محمد بن جعفر اور معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے عبدالرحمان بن اصبہانی سے اسی سند کے ساتھ اس کے ہم معنی روایت کی اور دونوں نے شعبہ سے (روایت کرتے ہوئے) مزید یہ کہا: عبدالرحمن بن اصبہانی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ابوحازم سے سنا، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے، کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین بچے جو بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:"ایسے تین بچے جو بالغ نہ ہوئے ہوں،یا گناہ کی عمر کو نہ پہنچے ہوں۔"
حدثنا سويد بن سعيد ، ومحمد بن عبد الاعلى وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا المعتمر ، عن ابيه ، عن ابي السليل ، عن ابي حسان ، قال: قلت لابي هريرة : " إنه قد مات لي ابنان، فما انت محدثي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بحديث تطيب به انفسنا عن موتانا؟ قال: قال: نعم، صغارهم دعاميص الجنة يتلقى احدهم اباه، او قال: ابويه فياخذ بثوبه، او قال: بيده كما آخذ انا بصنفة ثوبك هذا فلا يتناهى، او قال: فلا ينتهي حتى يدخله الله واباه الجنة ". وفي رواية سويد، قال: حدثنا ابو السليل،حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي هُرَيْرَةَ : " إِنَّهُ قَدْ مَاتَ لِيَ ابْنَانِ، فَمَا أَنْتَ مُحَدِّثِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ تُطَيِّبُ بِهِ أَنْفُسَنَا عَنْ مَوْتَانَا؟ قَالَ: قَالَ: نَعَمْ، صِغَارُهُمْ دَعَامِيصُ الْجَنَّةِ يَتَلَقَّى أَحَدُهُمْ أَبَاهُ، أَوَ قَالَ: أَبَوَيْهِ فَيَأْخُذُ بِثَوْبِهِ، أَوَ قَالَ: بِيَدِهِ كَمَا آخُذُ أَنَا بِصَنِفَةِ ثَوْبِكَ هَذَا فَلَا يَتَنَاهَى، أَوَ قَالَ: فَلَا يَنْتَهِي حَتَّى يُدْخِلَهُ اللَّهُ وَأَبَاهُ الْجَنَّةَ ". وَفِي رِوَايَةِ سُوَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو السَّلِيلِ،
ہمیں سوید بن سعید اور محمد بن عبدالاعلیٰ نے حدیث بیان کی۔۔ دونوں کے الفاظ ملتے جلتے ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں معتمر (بن سلیمان تیمی) نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے ابوسلیل سے اور انہوں نے ابوحسان سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میرے وہ بچے فوت ہو گئے ہیں، آپ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث سنا سکتے ہیں جس سے آپ ہمیں ہمارے فوت ہونے والوں کے متعلق ہمارے دلوں کی تسلی دلا سکیں؟ (ابوحسان نے) کہا: (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: ہاں۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) "چھوٹے بچے جنت کے پانی کے کیڑے ہیں (وہ جنت کے اندر ہی رہتے ہیں) ان میں سے کوئی اپنے باپ۔۔ یا فرمایا: اپنے ماں باپ۔۔ کو ملے گا تو وہ اسے اس کے کپڑے سے پکڑ لے گا۔۔ یا کہا: اس کے ہاتھ سے۔۔ جس طرح میں نے تمہارے اس کپڑے کے کنارے سے پکڑا ہوا ہے، پھر اس وقت تک نہیں ہٹے گا۔۔ یا کہا: نہیں رکے گا۔۔ یہاں تک کہ اللہ اسے اور اس کے والد کو جنت میں داخل کر دے گا۔" اور سوید کی روایت میں (ابوسلیل سے روایت ہے کے بجائے یوں) ہے: ہمیں ابوسلیل نے حدیث سنائی۔
ابو حسان رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا واقعہ یہ ہے کہ میرے دو بچے مر گئے ہیں تو آپ کیا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث نہیں سنائیں گے، جس سے ہمارے دلوں کو ہمارے مرنے والوں کے بارے میں تسلی ہو؟ انھوں نے کہا، ہاں، آپ نے فرمایا:"چھوٹے بچے جنت کے کورے(پانی کے کیڑے) ہیں ان میں سے کوئی اپنے باپ کویا فرمایا:"والدین کو ملے گا تو اس کا کپڑا پکڑ لے گا یا فرمایا:اس کا ہاتھ پکڑلے گا جس طرح میں نے تمھارے اس کپڑے کے کنارے کو پکڑ ہوا ہے تو وہ اس وقت رکے گا، نہیں یا باز نہیں آئے گا، حتی کہ اللہ اسے اور اس کے باپ کو جنت میں داخل کردے گا۔"سوید کی روایت میں ہے اس نے کہا کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے، جس سے آپ ہمیں ہمارے فوت شدگان کے بارے میں تسلی دے سکیں۔
یحییٰ بن سعید نے تیمی سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی بات سنی ہے جس سے آپ ہمارے فوت ہو جانے والوں کے حوالے سے ہمارے دلوں کو تسلی دلا سکیں؟ (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: ہاں۔
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے نقل کرتے ہیں، کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی حدیث سنی ہے جس سے آپ ہمارے نفوس کو تسلی دے سکیں اس نے(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کہا ہاں!)
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر اور ابوسعید اشج نے ہمیں حدیث بیان کی۔۔ الفاظ ابوبکر کے ہیں۔۔ انہوں نے کہا: ہمیں حفص بن غیاث نے حدیث بیان کی، نیز ہمیں عمر بن حفص بن غیاث نے حدیث بیان کی۔ انہوں نے کہا؛ ہمیں میرے والد نے اپنے دادا طلق بن معاویہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بچے کو لے کر آئی اور کہا: اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ سے اس کے حق میں دعا فرمائیے، میں تین بچے دفن کر چکی ہوں۔ آپ نے فرمایا: "تم نے تین (بچوں) کو دفن کیا ہے؟" اس نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "تم نے دوزخ سے بچنے کے لیے ایک مضبوط باڑ لگا دی ہے۔" عمر (بن حفص) نے کہا: انہوں نے اپنے دادا (طلق) سے روایت کی اور باقیوں نے کہا: طلق سے روایت ہے اور دادا کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا ایک بچہ لے کر آئی اور درخواست کی، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اس کے لیے اللہ سے دعا فرمائیں، میں اپنے تین بچے دفن کر چکی ہوں، آپ نے فرمایا"کیا تونے تین بچے دفن کیے ہیں؟"اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا:" تونے آگ سے مضبوط باڑبنالی ہے۔"عمر بن حفص نے عن جدہ اپنے دادے سے کہا باقی راویوں نے صرف عن مطلق کہا،
قتیبہ بن سعید اور زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں جریر نے طلق بن معاویہ نخعی ابوغیاث سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت اپنے بیٹے کو لے کر آئی تو اس نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بیمار ہے اور میں اس کے بارے میں (سخت) خوف کا شکار ہوں، میں (اپنے) تین بچے دفن کر چکی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے دوزخ سے بچنے کے لیے مضبوط باڑ بنا لی ہے۔" زہیر نے کہا: طلق سے روایت ہے اور کنیت (ابوغیاث) کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا ایک بیٹا لے کرحاضر ہوئی،اورعرض کی، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ بیمار ہے اور مجھے اس کے بارے میں ڈرہے، میں اپنے تین بچے دفن کر چکی ہوں، آپ نے فرمایا"تونے آگ سے ایک مستحکم باڑ یا روک بنا لی ہے۔"زہیر نے عن طلق کہا اور کنیت ابو غیاث کا تذکرہ نہیں کیا۔
48. باب: جب اللہ کریم کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بھی اس سے محبت رکھنے کا حکم کرتے ہیں اور آسمان کے فرشتے بھی اس سے محبت کر تے ہیں۔
Chapter: When Allah Loves A Person. He Commands Jibril To Love Him, And He Loves Him, And The People Of Heaven Love Him, Then He Finds Acceptance On Earth
حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله إذا احب عبدا دعا جبريل، فقال: إني احب فلانا فاحبه، قال: فيحبه جبريل، ثم ينادي في السماء، فيقول: إن الله يحب فلانا فاحبوه فيحبه اهل السماء، قال: ثم يوضع له القبول في الارض، وإذا ابغض عبدا دعا جبريل، فيقول: إني ابغض فلانا فابغضه، قال: فيبغضه جبريل، ثم ينادي في اهل السماء إن الله يبغض فلانا فابغضوه، قال: فيبغضونه ثم توضع له البغضاء في الارض ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ، فَقَالَ: إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ، قَالَ: فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ، فَيَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، قَالَ: ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ، وَإِذَا أَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ، فَيَقُولُ: إِنِّي أُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضْهُ، قَالَ: فَيُبْغِضُهُ جِبْرِيلُ، ثُمَّ يُنَادِي فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوهُ، قَالَ: فَيُبْغِضُونَهُ ثُمَّ تُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْأَرْضِ ".
جریر نے سہیل سے، انہوں نے اپنے والد (ابوصالح) سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے: میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو، کہا: تو جبرئیل اس سے محبت کرتے ہیں، پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں، کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتاہے، تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، کہا: پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے، اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبرئیل کو بُلا کر فرماتا ہے: میں فلاں شخص سے بغج رکھتا ہوں، تم بھی اس سے بغض رکھو، تو جبرئیل اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے بغض رکھتا ے، تم بھی اس سے بغض رکھو، کہا: تو وہ (سب) اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں بھی بغض رکھ دیا جاتا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے جبریل ؑ کو طلب کر کے فرماتا ہے میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو،چنانچہ جبریل ؑ اس سے محبت کرتے ہیں پھر آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ ا للہ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو، سو آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں پھر زمین میں بھی اس کے لیے قبولیت رکھدی جاتی ہے اور جب وہ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے جبریل کو طلب کر کے فرماتا ہے، میں فلاں سے بغض رکھتا ہوں تم بھی اس سے بغض رکھو، چنانچہ جبریل ؑ اس سے بغض رکھتا ہے تو پھر آسمان والوں میں اعلان کرتا ہے، اللہ فلاں سے بغض رکھتا ہے تو بھی اس سے بغض رکھو تو وہ اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین والوں میں بغض رکھ دیا جاتا ہے۔
) عبدالعزیز دراوردی، علاء بن مسیب اور امام مالک بن انس سب نے سہیل سے اسی سند کے ساتھ روایت کی، البتہ علاء بن مسیب کی حدیث میں بغض کا ذکر نہیں ہے (صرف محبت کرنے کی بات ہے۔)
امام صاحب یہی حدیث اپنے اساتذہ کی سندوں سے سہیل ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں لیکن علاء ابن المسیب کی روایت میں بغض کا ذکر نہیں ہے۔
عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمی ماجثون نے سہیل سے، انہوں نے ابوصالح سے روایت کی، کہا: ہم عرفہ میں تھے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا وہاں سے گذر ہوا اور وہ حج کے امیر تھے، لوگ کھڑے ہو کر انہیں دیکھنے لگے، میں نے اپنے والد سے کہا: ابا جان! میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عمر بن عبدالعزیز سے محبت کرتا ہے، انہوں نے پوچھا: اس کا کیا سبب ہے؟ میں نے کہا: اس لیے کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پائی جاتی ہے، انہوں (ابوصالح) نے کہا: تیرا باپ قربان ہو! تم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے سہیل سے جریر کی روایت کردہ حدیث بیان کی۔
سہیل بن ابی صالح کہتے ہیں ہم عرفہ میں تھے کہ عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ گزرے، جبکہ وہ امیر حج تھے، چنانچہ لوگ کھڑے ہو کر ان کو دیکھنے لگے تو میں نے اپنے باپ سے کہا، اے اباجان!میں سمجھتا ہوں، اللہ عمر بن عبد العزیز سے محبت کرتا ہے اس نے کہا یہ کیسے؟ میں نے کہا، کیونکہ لوگوں کے دلوں میں اس سے محبت ہے، انھوں نے کہا تونے کیا ہی خوب کہا، میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے پھر مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
ابوصالح نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "روحیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والی جماعتیں ہیں۔ ان میں سے جو ایک دوسرے (کی ایک جیسی صفات) سے آگاہ ہو گئیں ان میں یکجائی (الفت) ہو گئی اور (صفات کے اختلاف کی بنا پر) جو ایک دوسرے سے گریزاں رہیں وہ باہم مختلف ہو گئیں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"روح جمع کیے گئے لشکر ہیں جن میں معرفت جان پہچان پیدا ہوگئی وہ باہم جڑ گئے، ان میں الفت پیدا ہوگئی اور جن میں اجنبیت رہی ان میں اختلاف پیدا ہو گیا۔"
یزید بن اصم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا ایک حدیث بیان کی، کہا: "لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح معدنیات کی کانیں ہیں، جو زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے وہ اگر دین کو سمجھ لیں تو زمانہ اسلام میں بھی اچھے ہیں۔ اور روحیں ایک ساتھ رہنے والی جماعتیں ہیں جو آپس میں (ایک جیسی صفات کی بنا پر) ایک دوسرے کو پہنچاننے لگیں ان میں یکجائی پیدا ہو گئی اور جو (صفات کے اختلاف کی بنا پر) ایک دوسرے سے گریزاں رہیں، وہ باہم مختلف ہو گئیں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:" لوگ سونے چاندی کی معدن (کان) کی طرح معدنیات ہیں ان میں جو لوگ جاہلیت کے دور میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں بشرطیکہ دین کی سوجھ بوجھ پیدا کر لیں۔اور ارواح مجتمع لشکر ہیں چنانچہ جن میں جان پہچان تھی۔ان میں الفت ہو گئی اور جن میں غیریت تھی اجنبی تھیں وہ الگ الگ رہیں گی۔"