عدی بن حاتم سے روایت ہے، کہا: میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انھوں نے مجھ سے کہا: سب سے پہلا صدقہ (باقاعدہ وصول شدہ زکاۃ) جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے چہروں کو روشن کر دیا تھا بنو طے کا صدقہ تھا، جس کو آپ (عدی رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آئے تھے۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا،توانہوں نے مجھے بتایا،پہلاصدقہ،جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اور آپ کے ساتھیوں کا چہرہ(مسرت سے)روشن ہوا،وہ طئی کاصدقہ ہے،جوتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: حضرت طفیل (بن عمرو دوسی) رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آئے اور آکر عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! (ہمارے قبیلے) دوس نے کفر کیا اور (اسلام لا نے سے) انکا ر کیا، آپ ان کے خلا ف دعا کیجیے! (بعض لوگوں کی طرف سے) کہا گیا۔ کہ اب دوس ہلا ک ہو گئے۔ (لیکن) آپ نے (دعا کرتے ہو ئے) فرمایا: "اے اللہ!دوس کو ہدایت دےاور ان کو (یہاں) لےآ۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،حضرت طفیل اور ان کے ساتھی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے،اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )!دوس کے لوگ کفر پر اصرار کررہے ہیں،ان کے خلاف دعا فرمائیں تو کہاگیا،دوس ہلاک ہوگئے،لیکن آپ نے دعا فرمائی،"اے اللہ!دوس کوہدایت دے اور انہیں یہاں لے آ۔"
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جرير ، عن مغيرة ، عن الحارث ، عن ابي زرعة ، قال: قال ابو هريرة : " لا ازال احب بني تميم من ثلاث سمعتهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: هم اشد امتي على الدجال، قال: وجاءت صدقاتهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هذه صدقات قومنا، قال: وكانت سبية منهم عند عائشة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اعتقيها فإنها من ولد إسماعيل ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : " لَا أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ ثَلَاثٍ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ، قَالَ: وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا، قَالَ: وَكَانَتْ سَبِيَّةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعْتِقِيهَا فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ ".
حارث نے ابو زرعہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بنو تمیم کے ساتھ تین باتوں کی وجہ سے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں محبت کرتا آرہا ہوں۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرما تے ہو ئے سنا، یہ میری امت میں سے دجال کے خلا ف زیادہ سخت ہوں گے۔کہا: اور ان لوگوں کے صدقات (زکاۃ کے اموال) آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: " یہ ہماری اپنی قوم کے صدقات ہیں۔ کہا: ان میں سے جنگ میں پکڑی ہو ئی ایک باندی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی۔آپ نے ان سے فرما یا: "اسے آزاد کردو۔ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولا د میں سے ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں بنوتمیم سے تین باتوں کے سبب جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں،محبت کرتارہوں گا،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے سنا،"وہ میری اُمت میں سے سب سے زیادہ دجال کے لیے سخت ثابت ہوں گے۔"اور آپ کے پاس ان کے صدقات پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ ہماری قوم کے صدقات ہیں،"اور ان میں سے ایک لونڈی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ملکیت میں تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اسے آزاد کردو،کیونکہ یہ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہے۔"
عمارہ نے ابو زرعہ سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: تین باتوں کے بعد جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں، میں بنو تمیم سے مسلسل محبت کرتا آرہا ہوں، پھر اسی (سابقہ حدیث) کے مانند بیان کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،میں بنو تمیم سے،تین باتوں کے بعد،جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے بارے میں سنی ہیں،محبت کرتا رہوں گا،آگے مذکورہ بالاروایت ہے۔
وحدثنا حامد بن عمر البكراوي ، حدثنا مسلمة بن علقمة المازني ، إمام مسجد داود، حدثنا داود ، عن الشعبي ، عن ابي هريرة، قال: ثلاث خصال سمعتهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم في بني تميم، لا ازال احبهم بعد، وساق الحديث بهذا المعنى غير انه، قال: هم اشد الناس قتالا في الملاحم، ولم يذكر الدجال.وحَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ الْمَازِنِيُّ ، إِمَامُ مَسْجِدِ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: ثَلَاثُ خِصَالٍ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَنِي تَمِيمٍ، لَا أَزَالُ أُحِبُّهُمْ بَعْدُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِهَذَا الْمَعْنَى غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: هُمْ أَشَدُّ النَّاسِ قِتَالًا فِي الْمَلَاحِمِ، وَلَمْ يَذْكُرِ الدَّجَّالَ.
۔شعبی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: تین صفات ہیں جو میں نے بنوتمیم کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں اس کے بعد سے میں ان سے محبت کرتا ہوں اور (آگے) اسی معنی میں حدیث بیان کی، البتہ (شعبی نے) یہ کہا: "وہ (مستقبل میں ہو نے والی) بڑی جنگوں کے دوران میں لڑنے میں سب لوگوں سے زیادہ سخت ہوں گے۔"اور انھوں نے دجال کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،بنوتمیم میں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین خوبیاں سنی ہیں،اس کے بعد سے میں ان سے محبت کرتا ہوں،آگے مذکورہ بالاروایت کے ہم معنی روایت ہے،صرف اتنا فرق ہے کہ آپ نے فرمایا:"وہ لوگ لڑائیوں میں سب سے زیادہ سخت ہیں"اور دجال کا تذکرہ نہیں کیا۔
حدثني حرملة بن يحيي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، حدثني سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " تجدون الناس معادن، فخيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام، إذا فقهوا وتجدون من خير الناس في هذا الامر اكرههم له، قبل ان يقع فيه، وتجدون من شرار الناس ذا الوجهين الذي ياتي هؤلاء بوجه وهؤلاء بوجه ".حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَجِدُونَ النَّاسَ مَعَادِنَ، فَخِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ، إِذَا فَقِهُوا وَتَجِدُونَ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ فِي هَذَا الْأَمْرِ أَكْرَهُهُمْ لَهُ، قَبْلَ أَنْ يَقَعَ فِيهِ، وَتَجِدُونَ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ ذَا الْوَجْهَيْنِ الَّذِي يَأْتِي هَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ وَهَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ ".
ابن شہاب نے کہا: مجھے سعید بن مسیب نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کو کانوں کی طرح پاؤ گے۔ پس جو جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں جب دین میں سمجھدار ہو جائیں اور تم بہتر اس کو پاؤ گے جو مسلمان ہونے سے پہلے اسلام سے بہت نفرت رکھتا ہو (یعنی جو کفر میں مضبوط تھا وہ اسلام لانے کے بعد اسلام میں بھی ایسا ہی مضبوط ہو گا جیسے سیدنا عمر اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہما وغیرہ یا یہ مراد ہے کہ جو خلافت سے نفرت رکھے اسی کی خلافت عمدہ ہو گی)۔ اور تم سب سے برا اس کو پاؤ گے جو دو روّیہ ہو کہ ان کے پاس ایک منہ لے کر آئے اور ان کے پاس دوسرا منہ لے کر جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کو معدنیات کی طرح پاؤ گے۔ تو جو لوگ جاہلیت کے دورمیں بہتر تھے وہ اسلام کےدورمیں بھی بہتر ہیں بشرط یہ کہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل کرلیں،یا اس میں ملکہ پیدا کرلیں اور تم دین کے معاملہ یا حکومت واقتدار میں ان لوگوں کوبہتر پاؤگے،جواس کو سب سے زیادہ ناپسند کرتے تھے،جبکہ وہ اس میں داخل نہیں ہوئےتھے اور تم بدترین لوگ ان کوپاؤگے،جودورخے ہیں،جن کے دو چہرے ہیں،جو ان لوگوں کے پاس ایک چہرے سے آتے ہیں اور ان کے پاس دوسرے چہرے سے۔"
ابن ابی عمر نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے ابو زناد سے حدیث بیان کی، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی اور ابن طاوس نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان عورتوں میں سے بہترین جو اونٹوں پر سوار ہوتی ہیں۔ان دونوں (اعرج اورطاؤس) میں سے ایک نے کہا: قریش کی نیک عورتیں ہیں اور دوسرے نے کہا: قریش کی عورتیں ہیں۔جو یتیم بچے کی کم عمری میں اس پر سب سے زیادہ مہربان ہوتی ہیں اور اپنے شوہر کے مال کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بہترین عورتیں،جو اونٹوں پر سواری کرتی ہیں،وہ قریش کی پارساعورتیں ہیں،یا قریشی عورتیں ہیں،جو یتیم پر بچپن میں بہت شفقت کرتی ہیں اور خاوند کے ہاتھ کی چیزوں کی بہت حفاظت کرتی ہیں۔"
حدثنا عمرو الناقد ، حدثنا سفيان ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، وابن طاوس، عن ابيه، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، بمثله، غير انه قال: ارعاه على ولد في صغره ولم يقل يتيم.حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَرْعَاهُ عَلَى وَلَدٍ فِي صِغَرِهِ وَلَمْ يَقُلْ يَتِيمٍ.
عمرو ناقد نےکہا: ہمیں سفیان نے ابو زناد سے حدیث بیان کی، انھوں نے اعرض سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی جو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے (آپ سے روایت کرتے تھے۔) اس (سابقہ روایت) کے مانند، اور ابن طاوس نے اپنے والد سے روایت کی جو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے، مگر انھوں نے اس طرح کہا: "وہ ا پنے بچے کی اس کی کم سنی میں سب سے زیادہ نگہداشت کرنے والی ہوتی ہیں۔"انھوں نے"یتیم (پر) "نہیں کہا۔
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں-
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے سعید بن مسیب نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ سے سنا، آپ نے فرمایا: "قریش کی عورتیں اونٹوں پر سواری کرنے والی تمام عورتوں میں سب سے اچھی ہیں، بچے پر سب سے بڑھ کر مہربان ہیں اور اپنے خاوند کے لئے اس کے مال کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والی ہیں۔" (سعیدبن مسیب نے) کہا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد کہا کر تے تھے: مریم بنت عمران علیہ السلام اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا،"قریشی عورتیں،اونٹ سوار عورتوں میں سے بہتر ہیں،وہ بچے پر بہت مہربان ہوتی ہیں اورخاوند کے ہاتھ کی چیزوں کی خوب حفاظت کرتی ہیں۔"اس حدیث کے بیان کرنے کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے،حضرت مریم بنت عمران کبھی اونٹ پر سوار نہیں ہوئیں۔"