ابوداود سلیمان بن معبد نے کہا: ہمیں حسین بن حفص نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں سفیان نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، مگر انہوں نے کہا: "اور قدموں کے ایسے نشان جن تک قدم پہنچ چکے ہیں۔" ابن معبد نے کہا: ان (اساتذہ) میں سے بعض نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان): "اس کے حل ہونے سے پہلے۔" یعنی اس کے اترنے سے پہلے (وضاحتی الفاظ کے ساتھ) روایت کی۔
امام صاحب ایک اور استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں اس میں "آثارمَبلُوغة" قدم جن تک رسائی ہو چکی ہے۔"یعنی شمار ہو چکے ہیں۔ ابن معبد کہتے ہیں، بعض نے یوں بیان کیا ہے۔"قَبلِ حِلَهِ اَي نَزُولِه"وقت کی آمد سے پہلے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے، جبکہ خیر دونوں میں (موجود) ہے۔ جس چیز سے تمہیں (حقیقی) نفع پہنچے اس میں حرص کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور کمزور نہ پڑو (مایوس ہو کر نہ بیٹھ) جاؤ، اگر تمہیں کوئی (نقصان) پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش! میں (اس طرح) کرتا تو ایسا ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: (یہ) اللہ کی تقدیر ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس لیے کہ (حشرت کرتے ہوئے) کاش (کہنا) شیطان کے عمل (کے دروازے) کو کھول دیتا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" قوت والا مومن، کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ پسند ہے اور دونوں میں خیر موجود ہے،جو چیز تمھارے لیے سودمند ہے اس لیے کوشش کر اور اللہ سے مدد طلب کر، عجز اور کمزوری کاا ظہار نہ کر،اگر تمھیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ کہو، اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ایساہوتا، البتہ یہ کہو، اللہ کی تقدیر ہے، اس نے جو چاہا کیا کیونکہ لوشیطان کے لیے راہ عمل کھولتا ہے۔"