وحدثني حرملة بن يحيي التجيبي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، ان عروة بن الزبير حدثه ان عائشة ، قالت: " الا يعجبك ابو هريرة، جاء فجلس إلى جنب حجرتي يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم يسمعني ذلك وكنت اسبح، فقام قبل ان اقضي سبحتي، ولو ادركته لرددت عليه إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يسرد الحديث كسردكم ".وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " أَلَا يُعْجِبُكَ أَبُو هُرَيْرَةَ، جَاءَ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِ حُجْرَتِي يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْمِعُنِي ذَلِكَ وَكُنْتُ أُسَبِّحُ، فَقَامَ قَبْلَ أَنْ أَقْضِيَ سُبْحَتِي، وَلَوْ أَدْرَكْتُهُ لَرَدَدْتُ عَلَيْهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَسْرُدُ الْحَدِيثَ كَسَرْدِكُمْ ".
یو نس نے ابن شہاب سے روایت کی عروہ بن زبیر نے انھیں حدیث بیان کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تمھیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (ایسا کرتے ہوئے) اچھے نہیں لگتے کہ وہ آئے میرے حجرے کے ساتھ بیٹھ گئےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بیان کرنے لگے وہ مجھے (یہ) احادیث سنا رہے تھے۔میں نفل پڑھ رہی تھی تو وہ میرے نوافل ختم کرنے سے پہلے اٹھ گئے۔اگر میں (نوافل ختم کرنے کے بعد) انھیں مو جو د پا تی تو میں ان کو جواب میں یہ کہتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی طرح تسلسل سے ایک کے بعد دوسری بات ارشاد نہیں فرماتےتھے۔ ابن شہاب نے بیان کیا: حضرت سعید بن مسیب نے روایت کیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لو گ کہتے ہیں۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بہت احادیث بیان کرتے ہیں اور پیشی اللہ کے سامنے ہو نی ہے نیز وہ کہتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ مہاجرین اور انصار ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرح احادیث بیان نہیں کرتے؟ میں تم کو اس کے بارے میں بتا تا ہوں۔میرے انصاری بھا ئیوں کو ان کی زمینوں کاکام مشغول رکھتا تھا اور میرے مہاجر بھا ئیوں کو بازار کی خریدو فروخت مصروف رکھتی تھی اور میں پیٹ بھرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لگا رہتا تھا، جب دوسرے لو گ غائب ہو تے تو میں حاضر رہتا تھا اور جن باتوں کو وہ بھول جا تے تھے میں ان کو یا د رکھتا تھا۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم میں سے کو ن شخص اپنا کپڑا بچھائے گا۔تا کہ میری یہ بات (حدیث) سنے پھر اس (کپڑے) کو اپنے سینے سے لگا لے تو اس نے جو کچھ سنا ہو گا اس میں سے کوئی چیز نہیں بھولے گا۔"میں نے ایک چادر جو میرے کندھوں پر تھی پھیلا دی یہاں تک کہ آپ اپنی بات سے فارغ ہوئے تو میں نے اس چادر کو اپنے سینے کے ساتھ اکٹھا کر لیا تو اس دن کے بعد کبھی کوئی ایسی چیز نہیں بھولا جو آپ نے مجھ سے بیان فر ما ئی۔اگر دو آیتیں نہ ہو تیں، جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل فر ما ئی ہیں تو میں کبھی کوئی چیز بیان نہ کرتا (وہ آیتیں یہ ہیں) "وہ لو گ جو ہماری اتاری ہو ئی کھلی باتوں اور ہدایت کو چھپا تے ہیں۔۔۔دونوں آیتوں کے آخر تک۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: کیا تمھیں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ایسا کرتے ہوئے) اچھے نہیں لگتے کہ وہ آئے میرے حجرے کے ساتھ بیٹھ گئےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بیان کرنے لگے وہ مجھے (یہ) احادیث سنا رہے تھے۔میں نفل پڑھ رہی تھی تو وہ میرے نوافل ختم کرنے سے پہلے اٹھ گئے۔اگر میں (نوافل ختم کرنے کے بعد) انھیں مو جو د پا تی تو میں ان کو جواب میں یہ کہتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی طرح تسلسل سے ایک کے بعد دوسری بات ارشاد نہیں فر تےتھے۔
(حديث مرفوع) قال ابن شهاب : وقال ابن المسيب : إن ابا هريرة ، قال: يقولون: " إن ابا هريرة قد اكثر والله الموعد، ويقولون: ما بال المهاجرين، والانصار لا يتحدثون مثل احاديثه، وساخبركم عن ذلك، إن إخواني من الانصار كان يشغلهم عمل ارضيهم، وإن إخواني من المهاجرين كان يشغلهم الصفق بالاسواق، وكنت الزم رسول الله صلى الله عليه وسلم على ملء بطني، فاشهد إذا غابوا واحفظ إذا نسوا، ولقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما: ايكم يبسط ثوبه فياخذ من حديثي هذا، ثم يجمعه إلى صدره، فإنه لم ينس شيئا سمعه، فبسطت بردة علي حتى فرغ من حديثه، ثم جمعتها إلى صدري، فما نسيت بعد ذلك اليوم شيئا حدثني به، ولولا آيتان انزلهما الله في كتابه ما حدثت شيئا ابدا: إن الذين يكتمون ما انزلنا من البينات والهدى سورة البقرة آية 159، إلى آخر الآيتين ". وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، اخبرنا ابو اليمان ، عن شعيب ، عن الزهري ، اخبرني سعيد بن المسيب ، وابو سلمة بن عبد الرحمن ، ان ابا هريرة ، قال: إنكم تقولون إن ابا هريرة يكثر الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بنحو حديثهم.(حديث مرفوع) قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَقَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ : إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: يَقُولُونَ: " إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَدْ أَكْثَرَ وَاللَّهُ الْمَوْعِدُ، وَيَقُولُونَ: مَا بَالُ الْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ لَا يَتَحَدَّثُونَ مِثْلَ أَحَادِيثِهِ، وَسَأُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ، إِنَّ إِخْوَانِي مِنْ الْأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمْ عَمَلُ أَرَضِيهِمْ، وَإِنَّ إِخْوَانِي مِنْ الْمُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، وَكُنْتُ أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، فَأَشْهَدُ إِذَا غَابُوا وَأَحْفَظُ إِذَا نَسُوا، وَلَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا: أَيُّكُمْ يَبْسُطُ ثَوْبَهُ فَيَأْخُذُ مِنْ حَدِيثِي هَذَا، ثُمَّ يَجْمَعُهُ إِلَى صَدْرِهِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَنْسَ شَيْئًا سَمِعَهُ، فَبَسَطْتُ بُرْدَةً عَلَيَّ حَتَّى فَرَغَ مِنْ حَدِيثِهِ، ثُمَّ جَمَعْتُهَا إِلَى صَدْرِي، فَمَا نَسِيتُ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ شَيْئًا حَدَّثَنِي بِهِ، وَلَوْلَا آيَتَانِ أَنْزَلَهُمَا اللَّهُ فِي كِتَابِهِ مَا حَدَّثْتُ شَيْئًا أَبَدًا: إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى سورة البقرة آية 159، إِلَى آخِرِ الْآيَتَيْنِ ". وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، عَنْ شُعَيْبٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: إِنَّكُمْ تَقُولُونَ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ.
شعیب نے زہری سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے بتا یا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نےکہا: تم لو گ یہ کہتے ہو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت احادیث بیان کرتا ہے۔ آگے ان کی حدیث کی طرح (بیان کیا۔)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،تم کہتے ہوابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت احادیث بیان کرتا ہے،آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔"
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعمرو الناقد ، وزهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم ، وابن ابي عمر ، واللفظ لعمرو، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخرون: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمرو ، عن الحسن بن محمد ، اخبرني عبيد الله بن ابي رافع ، وهو كاتب علي، قال: سمعت عليا رضي الله عنه وهو يقول: " بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير، والمقداد، فقال: ائتوا روضة خاخ، فإن بها ظعينة، معها كتاب فخذوه منها، فانطلقنا تعادى بنا خيلنا، فإذا نحن بالمراة، فقلنا: اخرجي الكتاب، فقالت: ما معي كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب او لتلقين الثياب، فاخرجته من عقاصها، فاتينا به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا فيه من حاطب بن ابي بلتعة إلى ناس من المشركين من اهل مكة يخبرهم ببعض امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا حاطب: ما هذا؟ قال: لا تعجل علي يا رسول الله، إني كنت امرا ملصقا في قريش، قال سفيان: كان حليفا لهم، ولم يكن من انفسها اكان ممن كان معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها اهليهم، فاحببت إذ فاتني ذلك من النسب فيهم، ان اتخذ فيهم يدا يحمون بها قرابتي، ولم افعله كفرا، ولا ارتدادا عن ديني، ولا رضا بالكفر بعد الإسلام، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق، فقال عمر: دعني يا رسول الله، اضرب عنق هذا المنافق، فقال: إنه قد شهد بدرا وما يدريك لعل الله اطلع على اهل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم، فانزل الله عز وجل: يايها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء سورة الممتحنة آية 1، وليس في حديث ابي بكر، وزهير ذكر الآية، وجعلها إسحاق، في روايته من تلاوة سفيان.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ ، وَهُوَ كَاتِبُ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُولُ: " بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ، وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ: ائْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً، مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا، فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا، فَإِذَا نَحْنُ بِالْمَرْأَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا حَاطِبُ: مَا هَذَا؟ قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ، قَالَ سُفْيَانُ: كَانَ حَلِيفًا لَهُمْ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا أَكَانَ مِمَّنْ كَانَ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ، أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَلَمْ أَفْعَلْهُ كُفْرًا، وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ سورة الممتحنة آية 1، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ، وَزُهَيْرٍ ذِكْرُ الْآيَةِ، وَجَعَلَهَا إِسْحَاقُ، فِي رِوَايَتِهِ مِنْ تِلَاوَةِ سُفْيَانَ.
ابو بکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم اور ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی، الفاظ عمرو کے ہیں۔اسحاق نے کہا: ہمیں خبر دی، دوسروں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو (بن دینار) سے حدیث بیان کی، انھوں نے حسن بن محمد سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کاتب تھے، خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کہ ہمیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو روضہ خاخ مقام پر بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ اور وہاں تمہیں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی، اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے کر آؤ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے اچانک وہ عورت ہمیں ملی تو ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ بولی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ خط نکال یا اپنے کپڑے اتار۔ پس اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے نکالا۔ ہم وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے، اس میں لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے بعض مشرکین کے نام (اور اس میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتوں کا ذکر تھا (ایک روایت میں ہے کہ حاطب نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری اور فوج کی آمادگی اور مکہ کی روانگی سے کافروں کو مطلع کیا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ وہ بولے کہ یا رسول اللہ! آپ جلدی نہ فرمائیے۔میں قریش سے ملا ہوا ایک شخص تھا یعنی ان کا حلیف تھا اور قریش میں سے نہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجرین جو ہیں ان کے رشتہ دار قریش میں بہت ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھربار کا بچاؤ ہوتا ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میرا ناتا تو قریش سے نہیں ہے، میں بھی ان کا کوئی کام ایسا کر دوں جس سے میرے اہل و عیال والوں کا بچاؤ کریں گے اور میں نے یہ کام اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں کافر ہو گیا ہوں یا مرتد ہو گیا ہوں اور نہ مسلمان ہونے کے بعد کفر سے خوش ہو کر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہ کہ یا رسول اللہ! آپ چھوڑئیے میں اس منافق کی گردن ماروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کو جھانکا اور فرمایا کہ تم جو اعمال چاہو کرو (بشرطیکہ کفر تک نہ پہنچیں) میں نے تمہیں بخش دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ“۔ (سورۃ: الممتحنہ: 1)۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ہمیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر ؓ اور سیدنا مقداد ؓ کو روضہ خاخ مقام پر بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ اور وہاں تمہیں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی، اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے کر آؤ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے اچانک وہ عورت ہمیں ملی تو ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ بولی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ خط نکال یا اپنے کپڑے اتار۔ پس اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے نکالا۔ ہم وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے، اس میں لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے بعض مشرکین کے نام (اور اس میں)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتوں کا ذکر تھا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ وہ بولے کہ یا رسول اللہ! آپ جلدی نہ فرمائیے۔میں قریش سے ملا ہوا ایک شخص تھا یعنی ان کا حلیف تھا اور قریش میں سے نہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجرین جو ہیں ان کے رشتہ دار قریش میں بہت ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھربار کا بچاؤ ہوتا ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میرا ناتا تو قریش سے نہیں ہے، میں بھی ان کا کوئی کام ایسا کر دوں جس سے میرے اہل و عیال والوں کا بچاؤ کریں گے اور میں نے یہ کام اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں کافر ہو گیا ہوں یا مرتد ہو گیا ہوں اور نہ مسلمان ہونے کے بعد کفر سے خوش ہو کر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا۔ سیدنا عمر ؓ نے کہ کہ یا رسول اللہ! آپ چھوڑئیے میں اس منافق کی گردن ماروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:"وہ بدر میں شریک ہوچکا ہے،تمھیں کیامعلوم،شاید کہ اللہ اہل بدر کے حالات سے آگاہ ہے اور فرمایاہے،جو چاہوکرو میں تمھیں معاف کرچکا ہوں۔"اس پر اللہ تعالیٰ نےیہ آیت اُتاری:"اے ایمان والو!میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ،"سورۃ ممتحنہ آیت نمبر6۔ابوبکر اورزہیر کی حدیث میں آیت کاذکر نہیں ہے اور اسحاق نے اپنی روایت میں،اس کو سفیان کی تلاوت قراردیاہے۔
ابو عبد الرحمٰن سلمی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، حضرت ابو مرثد غنوی اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے آپ نے فرمایا: "تم خاخ کے باغ کی طرف روانہ ہو جاؤ، وہاں ایک مشرک عورت ہو گئی، اس کے پاس مشرکین کے نام حاطب کا ایک خط ہو گا۔"آگے عبید اللہ بن ابی رافع کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے ہم معنی بیان کیا۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے،ابومرثد غنوی اور زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا اورہم سب گھوڑ سوارتھے اور فرمایا:"روانہ ہوجاؤ،حتیٰ کہ روضہ خاخ نامی جگہ پر پہنچ جاؤ کیونکہ وہاں ایک مشرکہ عورت ہے،جس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا مشرکین کی طرف خط ہے،آگے مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت ہے۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث ، عن ابي الزبير ، عن جابر : " ان عبدا لحاطب جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يشكو حاطبا، فقال: يا رسول الله، ليدخلن حاطب النار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كذبت، لا يدخلها فإنه شهد بدرا، والحديبية ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ : " أَنَّ عَبْدًا لِحَاطِبٍ جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْكُو حَاطِبًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَيَدْخُلَنَّ حَاطِبٌ النَّارَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَذَبْتَ، لَا يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا، وَالْحُدَيْبِيَةَ ".
حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا ایک غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کی (کسی بات کی) شکایت کرتے ہو ئے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !حاطب ضرور دوزخ میں جا ئے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم جھوٹ کہتے ہو۔ وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا۔کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شر یک ہوا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت حاطب کا غلام شکایت کرتے ہوئے آیا اور کہنے لگا،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !حاطب ضرور آگ میں داخل ہوگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم جھوٹ کہتے ہو،وہ اس میں داخل نہیں ہوگا،کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شرکت کرچکاہے۔"
حدثني هارون بن عبد الله ، حدثنا حجاج بن محمد ، قال: قال ابن جريج : اخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله ، يقول: اخبرتني ام مبشر ، انها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول عند حفصة: " لا يدخل النار إن شاء الله من اصحاب الشجرة احد الذين بايعوا تحتها، قالت: بلى يا رسول الله، فانتهرها، فقالت حفصة: وإن منكم إلا واردها سورة مريم آية 71، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: قد قال الله عز وجل: ثم ننجي الذين اتقوا ونذر الظالمين فيها جثيا سورة مريم آية 72 ".حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ مُبَشِّرٍ ، أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ عِنْدَ حَفْصَةَ: " لَا يَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَهَا، قَالَتْ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَانْتَهَرَهَا، فَقَالَتْ حَفْصَةُ: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا سورة مريم آية 71، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا سورة مريم آية 72 ".
ابو زبیر نے خبر دی کہا: انھوں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے۔مجھےام مبشر رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں یہ فرما تے ہو ئے سنا، "ان شاء اللہ اصحاب شجرہ (درخت والوں) میں سے کوئی ایک بھی جس نے اس کے نیچے بیعت کی تھی جہنم میں داخل نہ ہو گا۔وہ (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا) کہنے لگیں۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیوں نہیں! (داخل تو ہوں گے۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جھڑک دیا تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے آیت پڑھی: " تم میں سے کوئی نہیں مگر اس پر وارد ہو نے والاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (اس کے بعد) اللہ تعا لیٰ نے یہ (بھی) فرمایا ہے۔پھر ہم تقویٰ اختیار کرنے والوں کو (جہنم میں گرنے سے) بچا لیں گے اور ظالموں کو اسی میں گھٹنوں کے بل پڑا رہنے دیں گے۔"
حضرت ام مبشر رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں یہ فر تے ہو ئے سنا،"ان شاء اللہ اصحاب شجرہ(درخت والوں) میں سے کو ئی ایک بھی جس نے اس کے نیچے بیعت کی تھی جہنم میں داخل نہ ہو گا۔وہ(حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)کہنے لگیں۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیوں نہیں!(داخل تو ہوں گے۔)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جھڑک دیا تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آیت پڑھی:" تم میں سے کو ئی نہیں مگر اس پر وارد ہو نے والاہے۔(مریم آیت نمبر 71) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"(اس کے بعد) اللہ تعا لیٰ نے یہ (بھی) فرمایا ہے۔پھر ہم تقویٰ اختیار کرنے والوں کو (جہنم میں گرنے سے) بچا لیں گے اور ظالموں کو اسی میں گھٹنوں کے بل پڑا رہنے دیں گے۔"(آیت نمبر72)
حدثنا ابو عامر الاشعري ، وابو كريب جميعا، عن ابي اسامة ، قال ابو عامر: حدثنا ابو اسامة، حدثنا بريد ، عن جده ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: " كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم وهو نازل بالجعرانة بين مكة، والمدينة ومعه بلال، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل اعرابي، فقال: الا تنجز لي يا محمد ما وعدتني؟ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ابشر، فقال له الاعرابي: اكثرت علي من ابشر، فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابي موسى، وبلال كهيئة الغضبان، فقال: إن هذا قد رد البشرى فاقبلا انتما، فقالا: قبلنا يا رسول الله، ثم دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بقدح فيه ماء، فغسل يديه ووجهه فيه ومج فيه، ثم قال: اشربا منه، وافرغا على وجوهكما ونحوركما، وابشرا، فاخذا القدح ففعلا ما امرهما به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنادتهما ام سلمة من وراء الستر، افضلا لامكما مما في إنائكما فافضلا لها منه طائفة ".حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، قَالَ أَبُو عَامِرٍ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَيْنَ مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةِ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: أَلَا تُنْجِزُ لِي يَا مُحَمَّدُ مَا وَعَدْتَنِي؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْشِرْ، فَقَالَ لَهُ الْأَعْرَابِيُّ: أَكْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ أَبْشِرْ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي مُوسَى، وَبِلَالٍ كَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا قَدْ رَدَّ الْبُشْرَى فَاقْبَلَا أَنْتُمَا، فَقَالَا: قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ وَمَجَّ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا، وَأَبْشِرَا، فَأَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَلَا مَا أَمَرَهُمَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَادَتْهُمَا أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ، أَفْضِلَا لِأُمِّكُمَا مِمَّا فِي إِنَائِكُمَا فَأَفْضَلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً ".
ابو بردہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور آپ نے مکہ اور مدینہ کے درمیان جعرانہ میں پڑاؤ کیا ہوا تھا۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدو شخص آیا، اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کریں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خوش ہو جاؤ۔" (میں نے وعدہ کیا ہے تو پورا کروں گا۔) اس بدو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ مجھ سے بہت دفعہ "خوش ہو جاؤ۔"کہہ چکے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے جیسی کیفیت میں ابو موسیٰ اور بلال رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو ئے اور فرما یا: "اس شخص نے میری بشارت کو مسترد کر دیا ہے اب تم دونوں میری بشارت کو قبول کرلو۔"ان دونوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے قبول کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا آپ نے اس پیالے میں اپنے ہاتھ اور اپنا چہرہ دھویا اور اس میں اپنے دہن مبارک کا پانی ڈالا پھر فرمایا: " تم دونوں اسے پی لو اور اس کو اپنے اپنے چہرے اور سینے پر مل لو اور خوش ہو جاؤ۔"ان دونوں نے پیا لہ لے لیا اور جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا تھا اسی طرح کیا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پردے کے پیچھے سے ان کو آواز دے کر کہا: جو تمھا رے برتن میں ہے اس میں سے کچھ اپنی ماں کے لیے بھی بچا لو، تو انھوں نے اس میں سے کچھ ان کے لیے بھی بچا لیا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور آپ نے مکہ اور مدینہ کے درمیان جعرانہ میں پڑاؤ کیا ہوا تھا۔حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدو شخص آیا، اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کریں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"خوش ہو جاؤ۔"(میں نے وعدہ کیا ہے تو پورا کروں گا۔)اس بدو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ مجھ سے بہت دفعہ "خوش ہو جاؤ۔"کہہ چکے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے جیسی کیفیت میں ابو موسیٰ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہو ئے اور فر یا:"اس شخص نے میری بشارت کو مسترد کر دیا ہے اب تم دونوں میری بشارت کو قبول کرلو۔"ان دونوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے قبول کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا آپ نے اس پیالے میں اپنے ہاتھ اور اپنا چہرہ دھویا اور اس میں اپنے دہن مبارک کا پانی ڈالا پھر فر یا:" تم دونوں اسے پی لو اور اس کو اپنے اپنے چہرے اور سینے پر مل لو اور خوش ہو جاؤ۔"ان دونوں نے پیا لہ لے لیا اور جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا تھا اسی طرح کیا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پردے کے پیچھے سے ان کو آواز دے کر کہا: جو تمھا رے برتن میں ہے اس میں سے کچھ اپنی ماں کے لیے بھی بچا لو، تو انھوں نے اس میں سے کچھ ان کے لیے بھی بچا لیا۔
حدثنا عبد الله بن براد ابو عامر الاشعري ، وابو كريب محمد بن العلاء ، واللفظ لابي عامر، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن بريد ، عن ابي بردة ، عن ابيه ، قال: " لما فرغ النبي صلى الله عليه وسلم من حنين بعث ابا عامر على جيش إلى اوطاس، فلقي دريد بن الصمة، فقتل دريد، وهزم الله اصحابه، فقال ابو موسى: وبعثني مع ابي عامر، قال: فرمي ابو عامر في ركبته رماه رجل من بني جشم بسهم، فاثبته في ركبته فانتهيت إليه، فقلت يا عم: من رماك؟ فاشار ابو عامر، إلى ابي موسى، فقال: إن ذاك قاتلي تراه ذلك الذي رماني، قال ابو موسى: فقصدت له فاعتمدته فلحقته، فلما رآني ولى عني ذاهبا فاتبعته وجعلت اقول له الا تستحيي، الست عربيا الا تثبت فكف، فالتقيت انا وهو فاختلفنا انا وهو ضربتين، فضربته بالسيف فقتلته، ثم رجعت إلى ابي عامر، فقلت: إن الله قد قتل صاحبك، قال: فانزع هذا السهم فنزعته، فنزا منه الماء، فقال يا ابن اخي: انطلق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقرئه مني السلام وقل له، يقول لك ابو عامر: استغفر لي، قال: واستعملني ابو عامر على الناس، ومكث يسيرا، ثم إنه مات، فلما رجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، دخلت عليه وهو في بيت على سرير مرمل وعليه فراش، وقد اثر رمال السرير بظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم وجنبيه، فاخبرته بخبرنا وخبر ابي عامر، وقلت له: قال: قل له يستغفر لي، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء، فتوضا منه ثم رفع يديه، ثم قال: اللهم اغفر لعبيد ابي عامر، حتى رايت بياض إبطيه، ثم قال: اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك او من الناس، فقلت: ولي يا رسول الله فاستغفر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اللهم اغفر لعبد الله بن قيس ذنبه، وادخله يوم القيامة مدخلا كريما، قال ابو بردة: إحداهما لابي عامر، والاخرى لابي موسى.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ أَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي عَامِرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " لَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَيْنٍ بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَى جَيْشٍ إِلَى أَوْطَاسٍ، فَلَقِيَ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ، فَقُتِلَ دُرَيْدٌ، وَهَزَمَ اللَّهُ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: وَبَعَثَنِي مَعَ أَبِي عَامِرٍ، قَالَ: فَرُمِيَ أَبُو عَامِرٍ فِي رُكْبَتِهِ رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي جُشَمٍ بِسَهْمٍ، فَأَثْبَتَهُ فِي رُكْبَتِهِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ يَا عَمِّ: مَنْ رَمَاكَ؟ فَأَشَارَ أَبُو عَامِرٍ، إِلَى أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: إِنَّ ذَاكَ قَاتِلِي تَرَاهُ ذَلِكَ الَّذِي رَمَانِي، قَالَ أَبُو مُوسَى: فَقَصَدْتُ لَهُ فَاعْتَمَدْتُهُ فَلَحِقْتُهُ، فَلَمَّا رَآنِي وَلَّى عَنِّي ذَاهِبًا فَاتَّبَعْتُهُ وَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ أَلَا تَسْتَحْيِي، أَلَسْتَ عَرَبِيًّا أَلَا تَثْبُتُ فَكَفَّ، فَالْتَقَيْتُ أَنَا وَهُوَ فَاخْتَلَفْنَا أَنَا وَهُوَ ضَرْبَتَيْنِ، فَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ فَقَتَلْتُهُ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى أَبِي عَامِرٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ قَتَلَ صَاحِبَكَ، قَالَ: فَانْزِعْ هَذَا السَّهْمَ فَنَزَعْتُهُ، فَنَزَا مِنْهُ الْمَاءُ، فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ وَقُلْ لَهُ، يَقُولُ لَكَ أَبُو عَامِرٍ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: وَاسْتَعْمَلَنِي أَبُو عَامِرٍ عَلَى النَّاسِ، وَمَكَثَ يَسِيرًا، ثُمَّ إِنَّهُ مَاتَ، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي بَيْتٍ عَلَى سَرِيرٍ مُرْمَلٍ وَعَلَيْهِ فِرَاشٌ، وَقَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِيرِ بِظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَنْبَيْهِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا وَخَبَرِ أَبِي عَامِرٍ، وَقُلْتُ لَهُ: قَالَ: قُلْ لَهُ يَسْتَغْفِرْ لِي، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ، حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ أَوْ مِنَ النَّاسِ، فَقُلْتُ: وَلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَاسْتَغْفِرْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ، وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلًا كَرِيمًا، قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: إِحَدَاهُمَا لِأَبِي عَامِرٍ، وَالْأُخْرَى لِأَبِي مُوسَى.
برید نے ابو بردہ سے اور انھوں نے اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کو لشکر دے کر اوطاس پر بھیجا تو ان کا مقابلہ درید بن الصمہ سے ہوا۔ پس درید بن الصمہ قتل کر دیا گیا اور اس کے ساتھ والوں کو اللہ تعالیٰ نے شکست سے ہمکنار کر دیا۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا تھا۔ پھر بنی جشم کے ایک شخص کا ایک تیر سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کو گھٹنے میں لگا اور وہ ان کے گھٹنے میں جم گیا۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ اے چچا! تمہیں یہ تیر کس نے مارا؟ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے مجھے قتل کیا اور اسی شخص نے مجھے تیر مارا ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اس شخص کا پیچھا کیا اور اس سے جا ملا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑا ہو۔ میں اس کے پیچھے ہوا اور میں نے کہنا شروع کیا کہ اے بےحیاء! کیا تو عرب نہیں ہے؟ ٹھہرتا نہیں ہے؟ پس وہ رک گیا۔ پھر میرا اس کا مقابلہ ہوا، اس نے بھی وار کیا اور میں نے بھی وار کیا، آخر میں نے اس کو تلوار سے مار ڈالا۔ پھر لوٹ کر ابوعامر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ اللہ نے تمہارے قاتل کو قتل کروا دیا۔ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب یہ تیر نکال لے میں نے اس کو نکالا تو تیر کی جگہ سے پانی نکلا (خون نہ نکلا شاید وہ تیر زہر آلود تھا)۔ ابوعامر نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر میری طرف سے سلام کہہ اور یہ کہنا کہ ابوعامر کی بخشش کی دعا کیجئے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے مجھے لوگوں کا سردار کر دیا اور وہ تھوڑی دیر زندہ رہے، پھر فوت ہو گئے۔ جب میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کوٹھڑی میں بان کے ایک پلنگ پر تھے جس پر فرش تھا اور بان کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ اور پہلوؤں پر بن گیا تھا۔ میں نے کہا کہ ابوعامر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی تھی کہ میرے لئے دعا کیجئے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا کر وضو کیا، پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ اے اللہ! عبید ابوعامر کو بخش دے (عبید بن سلیم ان کا نام تھا) یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ! ابوعامر کو قیامت کے دن بہت سے لوگوں کا سردار کرنا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور میرے لئے بھی بخشش کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ بھی بخش دے اور قیامت کے دن اس کو عزت کے مکان میں لے جا۔ ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک دعا ابوعامر کے لئے کی اور ایک دعا ابوموسیٰ کے لئے کی۔ رضی اللہ عنہما۔
حضرت ابوبردہ رحمۃ ا للہ علیہ اپنے باپ(ابوموسیٰ) سےبیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابوعامر ؓ کو لشکر دے کر اوطاس پر بھیجا تو ان کا مقابلہ درید بن الصمہ سے ہوا۔ پس درید بن الصمہ قتل کر دیا گیا اور اس کے ساتھ والوں کو اللہ تعالیٰ نے شکست سے ہمکنار کر دیا۔ سیدنا ابوموسیٰ ؓ نے کہا کہ مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعامر ؓ کے ساتھ بھیجا تھا۔ پھر بنی جشم کے ایک شخص کا ایک تیر سیدنا ابوعامر ؓ کو گھٹنے میں لگا اور وہ ان کے گھٹنے میں جم گیا۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ اے چچا! تمہیں یہ تیر کس نے مارا؟ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے مجھے قتل کیا اور اسی شخص نے مجھے تیر مارا ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ ؓ نے کہا کہ میں نے اس شخص کا پیچھا کیا اور اس سے جا ملا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑا ہو۔ میں اس کے پیچھے ہوا اور میں نے کہنا شروع کیا کہ اے بےحیاء! کیا تو عرب نہیں ہے؟ ٹھہرتا نہیں ہے؟ پس وہ رک گیا۔ پھر میرا اس کا مقابلہ ہوا، اس نے بھی وار کیا اور میں نے بھی وار کیا، آخر میں نے اس کو تلوار سے مار ڈالا۔ پھر لوٹ کر ابوعامر ؓ کے پاس آیا اور کہا کہ اللہ نے تمہارے قاتل کو قتل کروا دیا۔ ابوعامر ؓ نے کہا کہ اب یہ تیر نکال لے میں نے اس کو نکالا تو تیر کی جگہ سے پانی نکلا (خون نہ نکلا شاید وہ تیر زہر آلود تھا)۔ ابوعامر نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر میری طرف سے سلام کہہ اور یہ کہنا کہ ابوعامر کی بخشش کی دعا کیجئے۔ سیدنا ابوموسیٰ ؓ نے کہا کہ ابوعامر ؓ نے مجھے لوگوں کا سردار کر دیا اور وہ تھوڑی دیر زندہ رہے، پھر فوت ہو گئے۔ جب میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کوٹھڑی میں بان کے ایک پلنگ پر تھے جس پر فرش تھا اور بان کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ اور پہلوؤں پر بن گیا تھا۔ میں نے کہا کہ ابوعامر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی تھی کہ میرے لئے دعا کیجئے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا کر وضو کیا، پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ اے اللہ! عبید ابوعامر کو بخش دے (عبید بن سلیم ان کا نام تھا) یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ! ابوعامر کو قیامت کے دن بہت سے لوگوں کا سردار کرنا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور میرے لئے بھی بخشش کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ بھی بخش دے اور قیامت کے دن اس کو عزت کے مکان میں لے جا۔ ابوبردہ ؓ نے کہا کہ ایک دعا ابوعامر کے لئے کی اور ایک دعا ابوموسیٰ کے لئے کی۔ ؓ۔
ابو بردہ نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اشعری رفقاء جب رات کے وقت گھروں میں داخل ہو تے ہیں تو میں ان کے قرآن مجید پڑھنے کی آواز کو پہچان لیتا ہوں اور رات کو ان کے قرآن پڑھنے کی آواز سے ان کے گھروں کو بھی پہچان لیتا ہوں، چاہے دن میں ان کے اپنے گھروں میں آنے کے وقت میں نے ان کے گھروں کو نہ دیکھا ہو۔ ان میں سے ایک حکیم (حکمت و دانائی والاشخص) ہے جب وہ گھڑسواروں۔۔۔یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دشمنوں۔۔۔سے ملا قات کرتا ہے تو ان سے کہتا ہے۔میرے ساتھی تمھیں حکم دے رہے ہیں کہ تم ان کا انتظار کرو۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:" اشعری رفقاء جب رات کے وقت گھروں میں داخل ہو تے ہیں تو میں ان کے قرآن مجید پڑھنے کی آواز کو پہچان لیتا ہوں اور رات کو ان کے قرآن پڑھنے کی آواز سے ان کے گھروں کو بھی پہچان لیتا ہوں،چاہے دن میں ان کے اپنے گھروں میں آنے کے وقت میں نے ان کے گھروں کو نہ دیکھا ہو۔انہیں میں سے حکیم نامی فردہے،جب وہ سواریوں یادشمن سے ملتاہے تو انہیں کہتا ہے،میرے ساتھی تمھیں مشورہ دیتے ہیں کہ ان کا انتظار کرو۔
ابو بردہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اشعر ی لوگ جب جہاد میں رسد کی کمی کا شکار ہو جا ئیں یا مدینہ میں ان کے اہل وعیال کا کھا نا کم پڑ جائے تو ان کے پاس جو کچھ بچا ہو اسے ایک کپڑے میں اکٹھا کر لیتے ہیں، پھر ایک ہی برتن سے اس کو آپس میں برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ (وہ میرے قریب ہیں اور میں ان سے قربت رکھتا ہوں۔)
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اشعری لوگ جب جنگ کے موقعہ پر محتاج ہوجاتے ہیں یامدینہ میں ان کے اہل وعیال کا کھانا کم پڑجاتاہے تو سب کے پاس جو کچھ ہوتا ہے،اس کپڑے میں اکٹھا کرلیتے ہیں،پھر ایک برتن سےباہمی برابر بانٹ لیتے ہیں،سو وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔"