ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
ح، وخبر رافع بن خديج في قسم الغنائم، فعدل النبي صلى الله عليه وسلم عشرة من الغنم بجزور كالدليل على صحة هذه المسالة.ح، وَخَبَرُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ فِي قَسْمِ الْغَنَائِمِ، فَعَدَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً مِنَ الْغَنَمِ بِجَزُورٍ كَالدَّلِيلِ عَلَى صِحَّةِ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ.
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کے بعد یہ الفاظ آئے ہیں، آپ سے سوال کیا گیا کہ کون سا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو زیادہ قیمتی ہو اور اپنے مالکوں کے نزدیک زیادہ عمدہ ہو۔“ اس روایت کے بعد فرمایا: ”ہر وہ چیز جس کے جانے سے انسان کو زیادہ تکلیف ہو اگر وہ چیز الله کی راہ میں خرچ کی جائے تو اس کا اجر وثواب بھی بہت زیادہ ہوگا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اعلیٰ نسل کا مضبوط و توانا اونٹ قربانی کے لئے مکّہ مکرّمہ روانہ کیا پھر اُنہیں اس کی تین سو دینار قیمت دی جانے لگی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں نے ایک اعلیٰ نسل کا مضبوط اونٹ قربانی کے لئے مکّہ مکرّمہ روانہ کیا ہے اور اب مجھے اس کی سو دینار قیمت مل رہی ہے، کیا میں اسے بیچ کر اس کی قیمت سے کئی اونٹ خرید کر اُن کی قربانی کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں اسی عمده اونٹ کو نحر کرو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب محمد بن سلمہ کے شاگردوں نے ابن جارود کے نام میں اختلاف کیا ہے۔ کچھ اس کا نام جہم بن جارود بیان کرتے اور کچھ شہم۔
جناب عبید بن فیروز بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے اُن جانوروں کے بارے میں بیان کریں جن کی قربانی کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا ہے یا منع فرمایا ہے۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اپنے دست مبارک سے اشارہ کرکے فرمایا تھا، اور میرا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے چھوٹا اور حقیر ہے۔ چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں ہیں، وہ بھینگا جانور جس کا بھینگا ہونا واضح ہو، بیمار جانور جس کی بیماری ظاہر ہو لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو۔ اور ایسا بوڑھا جانور کہ کمزوری کی وجہ سے اس کی ہڈیوں کا گودا ختم ہو چکا ہو۔“ سیدنا عبید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے قربانی کے لئے وہ جانور بھی بُرا معلوم ہوتا ہے جس کے کان اور سینگ میں نقص ہو (یعنی کان کٹا ہو یا سینگ ٹوٹا ہو) آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو جانور تمہیں ناپسند ہوتم اسے چھوڑ دو لیکن دوسروں کو اس کی قربانی سے منع نہ کرو۔
2058. حج کی قربانی اور عید کی قربانی پر کٹے کان والا جانور ذبح کرنے کی ممانعت صرف اس لئے ہے کہ صحیح سلامت کان اور سینگ والا جانور ذبح کرنا افضل واعلیٰ ہے یہ مطلب نہیں کہ کٹے کان اور ٹوٹے سینگ والا جانور قربان کرنا جائز نہیں
إذ النبي صلى الله عليه وسلم لما اعلم ان اربعا لا تجزئ، دلهم بهذا القول ان ما سوى ذلك الاربع جائز. إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَعْلَمَ أَنَّ أَرْبَعًا لَا تُجْزِئُ، دَلَّهُمْ بِهَذَا الْقَوْلِ أَنَّ مَا سِوَى ذَلِكَ الْأَرْبَعِ جَائِزٌ.
کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بتادیا چار قسم کے جانوروں کی قربانی کرنا جائز نہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے علاوہ جانوروں کی قربانی کرنا جائز ہے
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوٹے سینگ اور کٹے کان والے جانور کی قربانی کرنے سے منع کیا ہے۔ امام قتادہ رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے یہ روایت امام سعید بن مسیب رحمه الله کو سنائی تو اُنھوں نے فرمایا: عضب سے مراد وہ جانور ہے جس کا آدھا سینگ ٹوٹا ہوا ہو یا آدھا كان چیرا ہوا ہو۔ جناب شہر بن حوشب فرماتے ہیں کہ عضب سے مراد ہے اندر تک ٹوٹا ہوا سینگ۔
إذ صحيح العينين والاذنين افضل، لا ان النقص إذا لم يكن عورا بينا غير مجزئ، ولا ان ناقص الاذنين غير مجزئ. إِذْ صَحِيحُ الْعَيْنَيْنِ وَالْأُذُنَيْنِ أَفْضَلُ، لَا أَنَّ النَّقْصَ إِذَا لَمْ يَكُنْ عَوَرًا بَيِّنًا غَيْرَ مُجْزِئٍ، وَلَا أَنَّ نَاقِصَ الْأُذُنَيْنِ غَيْرُ مُجْزِئٍ.
کیونکہ صحیح سلامت آنکھوں اور کانوں والا جانور ذبح کرنا افضل ہے، یہ مطلب نہیں کہ آنکھ اور کان میں (معمولی) نقص والا جانور بھی قربان کرنا منع ہے
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ہم (قربانی کے جانور کے) کان اور آنکھیں اچھی طرح دیکھ بھال لیں۔
جناب حجیہ بن عدی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گائے کی قربانی کے بارے میں سوال کیا تو اُنھوں نے فرمایا کہ گائے کی قربانی میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں۔ اُس نے پوچھا کہ اگر سینگ (تھوڑا سا ٹوٹا ہوا ہو؟) انھوں نے فرمایا، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس نے پھر عرض کیا کہ انگڑے پن کا کیا حُکم ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب چل کر قربان گاہ پہنچ جائے تو کوئی حرج نہیں، فرمایا کہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ہم جانور کی آنکھیں اور کان اچھی طرح دیکھ لیں (کہ ان میں نقص نہ ہو)۔
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کے درمیان قربانی کے جانور تقسیم کیے، سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے حصّے میں بھیٹر کا ایک سالہ بچّہ آیا۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میرے حصّے میں بھیٹر کا ایک سالہ بچہ آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے ہی ذبح کرلو۔“ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے قربانی کے مسائل کتاب الضحایا میں بیان کر دیئے ہیں، میں نے یہاں قربانی کے یہ مسائل صرف اس لئے بیان کیے ہیں کیونکہ علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ ہر وہ جانور جو عید کی قربانی میں ذبح کرنا جائز ہے وہ حج کی قربانی میں بھی ذبح کرنا جائز ہے۔