ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2159. (418) بَابُ حَجِّ الْأَكْرِيَاءِ،
2159. حج کے لئے کرائے پر سواری دینا اور سواری والے کا خود بھی حج کرنا جائز ہے
والدليل على ان اكر المرء نفسه في العمل طلق مباح، إذ هو من ابتغاء فضل الله لاخذه الاجرة على ذلكوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ أَكْرَ الْمَرْءِ نَفْسَهُ فِي الْعَمَلِ طَلْقٌ مُبَاحٌ، إِذْ هُوَ مِنِ ابْتِغَاءِ فَضْلِ اللَّهِ لِأَخْذِهِ الْأُجْرَةَ عَلَى ذَلِكَ
اس کی دلیل یہ ہے کہ جائز کاموں میں پیسے معاوضہ لینا مطلقاً درست ہے کیونکہ یہ اللہ کے فضل (تجارت) پر محنت مزدوری لی جارہی ہے اور یہ اجرت لینا جائز ہے
جناب ابوامامہ التیمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ بیشک ہم لوگ سفر حج میں لوگوں کو کرائے پر سواریاں مہیا کرتے ہیں اور میری قوم کے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا حج ادا نہیں ہوتا (کیونکہ ہم کرائے پر دیئے ہوئے اونٹوں کو چلاتے ہیں) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، کیا تم بیت الله کا طواف نہیں کرتے ہو؟ کیا تم صفا اور مروہ کی سعی نہیں کرتے ہو؟ کیا تم حج کے فلاں فلاں اعمال ادا نہیں کرتے ہو؟ بیشک ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اُس نے آپ سے ایسا ہی سوال پوچھا جیسا تم نے مجھ سے پوچھا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا جواب معلوم نہ تھا حتّیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی «لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ» [ سورة البقرة: 198]”تم پرکوئی گناہ نہیں کہ تم (حج کے دوران) اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔“ چنانچہ آپ نے اُس شخص کو بلایا اور اُسے یہ آیت تلاوت کرکے سنائی اور فرمایا: ”کہ تم بھی حاجی ہو۔“
والدليل على ان الاجير إذا اجر نفسه بكذا، وحج عن نفسه كانت له الاجرة على مستاجره، واداء الفرض عن نفسه جائزوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الْأَجِيرَ إِذَا أَجَّرَ نَفْسَهُ بِكَذَا، وَحَجَّ عَنْ نَفْسِهِ كَانَتْ لَهُ الْأُجْرَةُ عَلَى مُسْتَأْجِرِهِ، وَأَدَاءُ الْفَرْضِ عَنْ نَفْسِهِ جَائِزٌ
جناب سعید بن جبیر رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس حاضر ہوا اور اُس نے عرض کیا کہ میں نے ایک قوم کی مزدوری کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا پھر میں نے اپنی مزدوری یا ساری مزدوری اس شرط پر چھوڑ دی کہ وہ مجھے مناسک حج ادا کرنے کی اجازت دیںگے تو کیا میرا حج میرے لئے کافی ہوگا؟ تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، ہاں یہ شخص اُن لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا «أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ» [ سورة البقرة: 202] انہی لوگوں کے لئے ان کی کمائی کا حصّہ ہے اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔“
والدليل على ان الاشتغال بما اباح الله من طلب المال من حله ايام الموسم في غير الاوقات الذي يشتغل المرء عن اداء المناسك لا ينقص اجر الحاج، ولا يبطل الحج، ولا يوجب عليه هديا ولا صوما ولا صدقة وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الِاشْتِغَالَ بِمَا أَبَاحَ اللَّهُ مِنْ طَلَبِ الْمَالِ مِنْ حِلِّهِ أَيَّامَ الْمَوْسِمِ فِي غَيْرِ الْأَوْقَاتِ الَّذِي يَشْتَغِلُ الْمَرْءُ عَنْ أَدَاءِ الْمَنَاسِكِ لَا يَنْقُصُ أَجْرَ الْحَاجِّ، وَلَا يُبْطِلُ الْحَجَّ، وَلَا يُوجِبُ عَلَيْهِ هَدْيًا وَلَا صَوْمًا وَلَا صَدَقَةً
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگ پہلے جب میں منیٰ، عرفہ اور ذی المجاز بازار میں موسم حج میں خرید و فروخت کرتے تھے، پھر وہ ڈر گئے کہ وہ حالت احرام میں خرید و فروخت کرتے ہیں، تو الله تعالی نے یہ آیت نازل فرمادی «لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ» [ سورة البقرة: 198]”تم پرکوئی گناہ نہیں کہ تم (حج کے دوران) اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔“ جناب عبید بن عمیر بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما في مواسم الحج (حج کے موسم میں) یہ الفاظ آیت کے ساتھ قرآن مجید میں تلاوت کرتے تھے۔ “
جناب عبید اللہ بن ابی یزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو یہ آیت اس طرح پڑھتے ہوئے سنا «لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ فِى مَوَاسِم الْحَجّ» ”تم پرکوئی گناہ نہیں ہے کہ تم موسم حج میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔“
والدليل على ضد ما توهمه العامة ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يحج إلا حجة واحدة والنبي صلى الله عليه وسلم إنما حج حجة واحدة بعد هجرته إلى المدينة، فاما ما قبل الهجرة فقد حج النبي صلى الله عليه وسلم غير تلك الحجة التي حجها من المدينة وَالدَّلِيلُ عَلَى ضِدِّ مَا تَوَهَّمَهُ الْعَامَّةُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحُجِّ إِلَّا حَجَّةً وَاحِدَةً وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا حَجَّ حَجَّةً وَاحِدَةً بَعْدَ هِجْرَتِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَأَمَّا مَا قَبْلَ الْهِجْرَةِ فَقَدَ حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ تِلْكَ الْحَجَّةِ الَّتِي حَجَّهَا مِنَ الْمَدِينَةِ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حج ادا کیے ہیں دو ہجرت سے پہلے کیے تھے اور ایک حج ہجرت کے بعد کیا تھا اور اس کے ساتھ عمرہ بھی تھا۔ جناب احمد بن یحیٰی کی روایت میں ہے کہ اور ایک وہ حج جس کے ساتھ آپ نے عمرہ بھی ملایا تھا (اور ہجرت مدینہ کے بعد کیا تھا)۔