ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر فرمایا کہ میں نے اپنے ان دونوں ہاتھوں کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی تھی جب آپ نے احرام باندھا اُس وقت بھی اور طواف افاضہ کرنے سے پہلے آپ کے احرام کھولنے کے وقت بھی۔
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل منصور بن زاذان کی عبدالرحمن بن قاسم سے مروی روایت میں کتاب کے شروع میں باب الطيب عند الحرام کے تحت بیان کر چکا ہوں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلے۔ تو مجھے حیض آگیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں رورہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”تمھیں کیا ہوا ہے کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟“ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ چیز تو اللہ تعالی نے حضرت آدم عليه السلام کی تمام بیٹیوں پر لکھ دی ہے (اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں) تم بیت اللہ شریف کا طواف چھوڑ کر باقی تمام اعمال اسی طرح کرو جیسے حاجی کرتے ہیں۔
إن ثبتت هذه اللفظة في خبر عمرة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وإن لم تثبت هذه اللفظة عن النبي صلى الله عليه وسلم فخبر عائشة في تطييبها النبي صلى الله عليه وسلم دال على ان الاصطياد جائز إذا جاز التطيب، وخبر ام سلمة يصرح ان الاصطياد بعد رمي الجمرة مباح، وهو قوله صلى الله عليه وسلم: " إن هذا يوم رخص لكم إذا انتم رميتم الجمرة ان تحلوا من كل ما حرمتم منه إلا من النساء خرجت هذا الباب في موضعه بعد خبر عكاشة بن محصن في هذا ايضا. إِنْ ثَبَتَتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ فِي خَبَرِ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ لَمْ تَثْبُتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَبَرُ عَائِشَةَ فِي تَطْيِيبِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَالٌّ عَلَى أَنَّ الِاصْطِيَادَ جَائِزٌ إِذَا جَازَ التَّطَيُّبُ، وَخَبَرُ أُمِّ سَلَمَةَ يُصَرِّحُ أَنَّ الِاصْطِيَادَ بَعْدَ رَمْيِ الْجَمْرَةِ مُبَاحٌ، وَهُوَ قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ هَذَا يَوْمٌ رُخِّصَ لَكُمْ إِذَا أَنْتُمْ رَمَيْتُمُ الْجَمْرَةَ أَنْ تَحِلُّوا مِنْ كُلِّ مَا حُرِمْتُمْ مِنْهُ إِلَّا مِنَ النِّسَاءِ خَرَّجْتُ هَذَا الْبَابَ فِي مَوْضِعِهِ بَعْدَ خَبَرِ عُكَّاشَةَ بْنِ مِحْصَنٍ فِي هَذَا أَيْضًا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم رمی کرلو اور سر منڈوالو تو تمھارے لئے خوشبو لگانا کپڑے پہننا حلال ہے سوائے عورتوں سے جماع کرنے کے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ ”سوائے نکاح کے“ اس سے آپ کی مراد بیوی سے جماع کرنا ہے، میں نے کتاب معاني القرآن میں بیان کیا ہے کہ عرب کے ہاں نکاح کا لفظ عقد نکاح اور بیوی سے ہمبستری دونوں معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی تھی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہی اتباع کا زیادہ حق رکھتی ہے۔
ثنا محمد بن رافع، ثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، عن عمر ، قال: " إذا رمى الرجل الجمرة بسبع حصيات، وذبح وحلق، فقد حل له كل شيء، إلا النساء والطيب" . قال قال سالم : وكانت عائشة ، تقول:" قد حل له كل شيء، إلا النساء"، وقالت: " طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم" ، قال ابو بكر: في إخبار عائشة: طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم لحله قبل ان يطوف بالبيت، دلالة على انه إذا رمى الجمرة وذبح وحلق كان حلالا قبل ان يطوف بالبيت، خلا ما زجر عنه من وطء النساء الذي لم يختلف العلماء فيه انه ممنوع من وطء النساء حتى يطوف طواف الزيارة.ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: " إِذَا رَمَى الرَّجُلُ الْجَمْرَةَ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، وَذَبَحَ وَحَلَقَ، فَقَدْ حَلَّ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ، إِلا النِّسَاءَ وَالطِّيبَ" . قَالَ قَالَ سَالِمٌ : وَكَانَتْ عَائِشَةُ ، تَقُولُ:" قَدْ حَلَّ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ، إِلا النِّسَاءَ"، وَقَالَتْ: " طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي إِخْبَارِ عَائِشَةَ: طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحِلِّهِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ، دَلالَةٌ عَلَى أَنَّهُ إِذَا رَمَى الْجَمْرَةَ وَذَبَحَ وَحَلَقَ كَانَ حَلالا قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ، خَلا مَا زُجِرَ عَنْهُ مِنْ وَطْءِ النِّسَاءِ الَّذِي لَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ فِيهِ أَنَّهُ مَمْنُوعٌ مِنْ وَطْءِ النِّسَاءِ حَتَّى يَطُوفَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حاجی جمرہ عقبہ پررمی کرلے، سر منڈوالے اور قربانی ذبح کرلے تو اُس کے لئے خوشبو اور بیوی سے ہمبستری کے سوا ہر چیز حلال ہو جاتی ہے۔ جناب سالم کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، تو اس کے لئے بیوی سے جماع کے علاوہ ہر چیز حلال ہوجاتی ہے۔ اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (طواف زیارہ سے پہلے) خوشبو لگائی تھی۔ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کھولنے کے وقت طواف زیارہ سے پہلے آپ کو خوشبو لگائی تھی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب آپ نے جمرہ عقبہ پر رمی کرلی قربانی ذبح کرلی اور سر کے بال منڈوا لیے تو آپ طواف زیارہ کرنے سے پہلے احرام اتار چکے تھے۔ صرف بیوی سے ہمبستری کرنا منع تھا کیونکہ اس میں علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ طواف زیارہ سے پہلے بیوی سے ہم بستری کرنا منع ہے۔