حدثنا سويد بن سعيد ، ومحمد بن عبد الاعلى وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا المعتمر ، عن ابيه ، عن ابي السليل ، عن ابي حسان ، قال: قلت لابي هريرة : " إنه قد مات لي ابنان، فما انت محدثي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بحديث تطيب به انفسنا عن موتانا؟ قال: قال: نعم، صغارهم دعاميص الجنة يتلقى احدهم اباه، او قال: ابويه فياخذ بثوبه، او قال: بيده كما آخذ انا بصنفة ثوبك هذا فلا يتناهى، او قال: فلا ينتهي حتى يدخله الله واباه الجنة ". وفي رواية سويد، قال: حدثنا ابو السليل،حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي هُرَيْرَةَ : " إِنَّهُ قَدْ مَاتَ لِيَ ابْنَانِ، فَمَا أَنْتَ مُحَدِّثِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ تُطَيِّبُ بِهِ أَنْفُسَنَا عَنْ مَوْتَانَا؟ قَالَ: قَالَ: نَعَمْ، صِغَارُهُمْ دَعَامِيصُ الْجَنَّةِ يَتَلَقَّى أَحَدُهُمْ أَبَاهُ، أَوَ قَالَ: أَبَوَيْهِ فَيَأْخُذُ بِثَوْبِهِ، أَوَ قَالَ: بِيَدِهِ كَمَا آخُذُ أَنَا بِصَنِفَةِ ثَوْبِكَ هَذَا فَلَا يَتَنَاهَى، أَوَ قَالَ: فَلَا يَنْتَهِي حَتَّى يُدْخِلَهُ اللَّهُ وَأَبَاهُ الْجَنَّةَ ". وَفِي رِوَايَةِ سُوَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو السَّلِيلِ،
ہمیں سوید بن سعید اور محمد بن عبدالاعلیٰ نے حدیث بیان کی۔۔ دونوں کے الفاظ ملتے جلتے ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں معتمر (بن سلیمان تیمی) نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے ابوسلیل سے اور انہوں نے ابوحسان سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میرے وہ بچے فوت ہو گئے ہیں، آپ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث سنا سکتے ہیں جس سے آپ ہمیں ہمارے فوت ہونے والوں کے متعلق ہمارے دلوں کی تسلی دلا سکیں؟ (ابوحسان نے) کہا: (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: ہاں۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) "چھوٹے بچے جنت کے پانی کے کیڑے ہیں (وہ جنت کے اندر ہی رہتے ہیں) ان میں سے کوئی اپنے باپ۔۔ یا فرمایا: اپنے ماں باپ۔۔ کو ملے گا تو وہ اسے اس کے کپڑے سے پکڑ لے گا۔۔ یا کہا: اس کے ہاتھ سے۔۔ جس طرح میں نے تمہارے اس کپڑے کے کنارے سے پکڑا ہوا ہے، پھر اس وقت تک نہیں ہٹے گا۔۔ یا کہا: نہیں رکے گا۔۔ یہاں تک کہ اللہ اسے اور اس کے والد کو جنت میں داخل کر دے گا۔" اور سوید کی روایت میں (ابوسلیل سے روایت ہے کے بجائے یوں) ہے: ہمیں ابوسلیل نے حدیث سنائی۔
ابو حسان رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا واقعہ یہ ہے کہ میرے دو بچے مر گئے ہیں تو آپ کیا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث نہیں سنائیں گے، جس سے ہمارے دلوں کو ہمارے مرنے والوں کے بارے میں تسلی ہو؟ انھوں نے کہا، ہاں، آپ نے فرمایا:"چھوٹے بچے جنت کے کورے(پانی کے کیڑے) ہیں ان میں سے کوئی اپنے باپ کویا فرمایا:"والدین کو ملے گا تو اس کا کپڑا پکڑ لے گا یا فرمایا:اس کا ہاتھ پکڑلے گا جس طرح میں نے تمھارے اس کپڑے کے کنارے کو پکڑ ہوا ہے تو وہ اس وقت رکے گا، نہیں یا باز نہیں آئے گا، حتی کہ اللہ اسے اور اس کے باپ کو جنت میں داخل کردے گا۔"سوید کی روایت میں ہے اس نے کہا کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے، جس سے آپ ہمیں ہمارے فوت شدگان کے بارے میں تسلی دے سکیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6701
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: دعاميص، دعموص کی جمع ہے، پانی کے ان کیڑوں کو کہتے ہیں، جو اس سے الگ نہیں ہوتے، یعنی یہ چھوٹے بچے جنت سے الگ نہیں ہوں گے۔ صنفة: (کپڑے کا) کنارہ، فلا يتناهي یافلا ينتهي، رکے گا نہیں، باز نہیں آئے گا، یعنی اپنے والد کے دامن یا ہاتھ کو چھوڑے گا نہیں۔