ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
حدثنا محمد بن ابان ، حدثنا محمد بن إبراهيم بن ابي عدي ، عن حميد الطويل ، عن بكر بن عبد الله . ح وحدثنا ابو بشر الواسطي ، حدثنا خالد ، عن حميد ، عن بكر ، وهذا حديث ابن ابي عدي: جاء اعرابي إلى السقاية فشرب نبيذا، فقال: ما بال اهل هذا البيت يسقون النبيذ وبنو عمهم يسقون اللبن والعسل، امن بخل ام من حاجة؟ فقال ابن عباس وذاك بعد ما ذهب بصره: علي بالرجل، فاتي به، فقال: إنه ليست بنا ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل المسجد وهو على بعيره، وخلفه اسامة بن زيد فاستسقى، فسقيناه نبيذا فشرب، ثم ناول فضله اسامة، فقال:" قد احسنتم واجملتم وكذلك فافعلوا" ، فنحن لا نريد ان نغير ذلك، قال ابو بكر: وهذا الخبر من الجنس الذي نقول في كتبنا: إن الله عز وجل يبيح الشيء بذكر مجمل ويبين في آية اخرى على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم ان ما اباحه بذكر مجمل اراد به بعض ذلك الشيء الذي ذكره مجملا، لا جميعه، وكذلك النبي صلى الله عليه وسلم يبيح الشيء بذكر مجمل، ويبينه في وقت تال ان ما اجمل ذكره اراد به بعض ذلك الشيء لا جميعه كقوله: كلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود سورة البقرة آية 187، فاجمل في هذه الآية ذكر الماكول والمشروب وبين في غير هذا الموضع انه إنما اباح بعض الماكول، وبعض المشروب لا جميعه، وهذا باب طويل قد بينته في غير موضع من كتبنا، فالنبي صلى الله عليه وسلم إنما" اباح الشرب من نبيذ السقاية إذا لم يكن مسكرا"، لانه اعلم ان المسكر حرامحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ بَكْرٍ ، وَهَذَا حَدِيثُ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى السِّقَايَةِ فَشَرِبَ نَبِيذًا، فَقَالَ: مَا بَالُ أَهْلِ هَذَا الْبَيْتِ يَسْقُونَ النَّبِيذَ وَبَنُو عَمِّهِمْ يَسْقُونَ اللَّبَنَ وَالْعَسَلَ، أَمِنْ بُخْلٍ أَمْ مِنْ حَاجَةٍ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَذَاكَ بَعْدَ مَا ذَهَبَ بَصَرُهُ: عَلَيَّ بِالرَّجُلِ، فَأُتِيَ بِهِ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَتْ بِنَا وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَهُوَ عَلَى بَعِيرِهِ، وَخَلْفَهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَاسْتَسْقَى، فَسَقَيْنَاهُ نَبِيذًا فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَ فَضْلَهُ أُسَامَةَ، فَقَالَ:" قَدْ أَحْسَنْتُمْ وَأَجْمَلْتُمْ وَكَذَلِكَ فَافْعَلُوا" ، فَنَحْنُ لا نُرِيدُ أَنْ نُغَيِّرَ ذَلِكَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَهَذَا الْخَبَرُ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ فِي كُتُبِنَا: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبِيحُ الشَّيْءَ بِذِكْرٍ مُجْمَلٍ وَيُبَيِّنُ فِي آيَةٍ أُخْرَى عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مَا أَبَاحَهُ بِذِكْرٍ مُجْمَلٍ أَرَادَ بِهِ بَعْضَ ذَلِكَ الشَّيْءِ الَّذِي ذَكَرَهُ مُجْمَلا، لا جَمِيعَهُ، وَكَذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبِيحُ الشَّيْءَ بِذِكْرٍ مُجْمَلٍ، وَيُبَيِّنُهُ فِي وَقْتٍ تَالٍ أَنَّ مَا أَجْمَلَ ذِكْرَهُ أَرَادَ بِهِ بَعْضَ ذَلِكَ الشَّيْءِ لا جَمِيعَهُ كَقَوْلِهِ: كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سورة البقرة آية 187، فَأَجْمَلَ فِي هَذِهِ الآيَةِ ذِكْرَ الْمَأْكُولِ وَالْمَشْرُوبِ وَبَيَّنَ فِي غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ أَنَّهُ إِنَّمَا أَبَاحَ بَعْضَ الْمَأْكُولِ، وَبَعْضَ الْمَشْرُوبِ لا جَمِيعَهُ، وَهَذَا بَابٌ طَوِيلٌ قَدْ بَيَّنْتُهُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا، فَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا" أَبَاحَ الشُّرْبَ مِنْ نَبِيذِ السِّقَايَةِ إِذَا لَمْ يَكُنْ مُسْكِرًا"، لأَنَّهُ أَعْلَمَ أَنَّ الْمُسْكِرَ حَرَامٌ
جناب بکر بن عبدالله رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی شخص سبیل پر آیا اور اُس نے نبیذ پی۔ تو وہ کہنے لگا کہ اس گھر والوں کو کیا ہوا ہے کہ یہ لوگوں کو نبیذ پلا رہے ہیں حالانکہ ان کے چچا زاد تو دودھ اور شہد پلا رہے ہیں کیا یہ بخل کی وجہ سے کررہے ہیں یا یہ خود ضرورت مند ہیں؟ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اس شخص کو میرے پاس لاؤ،اُس وقت اُن کی بینائی ختم ہوچکی تھی اُس شخص کو آپ کے پاس لایا گیا تو فرمایا کہ ہم محتاج نہیں ہیں اور نہ بخیل ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے جبکہ آپ اونٹ پر سوار تھے اور آپ کے پیچھے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سوار تھے۔ آپ نے پانی مانگا تو ہم نے آپ کو نبیذ پلائی، آپ نے اسے پی لیا اور باقی نبیذ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو دے دی پھر فرمایا: ”تم نے بہت اچھا اور خوبصورت کام کیا ہے۔ اسی طرح کیا کرو“ لہٰذا ہم اس کام کو تبدیل کرنا نہیں چاہتے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت اسی قسم سے ہے جس کے بارے میں ہم اپنی کتب میں بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو مجمل طور پر جائز قرار دیتا ہے پھر دوسری آیت کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وضاحت فرما دیتا ہے کہ اجمالی طور پر جائز قرار دی جانے والی چیز مکمّل طور پر جائز نہیں بلکہ اس کا کچھ حصّہ جائز ہے اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو اجمالاً جائز قرار دیتے ہیں پھر اس کے بعد وضاحت کر دیتے ہیں کہ اجمالاً جائز قرار پانے والی چیز سے آپ کی مراد اس چیز کا کچھ حصّّہ ہے، ساری چیز جائز نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ» [ سورة البقرة: 187 ]”کھاؤ اور پیو حتّیٰ کہ صبح کی سفید دهاری سیاه دهاری سے واضح ہو جائے۔“ اس آیت میں اجمالاً کھانے پینے کا ذکر ہے لیکن دوسرے مقام پر بیان فرما دیا کہ کچھ کھانے اور کچھ مشروبات حلال کیے ہیں تمام مشروبات اور مأکولات جائز نہیں۔ یہ ایک طویل باب ہے جسے ہم اپنی کتب میں کئی جگہ ذکر کرچکے ہیں۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبیل کی وہ نبیذ پینا حلال کیا ہے جو نشہ آور نہ ہو کیونکہ آپ نے بتایا ہے کہ نشہ آور چیز حرام ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں حج کے لئے نکلے۔ اماں جی فرماتی ہیں کہ جن لوگوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا اُنھوں نے بیت اللہ شریف کا طواف کیا، صفا اور مروہ کی سعی کی پھر احرام کھول دیا، پھر اُنھوں نے (دس ذوالحجہ کو) منیٰ سے واپس آ کر اپنے لئے ایک اور طواف (زیارت) کیا (اور صفا مروہ کی سعی کی)۔
سیدنا عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ یوم النحر کو ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے عرض کیا کہ میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر کے بال منڈوا لیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قربانی کرلو کوئی حرج نہیں ہے“ ایک اور شخص نے عرض کیا کہ میں نے رمی کر نے سے پہلے قربانی کرلی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں اب رمی کرلو“ جناب مخزوی کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو عرض کیا کہ میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوالیا ہے۔ اور یہ الفاظ بھی بیان کیے کہ پھر ایک اور شخص نے آپ سے سوال کیا تو کہنے لگا، میں نے رمی کرنے سے پہلے اونٹ نحر کرلیا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قربانی والے دن منیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ سوال پوچھتے تو آپ فرماتے: ”کوئی حرج نہیں (ترتیب میں غلطی پر) کوئی حرج نہیں۔“ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا تو عرض کیا کہ میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوا لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“ اور ایک شخص نے کہا کہ میں نے شام کے بعد کنکریاں ماری ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں ہے۔“ جناب یزید بن زریع کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”اب ذبح کرلو اور کوئی حرج نہیں ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اس دوران میں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی والے دن خطبہ ارشاد فرمارہے تھے تو ایک شخص آپ کے سامنے کھڑے ہوکر کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول، مجھے معلوم نہ تھا کہ فلاں فلاں کام فلاں فلاں کام سے پہلے ہیں۔ پھر ایک اور شخص کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول، مجھے علم نہ تھا ان تین کاموں (رمی سرمنڈوانا اور قربانی کرنا) میں فلاں کام پہلے تھا اور فلاں بعد میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو رہ گیا ہے اسے کرلو اور کوئی حرج نہیں ہے۔“ یہ روایت جناب عیسیٰ کی ہے اور ابن معمر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اُس دن آپ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھا گیا (کہ یہ عمل اس ترتیب سے ہو گیا ہے) تو آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں اب کرلو (جو رہ گیا ہے)۔“
سیدنا ہرماس بن زیاد باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منیٰ میں لوگوں کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا جبکہ آپ اپنی عضباء اونٹنی پر تشریف فرما تھے۔ اور اُس وقت میں اپنے والد گرامی کے پیچھے سوار تھا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کیا پھر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے اپنی مردانه خواہش پوری کرنے کا ارداہ کیا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ وہ تو حائضہ ہوچکی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا وہ ہمیں روانگی سے روک دیگی؟ “ آپ کو بتایا گیا کہ وہ طواف افاضہ کرچکی ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں ساتھ لیکر (مدینہ منوّرہ) روانہ ہو گئے۔