سلیمان بن بلال نے عبد اللہ بن عبد الرحمٰن سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا، "عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسی ہے جیسی کھا نوں پر ثرید کی فضیلت۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عورتوں پر فضیلت ایسی ہے جیسے ثرید کی باقی کھانوں پر فضیلت ہے۔"
اسماعیل بن جعفر اور عبد العزیز بن محمد دونوں نے عبد اللہ بن عبدالرحمٰن سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند حدیث روایت کی۔ ان دونوں کی حدیث (کی سند) میں یہ الفاظ نہیں "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا"اور اسماعیل کی حدیث میں یہ الفا ظ ہیں: "انھوں نے انس بن مالک سے سنا۔"
امام صاحب یہی روایت اپنے اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں۔
عبد الرحیم بن سلیمان اور یعلیٰ بن عبید نے زکریا سے حدیث بیان کی، انھوں نےس (عامر) شعبی سے، انھوں نے ابو سلمہ سے انھوں نےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انھوں نے ان (ابو سلمہ) کو بتا یا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر مایا: "جبرا ئیل تم کو سلام کہتے ہیں۔"کہا: تو میں نے (جواب میں) کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ"اور ان پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو!"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:"جبریل ؑ تمہیں سلام کہتے ہیں،"تو میں نے کہا،ان پر اللہ کی طرف سے سلامتی اوررحمت نازل ہو۔
۔ (ابو بکر کو فی) ملائی نے کہا: ہمیں زکریا بن ابی زائد ہ نے حدیث بیان کی۔انھوں نے کہا: میں عامر (شعبی) کو یہ کہتے ہو ئے سنا: مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے حدیث بیان کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، ان دونوں کی حدیث کے مانند۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔
زہری نے کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اے عائش رضی اللہ عنہا!یہ جبرا ئیل علیہ السلام ہیں تمھیں سلام کہہ رہے ہیں۔ "میں نے کہا: (وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ)(اور ان پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو!)(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: آپ وہ کچھ دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا!یہ جبریل ؑ تمھیں سلام کہہ رہے ہیں۔"تو میں نے کہا، "وعليه السلام ورحمة الله"،عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں،آپ وہ کچھ دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھتی تھی۔
عیسیٰ بن یونس نے کہا: ہمیں ہشام بن عروہ نے اپنے بھائی عبداللہ بن عروہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہیں کہ گیارہ عورتیں بیٹھیں اور ان سب نے یہ اقرار اور عہد کیا کہ اپنے اپنے خاوندوں کی کوئی بات نہ چھپائیں گی۔ پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند گویا دبلے اونٹ کا گوشت ہے، جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو۔ نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔ دوسری عورت نے کہا کہ میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کر سکوں گی کیونکہ اس میں ظاہری و باطنی عیوب بہت زیادہ ہیں۔ (اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں گی تو اس کو چھوڑ دوں گی۔ یعنی وہ خفا ہو کر مجھے طلاق دے گا اور اس کو چھوڑنا پڑے گا)۔ تیسری عورت نے کہا کہ میرا خاوند لمبا قد اور احمق ہے، اگر میں اس کی برائی بیان کروں تو مجھے طلاق دیدے گا اور جو چپ رہوں تو اسی طرح معلق رہوں گی (یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی)۔ چوتھی نے کہا کہ میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ (حجاز اور مکہ) کی رات۔ نہ گرم ہے نہ سرد ہے (یعنی معتدل المزاج ہے) نہ ڈر ہے نہ رنج ہے (یہ اس کی تعریف کی یعنی اس کے اخلاق عمدہ ہیں اور نہ وہ میری صحبت سے ملول ہوتا ہے)۔ پانچویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا ہے (یعنی پڑ کر سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا) اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر ہے۔ اور جو مال اسباب گھر میں چھوڑ جاتا ہے اس کو نہیں پوچھتا۔ چھٹی عورت نے کہا کہ میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب ختم کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑتا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ درد پہچانے (یہ بھی ہجو ہے یعنی سوا کھانے پینے کے بیل کی طرح اور کوئی کام کا نہیں، عورت کی خبر تک نہیں لیتا)۔ ساتویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند نامرد ہے یا شریر نہایت احمق ہے کہ کلام کرنا نہیں جانتا، سب دنیا بھر کے عیب اس میں موجود ہیں۔ ایسا ظالم ہے کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے۔ آٹھویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند بو میں زرنب ہے (زرنب ایک خوشبودار گھاس ہے) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش (یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں)۔ نویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند اونچے محل والا، لمبے پرتلے والا (یعنی قد آور) اور بڑی راکھ والا (یعنی سخی ہے) اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے تو راکھ بہت نکلتی ہے اس کا گھر قوم کے مل بیٹھ کر مشورہ کرنے کی جگہ (ڈیرہ وغیرہ)(یعنی سردار اور صاحب الرائے ہے)۔ دسویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام مالک ہے۔ اور مالک کیا خوب ہے۔ مالک میری اس تعریف سے افضل ہے۔ اس کے اونٹوں کے بہت سے شترخانے ہیں اور کم تر چراگاہیں ہیں (یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ بہت ذبح ہوا کرتے ہیں، اس سبب سے شترخانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں) جب اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا، اس سبب سے باجے کی آواز سن کر اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا تھا)۔ گیارھویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام ابوذرع ہے سو واہ کیا خوب ابوذرع ہے۔ اس نے زیور سے میرے دونوں کان جھلائے اور چربی سے میرے دونوں بازو بھرے (یعنی مجھے موٹا کیا اور مجھے بہت خوش کیا)، سو میری جان بہت چین میں رہی مجھے اس نے بھیڑ بکری والوں میں پایا جو پہاڑ کے کنارے رہتے تھے، پس اس نے مجھے گھوڑے، اونٹ، کھیت اور ڈھیریوں / خرمن کا مالک کر دیا (یعنی میں نہایت ذلیل اور محتاج تھی، اس نے مجھے باعزت اور مالدار کر دیا)۔ میں اس کی بات کرتی ہوں تو وہ مجھے برا نہیں کہتا۔ سوتی ہوں تو فجر کر دیتی ہوں (یعنی کچھ کام نہیں کرنا پڑتا) اور پیتی ہوں تو سیراب ہو جاتی ہوں۔ اور ابوزرع کی ماں، پس ابوزرع کی ماں بھی کیا خوب ہے۔ اس کی بڑی بڑی گٹھڑیاں اور کشادہ گھر ہیں۔ ابوزرع کا بیٹا، پس ابوزرع کا بیٹا بھی کیا خوب ہے۔ اس کی خواب گاہ جیسے تلوار کا میان (یعنی نازنین بدن ہے)، اس کو (بکری) حلوان کا ہاتھ آسودہ (سیر) کر دیتا ہے (یعنی کم خور ہے)۔ ابوزرع کی بیٹی، پس ابوزرع کی بیٹی بھی کیا خوب ہے۔ اپنے والدین کی تابعدار اور اپنے لباس کو بھرنے والی (یعنی موٹی ہے) اور اپنی سوتن کی رشک (یعنی اپنے خاوند کی پیاری ہے، اس لئے اس کی سوتن اس سے جلتی ہے)۔ اور ابوزرع کی لونڈی، ابوزرع کی لونڈی بھی کیا خوب ہے۔ ہماری بات ظاہر کر کے مشہور نہیں کرتی اور ہمارا کھانا اٹھا کر نہیں لیجاتی اور ہمارا گھر کچرے سے آلودہ نہیں رکھتی۔ ابوزرع باہر نکلا جب کہ مشکوں میں دودھ (گھی نکالنے) کے لئے بلوایا جا رہا تھا۔ پس وہ ایک عورت سے ملا، جس کے ساتھ اس کے دو لڑکے تھے جیسے دو چیتے اس کی گود میں دو اناروں سے کھیلتے ہوں۔ پس ابوزرع نے مجھے طلاق دی اور اس عورت سے نکاح کر لیا۔ پھر میں نے اس کے بعد ایک سردار مرد سے نکاح کیا جو ایک عمدہ گھوڑے کا سوار اور نیزہ باز ہے۔ اس نے مجھے چوپائے جانور بہت زیادہ دئیے اور اس نے مجھے ہر ایک مویشی سے جوڑا جوڑا دیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اے ام زرع! خود بھی کھا اور اپنے لوگوں کو بھی کھلا۔ پس اگر میں وہ چیزیں جمع کروں جو مجھے دوسرے شوہر نے دیں، تو وہ ابوزرع کے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ پہنچیں (یعنی دوسرے خاوند کا احسان پہلے خاوند کے احسان سے نہایت کم ہے)۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں تیرے لئے ایسا ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لئے تھا۔ (لیکن نہ تجھے طلاق دی ہے اور نہ دوں گا)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،گیارہ سہیلیاں بیٹھیں اور انہوں نے باہمی عہدوپیمان باندھا کہ وہ اپنے خاندان کے حالات سے کوئی چیز چھپائیں گی نہیں، پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند گویا دبلے اونٹ کا گوشت ہے، جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو۔ نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔ دوسری عورت نے کہا کہ میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کر سکوں گی کیونکہ اس میں ظاہری و باطنی عیوب بہت زیادہ ہیں۔ (اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں گی تو اس کو چھوڑ دوں گی۔ یعنی وہ خفا ہو کر مجھے طلاق دے گا اور اس کو چھوڑنا پڑے گا)۔تیسری عورت نے کہا کہ میرا خاوند لمبا قد اور احمق ہے، اگر میں اس کی برائی بیان کروں تو مجھے طلاق دیدے گا اور جو چپ رہوں تو اسی طرح معلق رہوں گی (یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی)۔ چوتھی نے کہا کہ میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ (حجاز اور مکہ) کی رات۔ نہ گرم ہے نہ سرد ہے (یعنی معتدل المزاج ہے) نہ ڈر ہے نہ رنج ہے (یہ اس کی تعریف کی یعنی اس کے اخلاق عمدہ ہیں اور نہ وہ میری صحبت سے ملول ہوتا ہے)۔ پانچویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا ہے (یعنی پڑ کر سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا) اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر ہے۔ اور جو مال اسباب گھر میں چھوڑ جاتا ہے اس کو نہیں پوچھتا۔ چھٹی عورت نے کہا کہ میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب ختم کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑتا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ درد پہچانے (یہ بھی ہجو ہے یعنی سوا کھانے پینے کے بیل کی طرح اور کوئی کام کا نہیں، عورت کی خبر تک نہیں لیتا)۔ ساتویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند نامرد ہے یا شریر نہایت احمق ہے کہ کلام کرنا نہیں جانتا، سب دنیا بھر کے عیب اس میں موجود ہیں۔ ایسا ظالم ہے کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے۔ آٹھویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند بو میں زرنب ہے (زرنب ایک خوشبودار گھاس ہے) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش (یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں)۔نویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند اونچے محل والا، لمبے پرتلے والا (یعنی قد آور) اور بڑی راکھ والا (یعنی سخی ہے) اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے تو راکھ بہت نکلتی ہے اس کا گھر قوم کے مل بیٹھ کر مشورہ کرنے کی جگہ (ڈیرہ وغیرہ)(یعنی سردار اور صاحب الرائے ہے)۔دسویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام مالک ہے۔ اور مالک کیا خوب ہے۔ مالک میری اس تعریف سے افضل ہے۔ اس کے اونٹوں کے بہت سے شترخانے ہیں اور کم تر چراگاہیں ہیں (یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ بہت ذبح ہوا کرتے ہیں، اس سبب سے شترخانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں) جب اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا، اس سبب سے باجے کی آواز سن کر اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا تھا)۔ گیارھویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام ابوذرع ہے سو واہ کیا خوب ابوذرع ہے۔ اس نے زیور سے میرے دونوں کان جھلائے اور چربی سے میرے دونوں بازو بھرے (یعنی مجھے موٹا کیا اور مجھے بہت خوش کیا)، سو میری جان بہت چین میں رہی مجھے اس نے بھیڑ بکری والوں میں پایا جو پہاڑ کے کنارے رہتے تھے، پس اس نے مجھے گھوڑے، اونٹ، کھیت اور ڈھیریوں / خرمن کا مالک کر دیا (یعنی میں نہایت ذلیل اور محتاج تھی، اس نے مجھے باعزت اور مالدار کر دیا)۔ میں اس کی بات کرتی ہوں تو وہ مجھے برا نہیں کہتا۔ سوتی ہوں تو فجر کر دیتی ہوں (یعنی کچھ کام نہیں کرنا پڑتا) اور پیتی ہوں تو سیراب ہو جاتی ہوں۔ اور ابوزرع کی ماں، پس ابوزرع کی ماں بھی کیا خوب ہے۔ اس کی بڑی بڑی گٹھڑیاں اور کشادہ گھر ہیں۔ ابوزرع کا بیٹا، پس ابوزرع کا بیٹا بھی کیا خوب ہے۔ اس کی خواب گاہ جیسے تلوار کا میان (یعنی نازنین بدن ہے)، اس کو (بکری) حلوان کا ہاتھ آسودہ (سیر) کر دیتا ہے (یعنی کم خور ہے)۔ ابوزرع کی بیٹی، پس ابوزرع کی بیٹی بھی کیا خوب ہے۔ اپنے والدین کی تابعدار اور اپنے لباس کو بھرنے والی (یعنی موٹی ہے) اور اپنی سوتن کی رشک (یعنی اپنے خاوند کی پیاری ہے، اس لئے اس کی سوتن اس سے جلتی ہے)۔ اور ابوزرع کی لونڈی، ابوزرع کی لونڈی بھی کیا خوب ہے۔ ہماری بات ظاہر کر کے مشہور نہیں کرتی اور ہمارا کھانا اٹھا کر نہیں لیجاتی اور ہمارا گھر کچرے سے آلودہ نہیں رکھتی۔ ابوزرع باہر نکلا جب کہ مشکوں میں دودھ (گھی نکالنے) کے لئے بلوایا جا رہا تھا۔ پس وہ ایک عورت سے ملا، جس کے ساتھ اس کے دو لڑکے تھے جیسے دو چیتے اس کی گود میں دو اناروں سے کھیلتے ہوں۔ پس ابوزرع نے مجھے طلاق دی اور اس عورت سے نکاح کر لیا۔ پھر میں نے اس کے بعد ایک سردار مرد سے نکاح کیا جو ایک عمدہ گھوڑے کا سوار اور نیزہ باز ہے۔ اس نے مجھے چوپائے جانور بہت زیادہ دئیے اور اس نے مجھے ہر ایک مویشی سے جوڑا جوڑا دیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اے ام زرع! خود بھی کھا اور اپنے لوگوں کو بھی کھلا۔ پس اگر میں وہ چیزیں جمع کروں جو مجھے دوسرے شوہر نے دیں، تو وہ ابوزرع کے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ پہنچیں (یعنی دوسرے خاوند کا احسان پہلے خاوند کے احسان سے نہایت کم ہے)۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں تیرے لئے ایسا ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لئے تھا۔
سعید بن سلمہ نے یہ حدیث ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ بیان کی، مگر (ساتویں کے خاوندکے متعلق) شک کے بغیر: "عاجز اور ماندہ ہے عقل پر حماقت کی تہیں لگی ہو ئی ہیں " کہا: اور (دسویں کے خاوند کے متعلق) کہا: (اس کی اونٹنیاں) چراگا ہوں میں کم بھیجی جا تی ہیں (خدام باڑے میں چارہ مہیا کرتے ہیں۔) اور (ابو زرع کی بیٹی کےبارے میں) کہا: اس کی اوڑھنے کی چادر خالی لگتی ہے (اس کا پیٹ بڑھا ہوا نہیں ہے جبکہ ملء کسائہاسے مراد ہے کہ جسم کے باقی حصے لباس کو بھر دیتے ہیں) قبیلے کی بہترین عورت ہے اور (اپنی خوبصورتی اور وقار کی بناپر) سوکن کے لیے نیزے کا زخم (دردوتکلیف کا سبب) ہے اور (خادمہ کے بارے میں اس طرح) کہا: "وہ ہمارا کھا نا ضائع نہیں کرتی۔"اور ("وَأَعْطَانِی مِنْ کُلِّ رَائِحَۃٍ زَوْجًا"کے بجائے) وأعطانی من کل ذابحۃٍ زوجاً، (اور مجھے ہر اعلیٰ درجے کی خوشبو دار چیز میں سے دگنا دگنا دیا) کہا۔
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے،ان الفاظ کے فرق سے بیان کرتے ہیں،بلاشک"عياياء ‘طباقاء" کہا،صرف "قليلات المسارح" کہااور کہا،"صفرُ ردائها"اپنی چادر کو خالی رکھنے والی،اپنی سوکن کے لیے تباہ کن یا دہشت انگیز اور ہمارے غلہ کو منتقل نہیں کرتی اور اس نےمجھے ذبح کرنے والے جانوروں کا جوڑا جوڑا دیا۔
لیث بن سعد نے کہا: ہمیں عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ قرشی تیمی نے حدیث بیان کی کہ حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے انھیں حدیث سنائی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر پر یہ سنا، آپ فر ما رہت تھے: "بنو ہشام بن مغیرہ نےمجھ سے اجازت چا ہی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی علی بن ابی طالب سے کردیں، میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، الایہ کہ ابن ابی طالب پسند کرے تو میری بیٹی کو طلا ق دے دے اور ان کی بیٹی سے شادی کر لے کیونکہ میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے جو چیز اسے پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے۔جو چیز اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔"
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبرپر یہ فرماتے ہوئے سنا:"بنو ہشام بن مغیرہ نےمجھ سے اجازت چا ہی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی علی بن ابی طالب سے کردیں،میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا،پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا،الایہ کہ ابن ابی طالب پسند کرے تو میری بیٹی کو طلا ق دے دے اور ان کی بیٹی سے شادی کر لے کیونکہ میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے جو چیز اسے پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے۔جو چیز اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔"
عمرو نے ابن ابی ملیکہ سے، انھوں نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جو چیز اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔"
حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"فاطمہ میرا جگرگوشہ ہے،جو چیز اسے تکلیف پہنچاتی ہے،وہ میرے لیےبھی تکلیف دہ ہے۔"