حدثني عباس بن عبد العظيم العنبري ، واحمد بن جعفر المعقري ، قالا: حدثنا النضر وهو ابن محمد اليمامي ، حدثنا عكرمة ، حدثنا ابو زميل ، حدثني ابن عباس ، قال: " كان المسلمون لا ينظرون إلى ابي سفيان ولا يقاعدونه، فقال للنبي صلى الله عليه وسلم: يا نبي الله، ثلاث اعطنيهن، قال: نعم، قال: عندي احسن العرب واجمله ام حبيبة بنت ابي سفيان ازوجكها؟ قال نعم، قال: ومعاوية، تجعله كاتبا بين يديك؟ قال: نعم، قال: وتؤمرني حتى اقاتل الكفار كما كنت اقاتل المسلمين؟ قال: نعم، قال ابو زميل: ولولا انه طلب ذلك من النبي صلى الله عليه وسلم، ما اعطاه ذلك لانه لم يكن يسال شيئا إلا، قال: نعم ".حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا النَّضْرُ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " كَانَ الْمُسْلِمُونَ لَا يَنْظُرُونَ إِلَى أَبِي سُفْيَانَ وَلَا يُقَاعِدُونَهُ، فَقَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ثَلَاثٌ أَعْطِنِيهِنَّ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ أُزَوِّجُكَهَا؟ قَالَ نَعَمْ، قَالَ: وَمُعَاوِيَةُ، تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بَيْنَ يَدَيْكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَتُؤَمِّرُنِي حَتَّى أُقَاتِلَ الْكُفَّارَ كَمَا كُنْتُ أُقَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: وَلَوْلَا أَنَّهُ طَلَبَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَعْطَاهُ ذَلِكَ لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُسْأَلُ شَيْئًا إِلَّا، قَالَ: نَعَمْ ".
عکرمہ نے کہا: ہمیں ابو زمیل نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: مسلمان نہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے بات کرتے تھے نہ ان کے ساتھ بیٹھتے اٹھتے تھے۔اس پر انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے تین چیزیں عطا فر ما دیجیے۔ (تین چیزوں کے بارے میں میری درخواست قبول فرما لیجیے۔) آپ نے جواب دیا: " ہاں۔"کہا میری بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا عرب کی سب سے زیادہ حسین و جمیل خاتون ہے میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتا ہوں۔آپ نے فر مایا: "ہاں۔"کہا: اور معاویہ (میرابیٹا) آپ اسے اپنے پاس حاضر رہنے والا کا تب بنا دیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہاں۔ "پھر کہا: آپ مجھے کسی دستے کا امیر (بھی) مقرر فرمائیں تا کہ جس طرح میں مسلمانوں کے خلاف لڑتا تھا اسی طرح کافروں کے خلا ف بھی جنگ کروں۔آپ نے فرمایا: "ہاں۔"ابو زمیل نے کہا: اگر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں کا مطالبہ نہ کیا ہو تا تو آپ (از خود) انھیں یہ سب کچھ عطا نہ فرماتے کیونکہ آپ سے کبھی کوئی چیز نہیں مانگی جا تی تھی مگر آپ (اس کے جواب میں) "ہاں" کہتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، مسلمان نہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بات کرتے تھے نہ ان کے ساتھ بیٹھتے اٹھتے تھے۔اس پر انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے تین چیزیں عطا فر دیجیے۔(تین چیزوں کے بارے میں میری درخواست قبول فر لیجیے۔)آپ نے جواب دیا:" ہاں۔"کہا میری بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عرب کی سب سے زیادہ حسین و جمیل خاتون ہے میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتا ہوں۔آپ نے فر مایا:"ہاں۔"کہا: اور معاویہ (میرابیٹا) آپ اسے اپنے پاس حاضر رہنے والا کا تب بنا دیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:" ہاں۔ "پھر کہا: آپ مجھے کسی دستے کا امیر (بھی) مقرر فرمائیں تا کہ جس طرح میں مسلمانوں کے خلاف لڑتا تھا اسی طرح کافروں کے خلا ف بھی جنگ کروں۔آپ نے فرمایا:"ہاں۔"ابو زمیل نے کہا: اگر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں کا مطالبہ نہ کیا ہو تا تو آپ (از خود) انھیں یہ سب کچھ عطا نہ فر تے لیکن آپ کی عادت مبارکہ تھی،جب آپ سے کچھ مانگا جاتا تو آپ عنایت فرمادیتے۔
حدثنا عبد الله بن براد الاشعري ، ومحمد بن العلاء الهمداني ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، حدثني بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: " بلغنا مخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن باليمن، فخرجنا مهاجرين إليه انا واخوان لي انا اصغرهما، احدهما ابو بردة والآخر ابو رهم، إما قال: بضعا، وإما قال: ثلاثة وخمسين او اثنين وخمسين رجلا من قومي، قال: فركبنا سفينة، فالقتنا سفينتنا إلى النجاشي بالحبشة، فوافقنا جعفر بن ابي طالب واصحابه عنده، فقال جعفر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثنا هاهنا وامرنا بالإقامة، فاقيموا معنا، فاقمنا معه حتى قدمنا جميعا، قال: فوافقنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، حين افتتح خيبر فاسهم لنا او، قال: اعطانا منها وما قسم لاحد غاب عن فتح خيبر منها شيئا، إلا لمن شهد معه إلا لاصحاب سفينتنا مع جعفر واصحابه، قسم لهم معهم، قال: فكان ناس من الناس، يقولون لنا: يعني لاهل السفينة نحن سبقناكم بالهجرة،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنِي بُرَيْدٌ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " بَلَغَنَا مَخْرَجُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ، فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا وَأَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمَا، أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ وَالْآخَرُ أَبُو رُهْمٍ، إِمَّا قَالَ: بِضْعًا، وَإِمَّا قَالَ: ثَلَاثَةً وَخَمْسِينَ أَوِ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي، قَالَ: فَرَكِبْنَا سَفِينَةً، فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأَصْحَابَهُ عِنْدَهُ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنَا هَاهُنَا وَأَمَرَنَا بِالْإِقَامَةِ، فَأَقِيمُوا مَعَنَا، فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا، قَالَ: فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ فَأَسْهَمَ لَنَا أَوْ، قَالَ: أَعْطَانَا مِنْهَا وَمَا قَسَمَ لِأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا، إِلَّا لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ إِلَّا لِأَصْحَابِ سَفِينَتِنَا مَعَ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ، قَسَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ، قَالَ: فَكَانَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، يَقُولُونَ لَنَا: يَعْنِي لِأَهْلِ السَّفِينَةِ نَحْنُ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ،
بُرَید نے ابو بُردہ سے انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (مکہ سے) نکلنے کی خبر ملی تو ہم یمن میں تھے۔ہم (بھی) آپ کی طرف ہجرت کرتے ہو ئے نکل پڑے۔میں میرے دو بھا ئی جن سے میں چھوٹا تھا۔ ایک ابو بردہ اور دوسرا ابو رہم۔۔۔اور میری قوم میں سے پچاس سے کچھ اوپریا کہا: تریپن یا باون لوگ (نکلے)۔۔کہا: ہم کشتی میں سوار ہو ئے تو ہماری کشتی نے ہمیں حبشہ میں نجا شی کے ہاں جا پھینکا۔اس کے ہاں ہم حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے ہو گئے۔ جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے تم لو گ بھی ہمارے ساتھ یہیں ٹھہرو۔کہا: ہم ان کے ساتھ ٹھہرگئے۔حتی کہ ہم سب اکٹھے (واپس) آئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (عین) اس وقت آکر ملے جب آپ نے خیبر فتح کیا تو آپ نے ہمارا بھی حصہ نکا لا یا کہا: ہمیں بھی اس مال میں سے عطا فرمایا: آپ نے کسی شخص کو بھی جو فتح خیبر میں مو جود نہیں تھا کوئی حصہ نہیں دیا تھا، سوائے ان لوگوں کے جو آپ کے ساتھ (فتح میں) شریک تھے مگر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ ہماری کشتی والوں کو دیا، ان کے لیے ان (فتح میں شریک ہو نے والوں) کے ساتھ ہی حصہ نکا لا۔کہا: تو ان میں سے کچھ لوگ ہمیں۔۔۔یعنی کشتی والوں کو۔۔۔کہتے تھے، ہم نے ہجرت میں تم سے سبقت حاصل کی۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا پتہ چلا جبکہ ہم یمن میں تھے تو ہم میں اور میرے دو بھائی،آپ کی طرف ہجرت کی نیت سے نکلے،میں ان دونوں سے چھوٹا تھا۔ ایک ابو بردہ اور دوسرا ابو رہم۔۔۔اور میری قوم میں سے پچاس سے کچھ اوپریا کہا: تریپن یا باون لوگ (نکلے)۔۔کہا: ہم کشتی میں سوار ہو ئے تو ہماری کشتی نے ہمیں حبشہ میں نجا شی کے ہاں جا پھینکا۔اس کے ہاں ہم حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے ہو گئے۔ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے تم لو گ بھی ہمارے ساتھ یہیں ٹھہرو۔کہا: ہم ان کے ساتھ ٹھہرگئے۔حتی کہ ہم سب اکٹھے (واپس)آئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (عین)اس وقت آکر ملے جب آپ نے خیبر فتح کیا تو آپ نے ہمارا بھی حصہ نکا لا یا کہا:ہمیں بھی اس مال میں سے عطا فر یا:آپ نے کسی شخص کو بھی جو فتح خیبر میں مو جود نہیں تھا کو ئی حصہ نہیں دیا تھا، سوائے ان لوگوں کے جو آپ کے ساتھ (فتح میں) شریک تھے مگر حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ ہماری کشتی والوں کو دیا،ان کے لیے ان(فتح میں شریک ہو نے والوں)کے ساتھ ہی حصہ نکالا۔کہا:تو ان میں سے کچھ لوگ ہمیں۔۔۔یعنی کشتی والوں کو۔۔۔کہتے تھے، ہم نے ہجرت میں تم سے سبقت حاصل کی۔
قال: فدخلت اسماء بنت عميس وهي ممن قدم معنا على حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم زائرة، وقد كانت هاجرت إلى النجاشي فيمن هاجر إليه، فدخل عمر على حفصة، واسماء عندها، فقال عمر: حين راى اسماء من هذه؟ قالت: اسماء بنت عميس؟ قال عمر: الحبشية هذه البحرية هذه؟ فقالت اسماء: نعم، فقال عمر: سبقناكم بالهجرة فنحن احق برسول الله صلى الله عليه وسلم منكم، فغضبت وقالت كلمة: كذبت يا عمر كلا والله كنتم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يطعم جائعكم ويعظ جاهلكم وكنا في دار او في ارض البعداء البغضاء في الحبشة، وذلك في الله وفي رسوله وايم الله لا اطعم طعاما ولا اشرب شرابا حتى اذكر ما قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ونحن كنا نؤذى ونخاف، وساذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم واساله ووالله لا اكذب ولا ازيغ ولا ازيد على ذلك، قال: فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: يا نبي الله، إن عمر قال كذا وكذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس باحق بي منكم وله ولاصحابه هجرة واحدة، ولكم انتم اهل السفينة هجرتان، قالت: فلقد رايت ابا موسى، واصحاب السفينة ياتوني ارسالا يسالوني عن هذا الحديث ما من الدنيا شيء هم به افرح ولا اعظم في انفسهم مما قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال اب وبردة: فقالت اسماء: فلقد رايت ابا موسى، وإنه ليستعيد هذا الحديث مني.قَالَ: فَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ وَهِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَةً، وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ، فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا، فَقَالَ عُمَرُ: حِينَ رَأَى أَسْمَاءَ مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ: أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ؟ قَالَ عُمَرُ: الْحَبَشِيَّةُ هَذِهِ الْبَحْرِيَّةُ هَذِهِ؟ فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ، فَغَضِبَتْ وَقَالَتْ كَلِمَةً: كَذَبْتَ يَا عُمَرُ كَلَّا وَاللَّهِ كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ وَيَعِظُ جَاهِلَكُمْ وَكُنَّا فِي دَارِ أَوْ فِي أَرْضِ الْبُعَدَاءِ الْبُغَضَاءِ فِي الْحَبَشَةِ، وَذَلِكَ فِي اللَّهِ وَفِي رَسُولِهِ وَايْمُ اللَّهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ وَوَاللَّهِ لَا أَكْذِبُ وَلَا أَزِيغُ وَلَا أَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ عُمَرَ قَالَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ وَلَهُ وَلِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ، وَلَكُمْ أَنْتُمْ أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ، قَالَتْ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى، وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونِي أَرْسَالًا يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ مَا مِنَ الدُّنْيَا شَيْءٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَلَا أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُ وَبُرْدَةَ: فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى، وَإِنَّهُ لَيَسْتَعِيدُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنِّي.
کہا: (تو ایسا ہوا کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی بیوی) اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہا وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ہمارے ساتھ آئے تھے۔ ملنے کے لئے ام المومنین حضت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پا س گئیں۔ہی بھی نجاشی کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کرکے گئی تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمر (رضی اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں (ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اور دنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو (خوشی کے لئے) باربار سننا چاہتے۔
ابوموسیٰ بیان کرتے ہیں،حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ہمارے ساتھ آنے والوں میں سے تھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ملاقات کے لیے گئیں،چونکہ وہ بھی نجاشی کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے تھیں تو سیدنا عمر ؓ ام المؤمنین حفصہ ؓ کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس ؓ ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمر ؓ نے اسماء ؓ کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ ؓ نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اوراب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء ؓ بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء ؓ نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر ؓ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمر (ؓ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں (ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء ؓ نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اوردنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔سیدنا ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو باربار سننا چاہتے۔
معاویہ بن قرہ نے عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ چند اور لوگوں کی موجودگی میں حضرت سلیمان، حضرت صہیب اور حضرت بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن میں اپنی جگہ تک نہیں پہنچیں۔کہا: اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم لوگ قریش کے شیخ اور سردار کے متعلق یہ کہتے ہو۔پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو یہ بات بتا ئی تو آپ نے فرمایا: "ابو بکر رضی اللہ عنہ! شاید تم نے ان کو ناراض کر دیا ہے۔اگر تم نے ان کو ناراض کر دیا ہے تو اپنے رب کو ناراض کر دیا ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: میرے بھائیو! کیا میں نے تم کو ناراض کردیا؟ انھوں نے کہا: نہیں بھا ئی! اللہ آپ کی مغفرت فر ما ئے۔
حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ چند اور لوگوں کی موجودگی میں حضرت سلیمان،حضرت صہیب اور حضرت بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن میں اپنی جگہ تک نہیں پہنچیں۔کہا: اس پر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر یا:تم لوگ قریش کے شیخ اور سردار کے متعلق یہ کہتے ہو۔پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو یہ بات بتا ئی تو آپ نے فر یا:"ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! شاید تم نے ان کو ناراض کر دیا ہے۔اگر تم نے ان کو ناراض کر دیا ہے تو اپنے رب کو ناراض کر دیا ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: میرے بھائیو! کیا میں نے تم کو ناراض کردیا؟ انھوں نے کہا: نہیں بھا ئی! اللہ آپ کی مغفرت فر ئے۔
حدثنا حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، واحمد بن عبدة واللفظ لإسحاق، قالا: اخبرنا سفيان ، عن عمرو ، عن جابر بن عبد الله ، قال: " فينا نزلت: إذ همت طائفتان منكم ان تفشلا والله وليهما سورة آل عمران آية 122 بنو سلمة، وبنو حارثة، وما نحب انها لم تنزل لقول الله عز وجل: والله وليهما سورة آل عمران آية 122 ".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ وَاللَّفْظُ لِإِسْحَاقَ، قَالَا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " فِينَا نَزَلَتْ: إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلا وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا سورة آل عمران آية 122 بَنُو سَلِمَةَ، وَبَنُو حَارِثَةَ، وَمَا نُحِبُّ أَنَّهَا لَمْ تَنْزِلْ لِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا سورة آل عمران آية 122 ".
عمرو (بن دینار) نے حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہو ئی "جب تم میں سے دوجماعتوں نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا اور اللہ ان دونوں کا مدد گا ر تھا "یہ آیت بنوسلمہ اور بنو حارثہ کے متعلق نازل ہو ئی (اس کے اندر) اللہ کے اس فر ما ن: "اللہ ان دونوں (جماعتوں) کا مددگار تھا"کی بنا پر ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ یہ آیت نال نہ ہو ئی ہوتی۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے،"جب تم میں سے دو گروہوں نے بزدلی کاارادہ کیا،حالانکہ اللہ ان کا مددگار تھا،یعنی بنوسلمہ اور بنو حارثہ اور ہم یہ نہیں چاہتے تھے،یہ آیت نہ اتاری جاتی،کیونکہ اللہ بزرگ وبرتر کافرمان ہے،اللہ ان کاحمایتی ہے۔
محمد بن جعفر اور عبد الرحمٰن بن مہدی نے کہا: ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے نضر بن انس سے انھوں نے حضرت زید بن راقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حنین کی غنیمتیں تقسیم کرنے کے بعد انصار کو خطبہ دیتے ہو ئے) فرمایا: "اے اللہ!انصار کی مغفرت فر ما، انصار کے بیٹوں کی مغفرت فرما، انصار بیٹوں کے بیٹوں کی مغفرت فر ما!"
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی،"اے اللہ!انصار کو،انصار کے بیٹوں کو،انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کو معاف فرما۔"
عکرمہ بن عمار نے کہا: ہمیں اسحٰق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے حدیث بیان کی، کہا: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ان سے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے لیے مغفرت کی دعاکی۔ (اسحاق نے) کہا: میرا خیال ہے کہ انھوں (انس رضی اللہ عنہ) نے کہا: "اور انصارکی اولاد دوں اور انصارکے ساتھ نسبت رکھنے والوںکی بھی (مغفرت فرما۔) "مجھے اس کے بارےمیں کوئی شک نہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے لیے بخشش طلب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا:"انصار کی اولاد کو اور انصار کے غلاموں کو۔"مجھے آپ کے اس فرمان کے بارے میں شک نہیں ہے۔(یہ راوی کا قول ہے)
حدثني ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب جميعا، عن ابن علية ، واللفظ لزهير، حدثنا إسماعيل، عن عبد العزيز وهو ابن صهيب ، عن انس ، " ان النبي صلى الله عليه وسلم راى صبيانا ونساء مقبلين من عرس، فقام نبي الله صلى الله عليه وسلم ممثلا، فقال: اللهم انتم من احب الناس إلي، اللهم انتم من احب الناس إلي يعني الانصار ".حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى صِبْيَانًا وَنِسَاءً مُقْبِلِينَ مِنْ عُرْسٍ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُمْثِلًا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، اللَّهُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ يَعْنِي الْأَنْصَارَ ".
عبد العزیز بن صہیب نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (انصارکے) کچھ بچوں اور عورتوں کو شادی سے آتے ہو ئے دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے کھڑے ہو گئے۔اور فرما یا: "میرا اللہ! (گواہ ہے) تم ان لوگوں میں سے ہو جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔میرا اللہ! (گواہ ہے) تم ان لوگوں میں سے ہوجو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔"آپ کی مراد انصار سے تھی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بچوں اور عورتوں کو شادی سے آتے ہوئے دیکھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے کھڑے ہوگئے اور فرمایا:"اللہ گواہ ہے،تم مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہو،اللہ گواہ ہے،تم مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہو۔"آپ کی مراد انصارتھے۔
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار جميعا، عن غندر ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة ، عن هشام بن زيد ، سمعت انس بن مالك ، يقول: جاءت امراة من الانصار إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فخلا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: " والذي نفسي بيده إنكم لاحب الناس إلي، ثلاث مرات ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ جَمِيعًا، عَنْ غُنْدَرٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَخَلَا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ".
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے ہشام بن زید سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے ہو ئے سنا: انصار میں سے ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیحدگی میں اس کی بات سنی اور تین بار فرمایا: " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میرے جان ہے! تم لو گ سب سے زیادہ پیارےہو۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک انصاری عورت حاضر ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علیحدگی میں بات کی اور تین دفعہ فرمایا:"اس ذات کی قسم،جس کے قبضہ میں میری جان ہے،تم مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہو۔"