حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير . ح وحدثنا ابن نمير ، واللفظ له، حدثنا ابي ، حدثنا سعد بن سعيد ، حدثني انس بن مالك ، قال: بعثني ابو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لادعوه وقد جعل طعاما، قال: فاقبلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم مع الناس، فنظر إلي فاستحييت، فقلت: اجب ابا طلحة، فقال للناس:" قوموا"، فقال ابو طلحة: يا رسول الله، إنما صنعت لك شيئا، قال: فمسها رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعا فيها بالبركة، ثم قال:" ادخل نفرا من اصحابي عشرة"، وقال:" كلوا واخرج لهم شيئا من بين اصابعه" فاكلوا حتى شبعوا فخرجوا، فقال:" ادخل عشرة"، فاكلوا حتى شبعوا فما زال يدخل عشرة ويخرج عشرة حتى لم يبق منهم احد إلا دخل، فاكل حتى شبع ثم هياها، فإذا هي مثلها حين اكلوا منها.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: بَعَثَنِي أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَدْعُوَهُ وَقَدْ جَعَلَ طَعَامًا، قَالَ: فَأَقْبَلْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ، فَنَظَرَ إِلَيَّ فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقُلْتُ: أَجِبْ أَبَا طَلْحَةَ، فَقَالَ لِلنَّاسِ:" قُومُوا"، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا صَنَعْتُ لَكَ شَيْئًا، قَالَ: فَمَسَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَا فِيهَا بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ قَالَ:" أَدْخِلْ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِي عَشَرَةً"، وَقَالَ:" كُلُوا وَأَخْرَجَ لَهُمْ شَيْئًا مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ" فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا فَخَرَجُوا، فَقَالَ:" أَدْخِلْ عَشَرَةً"، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا فَمَا زَالَ يُدْخِلُ عَشَرَةً وَيُخْرِجُ عَشَرَةً حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ، فَأَكَلَ حَتَّى شَبِعَ ثُمَّ هَيَّأَهَا، فَإِذَا هِيَ مِثْلُهَا حِينَ أَكَلُوا مِنْهَا.
عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں سعد بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: مجھے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے کے لئے آپ کے پاس بھیجا، انھوں نے کھانا تیار کیاتھا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نےکہا: میں آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا تو مجھے شرم آئی، میں نے کہا: "حضرت ابو طلحۃ کی دعوت قبول فرمائیے۔"اس پر آپ نے لوگوں سےکہا؛"اٹھو۔"حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے تو آپ کے لئے (کھانے کی) کچھ تھوڑی سی چیز تیار کی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کھانے کو چھوا اور اس میں برکت کی دعا کی، پھرفرمایا: "میرے ساتھیوں میں سے دس کو اندرلاؤ"اور (ان سے) فرمایا: "کھاؤ" اور آپ نے ان کے لئے اپنی انگلیوں کے درمیان سے کچھ نکالا تھا (برکت شامل کی تھی)، سو انھوں نے کھایا، سیر ہوگئے، اور باہر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دس آدمیوں کو اندر لاؤ۔"پھر انھوں نے کھایا، سیر ہوگئے اور چلے گئے، وہ دس دس کو اندر لاتے اور دس دس کو باہر بھیجتے رہے، یہاں تک کہ ان میں سےکوئی باقی نہ بچا مگر سب نے کھا لیا اور سیر ہوگئے، پھر اس کو سمیٹا تو وہ اتنا ہی تھا جتنا ان کے کھانے (کے آغاز) کے وقت تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، مجھے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، آپ کو اس کھانے کے لیے بلانے کے لیے بھیجا، جو انہوں نے تیار کیا تھا، میں آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگ تھے، آپ نے مجھے دیکھا تو میں شرما گیا اور میں نے کہا، آپ کو ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعوت کے لیے بلاتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ”اٹھو“ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے تو بس آپ کے لیے کچھ تیار کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو چھوا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا: ”میرے ساتھیوں میں سے دس افراد کو داخل کر دو“ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”کھاؤ۔“ اور ان کے لیے اپنی انگلیوں میں سے کوئی چیز نکالی، انہوں نے کھایا، حتی کہ سیر ہو کر نکل گئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے (ابوطلحہ سے) فرمایا: ”دس کو داخل کرو۔“ انہوں نے سیر ہو کر کھایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم انہیں دس دس داخل اور خارج کرتے رہے، حتی کہ کوئی نہ رہ گیا جو داخل نہ ہوا ہو، پھر آپ نے سیر ہو کر کھایا، پھر آپ نے کھانا ایک جگہ کیا تو وہ اتنا ہی تھا، جتنا انہوں نے کھانا شروع کیا تھا۔
وحدثني سعيد بن يحيي الاموي ، حدثني ابي ، حدثنا سعد بن سعيد ، قال: سمعت انس بن مالك ، قال: بعثني ابو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وساق الحديث بنحو حديث ابن نمير ، غير انه قال في آخره: " ثم اخذ ما بقي فجمعه ثم دعا فيه بالبركة "، قال: فعاد كما كان، فقال دونكم هذا.وحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ يَحْيَي الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ: بَعَثَنِي أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْر ٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ فِي آخِرِهِ: " ثُمَّ أَخَذَ مَا بَقِيَ فَجَمَعَهُ ثُمَّ دَعَا فِيهِ بِالْبَرَكَةِ "، قَالَ: فَعَادَ كَمَا كَانَ، فَقَالَ دُونَكُمْ هَذَا.
یحییٰ بن سعید اموی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث سنا ئی کہا: ہمیں سعد بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: مجھے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا پھر ابن نمیر کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی، مگر انھوں نے اس کے آخر میں یوں کہا: جو بچا تھا آپ نے اسے لے کر اکٹھا کیا پھر اس میں بر کت کی دعا کی کہا: تو وہ (پھر سے) اتنا ہی ہو گیا: جتنا تھا پھر فرما یا: "تمھارے لیے ہے۔" (آپ نے کھا نے کے آغاز میں بھی برکت کی دعا کی اور آخر میں بھی۔)
امام صاحب ایک اور استاد سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا اور ابن نمیر کی مذکورہ بالا روایت کی طرح روایت بیان کی، ہاں آخر میں کہا: پھر باقی کو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کروایا، پھر اس میں برکت کی دعا فرمائی تو وہ پہلی حالت پر لوٹ آیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو لے لو۔“
وحدثني عمرو الناقد ، حدثنا عبد الله بن جعفر الرقي ، حدثنا عبيد الله بن عمرو ، عن عبد الملك بن عمير ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن انس بن مالك ، قال: امر ابو طلحة ام سليم ان تصنع للنبي صلى الله عليه وسلم طعاما لنفسه خاصة، ثم ارسلني إليه، وساق الحديث، وقال فيه: فوضع النبي صلى الله عليه وسلم يده وسمى عليه، ثم قال: ائذن لعشرة، فاذن لهم فدخلوا، فقال: " كلوا وسموا الله "، فاكلوا حتى فعل ذلك بثمانين رجلا، ثم اكل النبي صلى الله عليه وسلم بعد ذلك، واهل البيت وتركوا سؤرا.وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَمَرَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ أَنْ تَصْنَعَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا لِنَفْسِهِ خَاصَّةً، ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَيْهِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ فِيهِ: فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ وَسَمَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، فَقَالَ: " كُلُوا وَسَمُّوا اللَّهَ "، فَأَكَلُوا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا، ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ، وَأَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَكُوا سُؤْرًا.
عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ خا ص طور پر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھا نا تیار کردے پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا گیا اس کے بعد حدیث بیان کی اور اس میں یہ (بھی) کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھانے پر) اپنا ہاتھ رکھا اور اس پر بسم اللہ پڑھی پھر فرما یا: " دس آدمیوں کو اندر آنے کی) اجازت دو"انھوں نے دس آدمیوں کو اجازت دی وہ اندر آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا "بسم اللہ پڑھو اور کھا ؤ "تو ان لو گوں نے کھا یا حتی کہ اسی آدمیوں کے ساتھ ایسا ہی کیا (دس دس کواندر بلا یا بسم اللہ پڑھ کر کھا نے کو کہا۔) اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور گھر والوں نے کھا یا اور (پھر بھی) انھوں نے کھا نا بچا دیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خصوصی طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا، پھر مجھے آپ کی طرف بھیجا اور مذکورہ حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی بتایا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ رکھا اور اس پر بسم اللہ پڑھی، پھر فرمایا: ”دس کو اجازت دو۔“ ابوطلحہ کی اجازت سے وہ داخل ہو گئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔“ انہوں نے کھایا، حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل اسی افراد کے ساتھ کیا، پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور گھر کے افراد نے کھایا اور کھانا باقی چھوڑا۔
یحییٰ (مازنی) نے حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے کھا نے کا یہی قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالےسے بیان کیا اور اس میں کہا: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہو گئے۔یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا ئے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !صرف تھوڑا ساکھانا تھا آپ نے فرما یا: "لے آؤ اللہ تعا لیٰ عنقریب اس میں برکت ڈال دے گا۔
امام صاحب ایک اور استاد سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، ابوطلحہ کے کھانے کا یہی واقعہ بیان کرتے ہیں، اس میں یہ ہے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دروازہ پر کھڑے ہو گئے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو ان سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو بہت تھوڑا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لاؤ، اللہ تعالیٰ ابھی اس میں برکت ڈال دے گا۔“
عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی اور اس میں کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنا ول فرما یا اور گھر والوں نے کھا یا اور اتنا بچا دیا جو انھوں نے پڑوسیوں کو (بھی) بھجوادیا۔
امام صاحب ایک اور استاد سے یہی حدیث بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور گھر والوں نے کھایا اور اتنا باقی چھوڑا جو پڑوسیوں تک پہنچایا گیا۔
وحدثنا الحسن بن علي الحلواني ، حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، قال: سمعت جرير بن زيد يحدث، عن عمرو بن عبد الله بن ابي طلحة ، عن انس بن مالك ، قال: راى ابو طلحة رسول الله صلى الله عليه وسلم مضطجعا في المسجد يتقلب ظهرا لبطن، فاتى ام سليم، فقال: إني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم مضطجعا في المسجد يتقلب ظهرا لبطن واظنه جائعا، وساق الحديث، وقال فيه: ثم اكل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو طلحة وام سليم وانس بن مالك وفضلت فضلة فاهديناه لجيراننا.وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: رَأَى أَبُو طَلْحَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي الْمَسْجِدِ يَتَقَلَّبُ ظَهْرًا لِبَطْنٍ، فَأَتَى أُمَّ سُلَيْمٍ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي الْمَسْجِدِ يَتَقَلَّبُ ظَهْرًا لِبَطْنٍ وَأَظُنُّهُ جَائِعًا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ فِيهِ: ثُمَّ أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ وَأُمُّ سُلَيْمٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَفَضَلَتْ فَضْلَةٌ فَأَهْدَيْنَاهُ لِجِيرَانِنَا.
عمرو بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں لیٹے ہو ئے دیکھا آپ پیٹھ اور پیٹ کے بل کروٹیں لے رہے تھے۔پھر وہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں لیٹے ہو ئے دیکھا ہے آپ پیٹھ سے پیٹ کے بل کروٹیں لے رہے تھے اور میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے ہیں اور (ساری) حدیث بیان کی اور اس میں یہ کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو طلحہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کھا نا کھا یا اور کچھ کھا نا بچ گیا جو ہم نے اپنے پڑوسیوں کو ہدیہ کردیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں لیٹے ہوئے اس حال میں دیکھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں تو وہ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں اس حال میں لیٹے دیکھا کہ آپ پشت اور پیٹ کو بار بار اوپر نیچے کر رہے ہیں اور میں سجھتا ہوں آپ بھوکے ہیں اور مذکورہ بالا حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوطلحہ، ام سلیم، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کھایا اور کچھ کھانا بچ گیا تو وہ ہم نے بطور تحفہ پڑوسیوں کو دیا۔
وحدثني حرملة بن يحيي التجيبي ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني اسامة ، ان يعقوب بن عبد الله بن ابي طلحة الانصاري ، حدثه، انه سمع انس بن مالك ، يقول: جئت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فوجدته جالسا مع اصحابه يحدثهم وقد عصب بطنه بعصابة، قال اسامة: وانا اشك على حجر، فقلت: لبعض اصحابه لم عصب رسول الله صلى الله عليه وسلم بطنه؟، فقالوا: من الجوع، فذهبت إلى ابي طلحة وهو زوج ام سليم بنت ملحان، فقلت يا ابتاه: قد رايت رسول الله عصب بطنه بعصابة، فسالت بعض اصحابه، فقالوا: من الجوع، فدخل ابو طلحة على امي، فقال: هل من شيء؟، فقالت: نعم عندي كسر من خبز وتمرات، فإن جاءنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وحده اشبعناه، وإن جاء آخر معه، قل عنهم ثم ذكر سائر الحديث بقصته.وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي التُّجِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ ، أَنَّ يَعْقُوبَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ ، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا مَعَ أَصْحَابِهِ يُحَدِّثُهُمْ وَقَدْ عَصَّبَ بَطْنَهُ بِعِصَابَةٍ، قَالَ أُسَامَةُ: وَأَنَا أَشُكُّ عَلَى حَجَرٍ، فَقُلْتُ: لِبَعْضِ أَصْحَابِهِ لِمَ عَصَّبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَطْنَهُ؟، فَقَالُوا: مِنَ الْجُوعِ، فَذَهَبْتُ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ وَهُوَ زَوْجُ أُمِّ سُلَيْمٍ بِنْتِ مِلْحَانَ، فَقُلْتُ يَا أَبَتَاهُ: قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ عَصَّبَ بَطْنَهُ بِعِصَابَةٍ، فَسَأَلْتُ بَعْضَ أَصْحَابِهِ، فَقَالُوا: مِنَ الْجُوعِ، فَدَخَلَ أَبُو طَلْحَةَ عَلَى أُمِّي، فَقَالَ: هَلْ مِنْ شَيْءٍ؟، فَقَالَتْ: نَعَمْ عِنْدِي كِسَرٌ مِنْ خُبْزٍ وَتَمَرَاتٌ، فَإِنْ جَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحْدَهُ أَشْبَعْنَاهُ، وَإِنْ جَاءَ آخَرُ مَعَهُ، قَلَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ذَكَرَ سَائِرَ الْحَدِيثِ بِقِصَّتِهِ.
اسامہ نے بتا یا کہ یعقوب بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے انھیں حدیث بیان کی کہ انھوں نے حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے سنا کہہ رہے تھے۔ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجدمیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہو ئے ان سے باتیں کرتے ہو ئے پایا۔آپ نے بطن مبا رک پر ایک پتھر کو ایک چوڑی سی پٹی سے باندھ رکھا تھا۔۔۔اسامہ نے کہا: مجھے شک ہے (کہ یعقوب نے "پتھر"کا لفظ بولا یا نہیں)۔۔۔میں نے آپ کے ایک ساتھی سے پو چھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بطن کو کیوں باندھ رکھاہے؟ لوگوں نے بتا یا: بھوک کی بنا پر۔پھر میں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا وہ (میری والدہ) حضرت ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے خاوندتھے میں نے ان سے کہا: اباجا ن!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نے پیٹ پر پٹی باندھ رکھی ہے میں نے آپ کے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے پو چھا: اس کا کیا سبب ہے؟ انھوں نے کہا بھوک۔پھر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ میری ماں کے پاس گئےاور پوچھا: کہ کوئی چیز ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں میرے پاس روٹی کے ٹکڑے اور کچھ کھجوریں ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہمارے پاس تشریف لے آئیں تو ہم آپ کو سیر کر کے کھلا دیں گے۔ اور اگر کوئی اور بھی آپ کے ساتھ آیا تو یہ کھانا کم ہو گا پھر باقی ساری حدیث بیان کی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کرتے ہوئے پایا اور آپ نے اپنے پیٹ پر پٹی باندھی ہوئی تھی، حدیث کے راوی اسامہ کہتے ہیں: مجھے شک ہے کہ پٹی پتھر پر باندھی ہوئی تھی تو میں نے آپ کے بعض ساتھیوں سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیٹ کیوں باندھا ہوا ہے؟ انہوں نے بتایا: بھوک کی وجہ سے تو میں ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو ام سلیم بنت ملحان (میری والدہ) کے خاوند تھے، کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: اے ابا جان! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، آپ نے ایک پٹی سے اپنا پیٹ باندھا ہوا ہے تو میں نے آپ کے بعض ساتھیوں سے پوچھا: انہوں نے بتایا، بھوک کی بنا پر باندھا ہے تو ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری والدہ کے پاس گئے اور پوچھا: کیا کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا: ہاں، میرے پاس کچھ روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں ہیں، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں اکیلے تشریف لائے تو ہم آپ کو سیر کر سکیں گے اور آپ کے ساتھ کوئی اور آ گیا تو کھانا ان کے لیے کم پڑ جائے گا، پھر روایت واقعہ سمیت سنائی۔
نضر بن انس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے کھا نے کے بارے میں ان سب کی حدیث کے مطا بق روایت کیا۔
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کھانے کے بارے میں روایت، دوسروں کی طرح بیان کرتے ہیں۔
Chapter: It is permissible to eat soup, and it is recommended to eat squash, And for the people eating together to show preference to one another even if they are guests, so long as the host does not object to that
حدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس فيما قرئ عليه، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، انه سمع انس بن مالك ، يقول: إن خياطا دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم لطعام صنعه، قال انس بن مالك: فذهبت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ذلك الطعام، فقرب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم خبزا من شعير ومرقا فيه دباء وقديد، قال انس: " فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتتبع الدباء من حوالي الصحفة، قال: فلم ازل احب الدباء منذ يومئذ ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: إِنَّ خَيَّاطًا دَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَهُ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَذَهَبْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ذَلِكَ الطَّعَامِ، فَقَرَّبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزًا مِنْ شَعِيرٍ وَمَرَقًا فِيهِ دُبَّاءٌ وَقَدِيدٌ، قَالَ أَنَسٌ: " فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوَالَيِ الصَّحْفَةِ، قَالَ: فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ مُنْذُ يَوْمَئِذٍ ".
اسحٰق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہہ رہے تھے: ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے تیار کیے ہوئے کھانے کی دعوت دی، حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کھانے پر گیا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جوکی روٹی اور شوربہ رکھا، اس میں کدو اور چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں محفوظ کیا ہوا گوشت تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیا لے کی چاروں طرف سے کدو تلا ش کررہےتھے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں اسی دن سے کدو کو پسند کرتا ہوں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک درزی نے آپ کے لیے تیار کردہ کھانے کے لیے آپ کو بلایا، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تو میں بھی اس کھانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کی روٹی اور شوربا پیش کیا، جس میں کدو اور خشک گوشت تھا، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم پلیٹ کے اطراف سے کدو تلاش کر رہے ہیں، اس لیے میں اس دن سے کدو پسند کرنے لگا ہوں۔
حدثنا محمد بن العلاء ابو كريب ، حدثنا ابو اسامة ، عن سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس ، قال: دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل، فانطلقت معه، " فجيء بمرقة فيها دباء، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكل من ذلك الدباء ويعجبه، قال: فلما رايت ذلك جعلت القيه إليه ولا اطعمه، قال: فقال انس: فما زلت بعد يعجبني الدباء ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: دَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، " فَجِيءَ بِمَرَقَةٍ فِيهَا دُبَّاءٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْ ذَلِكَ الدُّبَّاءِ وَيُعْجِبُهُ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ جَعَلْتُ أُلْقِيهِ إِلَيْهِ وَلَا أَطْعَمُهُ، قَالَ: فَقَالَ أَنَسٌ: فَمَا زِلْتُ بَعْدُ يُعْجِبُنِي الدُّبَّاءُ ".
سلیمان بن مغیرہ نے ثابت سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھا نے کی دعوت دی میں بھی آپ کے ساتھ گیا۔آپ کے لیے شوربہ لا یا گیا اس میں کدو (بھی) تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے کدو کھا نے لگے وہ آُ کو اچھا لگ رہا تھا۔جب میں نے یہ بات دیکھی تو میں کدو (کے ٹکڑے) آپ کے سامنے کرنے لگا اور خود نہ کھا ئے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: اس دن کے بعد سے مجھے کدو بہت اچھا لگتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک آدمی نے دعوت کی، میں بھی آپ کے ساتھ گیا تو شوربا لایا گیا، جس میں کدو تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کدو کھانے لگے اور اسے پسند کرنے لگے، جب میں نے یہ صورت حال دیکھی، میں اسے آپ کو پیش کرنے لگا اور خود نہ کھاتا تھا، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد سے میں ہمیشہ کدو پسند کرنے لگا۔