حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جرير ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يترك عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فافتوا بغير علم فضلوا واضلوا ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ".
جریر نے ہشام بن عروہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: "اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھینتے ہوئے نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا کر علم کو اٹھا لے گا حتی کہ جب وہ (لوگوں میں) کسی عالم کو (باقی) نہیں چھوڑے گا تو لوگ (دین کے معاملات میں بھی) جاہلوں کو اپنے سربراہ بنا لیں گے۔ ان سے (دین کے بارے میں) سوال کیے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر فتوے دیں گے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح قبض نہیں کرے گا کہ لوگوں کے دلوں سے چھین لے، لیکن وہ علماء کو قبض (فوت) کر کے علم قبض فرمائے گا، حتی کہ جب وہ کسی عالم کو نہیں چھوڑے گا، لوگ جاہلوں کو رئیس (امیر) بنا لیں گے، ان سے دریافت کیا جائے گا،چنانچہ وہ علم کے بغیر فتوی (جواب) دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
حماد بن زید، عباد بن عباد، ابومعاویہ، وکیع، ابن ادریس، ابواسامہ، ابن نمیر، عبدہ، سفیان (بن عیینہ)، یحییٰ بن سعید، عمر بن علی اور شعبہ بن حجاج، سب نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جریر کی روایت کردہ حدیث کے مطابق روایت کی اور عمر بن علی کی حدیث میں مزید یہ ہے: پھر میں ایک سال بعد حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے وہ حدیث مجھے دوبارہ اسی طرح سنائی جیسے (پہلے) بیان کی تھی۔ کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی مختلف سندوں سے، ہشام بن عروہ کی مذکورہ بالا سند مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، عمر بن علی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر میں سال کے اختتام پر حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملا اور ان سے سوال کیا تو انھوں نے پہلے کی طرح حدیث دہرادی اور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:"
حدثنا حرملة بن يحيى التجيبي ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، حدثني ابو شريح ، ان ابا الاسود حدثه، عن عروة بن الزبير ، قال: قالت لي عائشة: يا ابن اختي بلغني، ان عبد الله بن عمرو مار بنا إلى الحج، فالقه فسائله، فإنه قد حمل عن النبي صلى الله عليه وسلم علما كثيرا، قال: فلقيته فساءلته عن اشياء يذكرها عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال عروة: فكان فيما ذكر ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله لا ينتزع العلم من الناس انتزاعا، ولكن يقبض العلماء، فيرفع العلم معهم ويبقي في الناس رءوسا جهالا يفتونهم بغير علم، فيضلون ويضلون "، قال عروة: فلما حدثت عائشة بذلك، اعظمت ذلك وانكرته، قالت: احدثك انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول هذا، قال عروة: حتى إذا كان قابل؟ قالت له: إن ابن عمر وقد قدم، فالقه ثم فاتحه، حتى تساله عن الحديث الذي ذكره لك في العلم، قال: فلقيته فساءلته، فذكره لي نحو ما حدثني به في مرته الاولى، قال عروة: فلما اخبرتها بذلك، قالت: ما احسبه إلا قد صدق اراه لم يزد فيه شيئا ولم ينقص.حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو شُرَيْحٍ ، أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ: يَا ابْنَ أُخْتِي بَلَغَنِي، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو مَارٌّ بِنَا إِلَى الْحَجِّ، فَالْقَهُ فَسَائِلْهُ، فَإِنَّهُ قَدْ حَمَلَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِلْمًا كَثِيرًا، قَالَ: فَلَقِيتُهُ فَسَاءَلْتُهُ عَنْ أَشْيَاءَ يَذْكُرُهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُرْوَةُ: فَكَانَ فِيمَا ذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْتَزِعُ الْعِلْمَ مِنَ النَّاسِ انْتِزَاعًا، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعُلَمَاءَ، فَيَرْفَعُ الْعِلْمَ مَعَهُمْ وَيُبْقِي فِي النَّاسِ رُءُوسًا جُهَّالًا يُفْتُونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَيَضِلُّونَ وَيُضِلُّونَ "، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا حَدَّثْتُ عَائِشَةَ بِذَلِكَ، أَعْظَمَتْ ذَلِكَ وَأَنْكَرَتْهُ، قَالَتْ: أَحَدَّثَكَ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ هَذَا، قَالَ عُرْوَةُ: حَتَّى إِذَا كَانَ قَابِلٌ؟ قَالَتْ لَهُ: إِنَّ ابْنَ عَمْرٍ وَقَدْ قَدِمَ، فَالْقَهُ ثُمَّ فَاتِحْهُ، حَتَّى تَسْأَلَهُ عَنِ الْحَدِيثِ الَّذِي ذَكَرَهُ لَكَ فِي الْعِلْمِ، قَالَ: فَلَقِيتُهُ فَسَاءَلْتُهُ، فَذَكَرَهُ لِي نَحْوَ مَا حَدَّثَنِي بِهِ فِي مَرَّتِهِ الْأُولَى، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا أَخْبَرْتُهَا بِذَلِكَ، قَالَتْ: مَا أَحْسَبُهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ أَرَاهُ لَمْ يَزِدْ فِيهِ شَيْئًا وَلَمْ يَنْقُصْ.
عبداللہ بن وہب نے کہا: مجھے ابوشُریح نے حدیث بیان کی کہ انہیں ابواسود نے عروہ بن زبیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا: بھانجے! مجھے خبر ملی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہمارے ہاں (مدینہ) سے گزر کر حج پر جانے والے ہیں۔ تم ان سے ملو اور ان سے سوال کرو۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا علم حاصل کر کے محفوظ کر رکھا ہے۔ (عروہ نے) کہا: میں ان سے ملا اور بہت سی چیزوں کے بارے میں، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے، ان سے پوچھا۔ عروہ نے کہا: انہوں نے جو کچھ بیان کیا اس میں یہ بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے یک لخت چھین نہیں لے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا لے گا اور ان کے ساتھ علم کو بھی اٹھا لے گا۔ اور لوگوں میں جاہل سربراہوں کو باقی چھوڑ دے گا جو علم کے بغیر لوگوں کو فتوے دیں گے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور (لوگوں کو بھی) گمراہ کریں گے۔" عروہ نے کہا: جب میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے اسے ایک بہت بڑی بات سمجھا اور اس کو غیر معروف (ناقابل قبول) قرار دیا۔ اور فرمایا: کیا انہوں نے تمہیں بتایا تھا کہ انہوں نے (خود) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، آپ نے یہ بات کہی تھی؟ عروہ نے کہا: یہاں تک کہ جب اگلا سال ہوا تو انہوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے ان سے کہا: (عبداللہ) بن عمرو رضی اللہ عنہ آ گئے ہیں، ان سے ملو، ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرو، یہاں تک کہ ان سے اسی حدیث کے بارے میں پوچھو جو انہوں نے علم کے حوالے سے تمہیں بیان کی تھی۔ (عروہ نے) کہا: میں ان سے ملا اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے وہ حدیث میرے سامنے (بالکل) اسی طرح بیان کر دی جس طرح پہلی بار بیان کی تھی۔ عروہ نے کہا: جب میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتائی تو انہوں نے فرمایا: میں سمجھتی ہوں کہ انہوں نے سچ کہا، میں دیکھ رہی ہوں کہ انہوں نے اس میں نہ کوئی چیز بڑھائی ہے نہ کم کی ہے۔
حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:"اے میرے بھانجے! مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج کے لیے ہمارے ہاں وسے گزرنے والے ہیں تو ان سے مل کر ان سے دریافت کرو، کیونکہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سا علم حاصل کیا ہے چنانچہ میں انہیں ملا اور ان سے ان چند باتوں کے بارے میں دریافت کیا، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے جو باتیں انھوں نے بیان کیں ان میں یہ بھی تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک اللہ لوگوں کے دلوں سے علم نہیں نکالے گا، لیکن علماء کو قبض کرے گا،سو علم بھی ان کے ساتھ اٹھ جائے گااور لوگوں میں جاہلوں کو سردار بنا چھوڑےگا، جو انہیں علم کے بغیر جوابات دیں گے خود بھی گمراہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔"عروہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں تو جب میں نے یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سنائی، انھوں نے اس کو بڑا سمجھا اور اس کا انکار اور اور پوچھا کیا تجھے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا تھا کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ عروہ کہتے ہیں جب اگلا سال آیا توانھوں نے (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے مجھے فرمایا، حضرت ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ہوئے ہیں انہیں ملو، پھر بات چیت کا آغاز کرو، حتی کہ تم ان سے اس حدیث کے بارے میں سوال کرنا جو انھو ں نے تمھیں علم کے بارے میں سنائی تھی، چنانچہ میں انہیں ملا اور ان سے دریافت کیا تو انھوں نے مجھے پہلی دفعہ کی طرح حدیث سنادی تو جب میں نے اس کی خبر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دی انھوں نے کہا، میرے خیال میں انھوں نے صحیح کہا ہے میں جان رہی ہوں انھوں نے اس میں کوئی کمی و بیشی نہیں کی۔
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا جرير بن عبد الحميد ، عن الاعمش ، عن موسى بن عبد الله بن يزيد ، عن عبد الرحمن بن هلال العبسي ، عن جرير بن عبد الله ، قال: جاء ناس من الاعراب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم الصوف، فراى سوء حالهم قد اصابتهم حاجة، فحث الناس على الصدقة، فابطئوا عنه حتى رئي ذلك في وجهه، قال: ثم إن رجلا من الانصار جاء بصرة من ورق، ثم جاء آخر، ثم تتابعوا حتى عرف السرور في وجهه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سن في الإسلام سنة حسنة فعمل بها، بعده كتب له مثل اجر من عمل بها، ولا ينقص من اجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعمل بها، بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها، ولا ينقص من اوزارهم شيء ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هِلَالٍ الْعَبْسِيِّ ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ الصُّوفُ، فَرَأَى سُوءَ حَالِهِمْ قَدْ أَصَابَتْهُمْ حَاجَةٌ، فَحَثَّ النَّاسَ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَأَبْطَئُوا عَنْهُ حَتَّى رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ بِصُرَّةٍ مِنْ وَرِقٍ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ، ثُمَّ تَتَابَعُوا حَتَّى عُرِفَ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا، بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا، بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ ".
جریر بن عبدالحمید نے اعمش سے، انہوں نے موسیٰ بن عبداللہ بن یزید اور (مسلم) ابوضحیٰ سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ہلال عبسی سے اور انہوں نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ دیہاتی حاضر ہوئے، انہوں نے اون کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ آپ نے ان کی بدحالی دیکھی کہ وہ ضرورت مند اور محتاج ہو گئے تھے تو آپ نے لوگوں کو (ان کے لیے) صدقہ کرنے کی ترغیب دی لیکن لوگوں نے اس میں سستی سے کام لیا، حتی کہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور سے ظاہر ہونے لگی۔ کہا: پھر انصار میں سے ایک شخص چاندی (کے سکوں، درہموں) کی ایک تھیلی لے کر آ گیا، پھر دوسرا آیا، پھر لوگ ایک دوسرے کے پیچھے (صدقات لے کر) آنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ کے چہرہ انور پر مسرت جھلکنے لگی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اسلام میں کسی اچھے کام کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس پر عمل ہوتا رہا، اس کے لیے (ہر) عمل کرنے والے (کے اجر) جتنا اجر لکھا جاتا رہے گا۔ اور ان کے گناہوں میں کسی چیز کی کمی نہ ہو گی۔"
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ جنگلی لوگ آئے جواونی کپڑے پہنے ہوئے تھے،چنانچہ آپ نے ان کی بد حالی اور ضرورت کو محسوس فر لیا تو آپ نے لوگوں کو صدقہ پر ابھارا سو لوگوں نے صدقہ دینے میں تاخیر کی، حتی کہ آپ کے چہرے پر کبیدگی کے آثار نمایاں ہو گئے،پھر ایک انصاری آدمی اور ہموں کی ایک تھیلی لایا پھر دوسرا آدمی صدقہ لایا، پھر لوگ مسلسل آنے لگے،حتی کہ آپ کے چہرے پر مسرت پیدا ہو گئی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے اسلام کے اندر اچھا طریقے جاری کیا اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا اس کے لیے اس پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور دوسروں کے اجرو ثواب میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے اسلام میں غلط طریقہ جاری کیا اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس عمل کرنے والوں کے برابر گناہ رکھا جائے گا اور ان دوسروں کے بوجھ (گناہوں) میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔"
محمد بن ابی اسماعیل نے کہا: ہمیں عبدالرحمٰن بن ہلال عبسی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بندہ بھی کسی نیک کام کا آغاز کرے جس پر اس کے بعد عمل کیا جائے۔" پھر پوری حدیث بیان کی۔
حضرت جریر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"جو بندہ اچھے طریقہ کو رواج دیتا ہے جس پر اس کے بعد عمل ہوتا ہے۔" آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہو گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے، اس کے لیے اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر اجر ہو گا۔ یہ چیز ان کے اجر میں کچھ کمی نہیں کرے گا اور جو ضلالت و گمراہی کی طرف بلاتا ہے اس پر اتنا گناہ ہو گا، جس قدر گناہ اس کی پیروی کرنے والوں پر ہوگا اور اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔"