سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جبرائیل عليه السلام کے متعلق حدیث بیان کرتے ہیں، حضرت جبرائیل عليه السلام کے سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ کہ تُو نماز قائم کرے، تُو زکوة ادا کرے، حج کرے اور عمرہ ادا کرے اور جنابت کی وجہ سے غسل کرے، اور تُو مکمّل وضو کرے اور رمضان المبارک کے روزے رکھے۔ حضرت جبرائیل عليه السلام نے کہا کہ جب میں یہ کام کر لوںگا تو کیا میں مسلمان ہوںگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔ انھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہر شخص پر ایک حج اور ایک عمرہ کرنا واجب ہے ان دونوں کو ادا کرنا لازمی ہے۔ پھر جو شخص زیادہ حج یا عمرے ادا کرے تو یہ بڑی خیر و برکت اور نیکی والی بات ہے۔
قال ابو بكر: هذا الخبر يدل على توهين خبر الحجاج بن ارطاة، عن ابن المنكدر ، عن جابر :" سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن العمرة اواجبة هي؟ قال:" لا، إن تعتمر فهو افضل" ، ثناه بشر بن معاذ ، حدثنا عمرو بن علي ، حدثنا الحجاج بن ارطاة ، فلو كان جابر سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول في العمرة إنها ليست بواجبة لما خالف قول النبي صلى الله عليه وسلم، وفي خبر منصور، عن ابي وائل, عن الضبي بن معبد في قصة عمر دلالة على ان العمرة واجبة عند عمر بن الخطابقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ يَدُلُّ عَلَى تَوْهِينِ خَبَرِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ :" سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعُمْرَةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ؟ قَالَ:" لا، إِنْ تَعْتَمِرَ فَهُوَ أَفْضَلُ" ، ثَنَاهُ بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، فَلَوْ كَانَ جَابِرٌ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْعُمْرَةِ إِنَّهَا لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ لَمَا خَالَفَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي خَبَرِ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ, عَنِ الضَّبِّيِّ بْنِ مَعْبَدٍ فِي قِصَّةِ عُمَرَ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الْعُمْرَةَ وَاجِبَةٌ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی یہ موقوف حدیث ان کی درج ذیل مرفوع حدیث کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے . جسے ابن منکدر بیان کرتا ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، کیا عمرہ واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن اگرتم عمرہ ادا کرو تو وہ افضل واعلیٰ کام ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں، اگر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہوتی کہ عمره واجب نہیں ہے تو وہ کبھی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت نہ کرتے (اور عمرے کے واجب ہونے کا فتویٰ نہ دیتے) جناب ضمّی بن معبد سے مروی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قصّے میں یہ دلیل موجود ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی عمرہ واجب ہے۔ (وہ قصّہ درج ذیل ہے)۔
ثناه يوسف بن موسى، ثنا جرير، عن منصور، عن ابي وائل، قال: قال الضبي بن معبد: كنت رجلا اعرابيا نصرانيا، فاسلمت، فكنت حريصا على الجهاد، وإني وجدت الحج والعمرة مكتوبتين علي، فاتيت رجلا من عشيرتي، يقال له: هديم بن عبد الله، فقلت: يا هناه، إني حريص على الجهاد، وإني وجدت الحج والعمرة مكتوبتين علي، فكيف لي ان اجمعهما؟ فقال: اجمعها، ثم اذبح ما استيسر من الهدي، قال: فاهللت بهما معا، فلما اتيت العذيب لقيني سليمان بن ربيعة، وزيد بن صوحان، وانا اهل بهما معا فقال احدهما للآخر: ما هذا بافقه من بعيره، فكانما القي علي جبل حتى اتيت عمر، فقلت له: يا امير المؤمنين،" إني كنت رجلا اعرابيا نصرانيا وإني اسلمت، وانا حريص على الجهاد، وإني وجدت الحج والعمرة مكتوبتين علي، فاتيت رجلا من عشيرتي يقال له: هديم بن عبد الله، فقلت: يا هنتاه، إني حريص على الجهاد، وإني وجدت الحج والعمرة مكتوبتين علي، فكيف لي ان اجمعهما؟ فقال: اجمعهما، ثم اذبح ما استيسر من الهدي، وإني اهللت بهما جميعا، فلما اتيت العذيب لقيني سليمان بن ربيعة، وزيد بن صوحان، وانا اهل بهما معا، فقال احدهما للآخر: ما هذا بافقه من بعيره، قال: فقال لي عمر: هديت لسنة نبيك" ، قال ابو بكر: في ترك عمر بن الخطاب النكير على الضبي بن معبد قوله: وإني وجدت الحج والعمرة مكتوبتين علي ابين الدلالة على ان العمرة عند عمر بن الخطاب كانت واجبة كالحج، إذ لو كانت العمرة عنده تطوعا لا واجبة، لاشبه ان ينكر عليه قوله، ولقال له: لم نجد ذلك مكتوبتين عليك بل إنما وجدت الحج مكتوبا عليك دون العمرة، وفي تركه الإنكار عليه ما افتاه هديم بن عبد الله دلالة بينة بان القران عنده جائز من غير سوق بدنة، ولا بقرة من الميقات الذي يحرم منه بالحج والعمرة، وفيه دلالة على ان ما استيسر من الهدي جائز عن القارن كهو عن المتمتع، لا كما قال بعض العلماء: إن القران لا يكون إلا بسوق بدنة، او بقرة يسوقه من حيث يحرمثَنَاهُ يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، ثنا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ الضَّبِّيُّ بْنُ مَعْبَدٍ: كُنْتُ رَجُلا أَعْرَابِيًّا نَصْرَانِيًّا، فَأَسْلَمْتُ، فَكُنْتُ حَرِيصًا عَلَى الْجِهَادِ، وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَتَيْنِ عَلَيَّ، فَأَتَيْتُ رَجُلا مِنْ عَشِيرَتِي، يُقَالُ لَهُ: هُدَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقُلْتُ: يَا هَنَاهُ، إِنِّي حَرِيصٌ عَلَى الْجِهَادِ، وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَتَيْنِ عَلَيَّ، فَكَيْفَ لِي أَنْ أَجْمَعَهُمَا؟ فَقَالَ: اجْمَعْهَا، ثُمَّ اذْبَحْ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ، قَالَ: فَأَهْلَلْتُ بِهِمَا مَعًا، فَلَمَّا أَتَيْتُ الْعُذَيْبَ لَقِيَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَزِيدُ بْنُ صُوحَانَ، وَأَنَا أُهِلُّ بِهِمَا مَعًا فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلآخَرِ: مَا هَذَا بِأَفْقَهَ مِنْ بَعِيرِهِ، فَكَأَنَّمَا أُلْقِيَ عَلَيَّ جَبَلٌ حَتَّى أَتَيْتُ عُمَرَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ،" إِنِّي كُنْتُ رَجُلا أَعْرَابِيًّا نَصْرَانِيًّا وَإِنِّي أَسْلَمْتُ، وَأَنَا حَرِيصٌ عَلَى الْجِهَادِ، وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَتَيْنِ عَلَيَّ، فَأَتَيْتُ رَجُلا مِنْ عَشِيرَتِي يُقَالُ لَهُ: هُدَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقُلْتُ: يَا هَنْتَاهُ، إِنِّي حَرِيصٌ عَلَى الْجِهَادِ، وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَتَيْنِ عَلَيَّ، فَكَيْفَ لِي أَنْ أَجْمَعَهُمَا؟ فَقَالَ: اجْمَعْهُمَا، ثُمَّ اذْبَحْ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ، وَإِنِّي أَهْلَلْتُ بِهِمَا جَمِيعًا، فَلَمَّا أَتَيْتُ الْعُذَيْبَ لَقِيَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَزِيدُ بْنُ صُوحَانَ، وَأَنَا أُهِلُّ بِهِمَا مَعًا، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلآخَرِ: مَا هَذَا بِأَفْقَهَ مِنْ بَعِيرِهِ، قَالَ: فَقَالَ لِي عُمَرُ: هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي تَرْكِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ النَّكِيرَ عَلَى الضَّبِّيِّ بْنِ مَعْبَدٍ قَوْلَهُ: وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَتَيْنِ عَلَيَّ أَبْيَنُ الدِّلالَةِ عَلَى أَنَّ الْعُمْرَةَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ كَانَتْ وَاجِبَةً كَالْحَجِّ، إِذْ لَوْ كَانَتِ الْعُمْرَةُ عِنْدَهُ تَطَوُّعًا لا وَاجِبَةً، لأَشْبَهَ أَنْ يُنْكِرَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ، وَلَقَالَ لَهُ: لَمْ نَجِدْ ذَلِكَ مَكْتُوبَتَيْنُ عَلَيْكَ بَلْ إِنَّمَا وَجَدْتُ الْحَجَّ مَكْتُوبًا عَلَيْكَ دُونَ الْعُمْرَةِ، وَفِي تَرْكِهِ الإِنْكَارَ عَلَيْهِ مَا أَفْتَاهُ هُدَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ دَلالَةٌ بَيِّنَةٌ بِأَنَّ الْقِرَانَ عِنْدَهُ جَائِزٌ مِنْ غَيْرِ سَوْقِ بَدَنَةٍ، وَلا بَقَرَةٍ مِنَ الْمِيقَاتِ الَّذِي يُحْرِمُ مِنْهُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، وَفِيهِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ جَائِزٌ عَنِ الْقَارِنِ كَهُوَ عَنِ الْمُتَمَتِّعِ، لا كَمَا قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ: إِنَّ الْقِرَانَ لا يَكُونُ إِلا بِسَوْقِ بَدَنَةٍ، أَوْ بَقَرَةٍ يَسُوقُهُ مِنْ حَيْثُ يُحْرِمُ
جناب ضمّی بن معبد بیان کرتے ہیں کہ میں ایک اعرابی عیسائی شخص تھا۔ پھر میں مسلمان ہوگیا تو مجھے جہاد کا بڑا شدید شوق تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ مجھ پر حج اور عمرہ بھی فرض ہیں۔ لہٰذا میں اپنے خاندان کے ایک شخص ہدیم بن عبداللہ کے پاس آیا تو اُس سے کہا کہ اے محترم، مجھے جہاد کرنے کا بڑا شوق ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ مجھ پر حج اور عمرہ بھی فرض ہوچکے ہیں۔ میں ان دونوں کو کیسے جمع کرسکتا ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ تم انھیں اکٹھا ادا کرلو اور پھر تمھیں جو جانور میسر ہو اس کی قربانی کردو۔ لہٰذا میں نے دونوں کا اکٹھا احرام باندھ کر تلبیہ پکارا۔ پھر جب میں عذیب مقام پر پہنچا تو مجھے سلیمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان ملے اور میں حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ پکار رہا تھا۔ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ شخض تو اپنے اونٹ سے بھی زیادہ سمجھدار نہیں ہے۔ اُن کی یہ بات مجھ پر ایسی شاق گزری گویا کہ مجھ پر پہاڑ گرا دیا گیا ہو حتّیٰ کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُن سے عرض کیا کہ اے امیرالمؤمنین، میں ایک بدو عیسائی آ دمی تھا اور اب میں مسلمان ہوں اور مجھے جہاد کا بیحد شوق ہے اور میں نے پایا ہے کہ مجھ پر حج اور عمرہ واجب ہیں۔ لہٰذا میں اپنے خاندان کے ایک شخص ہدیم بن عبداللہ کے پاس گیا اور اُس سے عرض کیا کہ اے محترم مجھے جہاد کرنے کا بہت شوق ہے اور مجھ پر حج اور عمرہ بھی واجب ہوچکے ہیں۔ میں ان دونوں عبادتوں کو اکٹھا کیسے ادا کروں؟ اُس نے جواب دیا کہ دونوں کو اکٹھا ادا کرلو، اگر پھر تمھیں جانور میسر ہو تو اس کی قربانی کردو۔ لہٰذا میں نے حج اور عمرے دونوں کا احرام باندھا ہے، پھر جب میں عذیب مقام پر پہنچا تو مجھے سلیمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان ملے جبکہ میں دونوں کا احرام باندھے ان کا تلبیہ پکار رہا تھا۔ میرا تلبیہ سن کر ان میں سے ایک دوسرے سے کہنے لگا کہ یہ شخص تو اپنے اونٹ سے بھی زیادہ بیوقوف ہے۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمھیں اپنے نبی کی سنّت پرعمل کرنے کی توفیق ملی ہے۔ (حج قران تو سنّت نبوی ہے اس لئے ان کی غلط بات کا برا نہ مناؤ اور اپنا عمل جاری رکھو)۔ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ضمی بن معبد کے اس قول کی تردید نہیں کی کہ مجھ پر حج اور عمرہ واجب ہیں۔ یہ واضح ترین دلیل ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک عمرہ واجب ہے اور اس کا حُکم حج کی طرح ہے۔ کیونکہ اگر عمرہ ان کے نزدیک نفلی ہوتا تو وہ ضمی بن معبد کے اس قول کی تردید کر دیتے۔ اور فرماتے کہ ہم تم پر عمره واجب نہیں سمجھتے۔ بلکہ میرے نزدیک تم پر صرف حج فرض ہے۔ جناب ہدیم بن عبداللہ کے فتوے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انکار نہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک جس میقات سے احرام باندھا جائے وہاں سے قربانی کا جانور ساتھ لے جائے بغیر بھی حج قِران کر نا جائز ہے۔ اور اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ حج قِران کرنے والا بھی میسر قربانی ذبح کرسکتا ہے جیسا که حج تمتع کرنے والا کرتا ہے، ان علماء کا موقف درست نہیں جو کہتے ہیں کہ حج قِران کے لئے احرام باندھنے والے کے لئے میقات سے قربانی کا اونٹ یا گائے ساتھ لیکر جانا ضروری ہے۔
امام مجاہد بیان کرتے ہیں کہ میں اور حضرت عروہ بن زبیر رحمه الله مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے ساتھ ٹیک لگا کر تشریف فرما ہیں۔ جبکہ لوگ مسجد میں نماز چاشت ادا کررہے تھے۔ ہم نے سیدنا ابن رضی اللہ عنہما سے اُن لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھا تو اُنھوں نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے۔ پھر سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے ہیں؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ چار عمرے کیے ہیں۔
حضرت قتاده رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے ہیں، اُنھوں نے فرمایا کہ آپ نے چار عمرے کیے ہیں اور صرف ایک حج کیا ہے، آپ کا ایک عمرہ آپ کے حج کے ساتھ تھا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمرہ ان تمام گناہوں کا کفّارہ بنتا ہے جو موجودہ عمرے اور گزشتہ عمرے کے دوران سرزد ہوئے ہوں اور حج مبرور کا بدل تو صرف جنّت ہی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عمرہ دوسرے عمرے تک کے درمیانی گناہوں کا کفّارہ بنتا ہے اور حج مبرور کی جزا جنّت ہی ہے۔
وفي الخبر- علمي- دلالة على ان العمرة واجبة كالحج، إذ النبي صلى الله عليه وسلم اعلم ان عليهن العمرة كما ان عليهن الحج وَفِي الْخَبَرِ- عِلْمِي- دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْعُمْرَةَ وَاجِبَةٌ كَالْحَجِّ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ أَنَّ عَلَيْهِنَّ الْعُمْرَةَ كَمَا أَنَّ عَلَيْهِنَّ الْحَجَّ
میرے علم کے مطابق اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حج کی طرح عمرہ بھی واجب ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے کہ عورتوں کے اوپر جس طرح حج کرنا ضروری ہے اسی طرح عمرہ کرنا بھی ضروری ہے