر ان کی تعریف کریں جو انہوں نے نہیں کیے تھے، اس پر یہ (آیت نازل) ہوئی: "ان لوگوں کے متعلق گمان نہ کرو جو اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں اور یہ پسند کرتے ہیں کہ اس کام پر ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کیا، ان کے متعلق یہ گمان بھی نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچنے والے مقام پر ہوں گے۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کچھ منافق لوگ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لیے نکلتے، آپ سے پیچھے رہ جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ جانے پر خوش ہوتے تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آتے تو آپ کے سامنے عذر اور بہانے پیش کرتے اور قسمیں اٹھاتے اور پسند کرتے کہ جوکام انھوں نے نہیں کیا، اس پر ان کی تعریف کی جائے تو آیت نازل ہوئی:"جو لوگ اپنے کیے پر خوش ہوتے اور چاہتے ہیں جو کام انھوں نے نہیں کیے ان پر ان کی تعریف کی جائے، ان کے بارے میں خیال کیجیے انہیں عذاب سے بچ جانے والے نہ سمجھے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔"(آل عمران آیت نمبر88)