والدليل على ان ما دون الثلاث من المسافرين فهم عصاة، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد اعلم ان الواحد شيطان، والاثنان شيطانان، ويشبه ان يكون معنى قوله: شيطان او عاصي، كقوله: شياطين الإنس والجن (الانعام: 112)، ومعناه: عصاة الجن والإنس.وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ مَا دُونَ الثَّلَاثِ مِنَ الْمُسَافِرِينَ فَهُمْ عُصَاةٌ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الْوَاحِدَ شَيْطَانٌ، وَالِاثْنَانِ شَيْطَانَانِ، وَيُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ مَعْنَى قَوْلِهِ: شَيْطَانٌ أَوْ عَاصِي، كَقَوْلِهِ: شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ (الأنعام: 112)، وَمَعْنَاهُ: عُصَاةُ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ.
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اکیلا (مسافر) شیطان ہے اور دو مسافر دو شیطان ہیں اور تین آدمی قافلہ اور جماعت ہوتے ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے تو جب سحر طلوع ہوتی تو آپ یہ دعا مانگتے: «سَمِـعَ سـامِعٌ بِحَمْـدِ اللهِ وَحُسْـنِ بَلائِـهِ عَلَيْـنا، رَبَّنـا صـاحِبْـنا وَأَفْـضِل عَلَيْـنا سِتْراً باللهِ مِنَ النّـار» ”سننے والے نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء، اس کی نعمت کا شکریہ اور ہم پر اس کے فضل و کرم کا اعتراف سن لیا۔ اے ہمارے رب (ہمارے سفر میں) ہمارا ساتھی بن جا۔ اور ہم پر اپنا فضل و کرم فرما میں جہنّم کی آگ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔“ آپ یہ دعائیہ کلمات بلند آواز سے تین بار پڑھتے۔ جناب ابوحازم کی روایت میں ہے کہ اور اس کی کرم فرمائی کا اعتراف“ آپ یہ کلمات تین بار پڑھتے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عامر راوی ہماری اس کتاب کی شرط پر پورا نہیں اُترتا لیکن چونکہ میں نے یہ روایت سلیمان بن بلال اور سہیل بن ابی صالح سے بھی بیان کی ہے (جو شرط پر پورے اترتے ہیں) اس لئے عبداللہ بن عامر کی روایت بھی ان کی روایت کے ساتھ درج کردی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوے یا سفر میں ہوتے اور رات ہو جاتی تو آپ یہ دعا مانگتے: «يَا أَرْضُ رَبِّي وَرَبُّكِ اللَّهُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكِ وَشَرِّ مَا فِيكِ وَشَرِّ مَا خُلِقَ فِيكِ وَشَرِّ مَا يَدِبُّ عَلَيْكِ وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ أَسَدٍ وَأَسْودَ وَمِنَ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ وَمِنْ شَرِّ سَاكِنِ الْبَلَدِ وَمِنْ والدٍ وَمَا ولد» ”اے زمین، میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔ میں تیرے شر سے، تیرے اندر کے شر سے اور تیرے اندر پیدا کی گئی مخلوق کے شر سے، تیرے اوپر رینگنے والی مخلوق کے شر سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ میں ہر شیر اور درندے، سانپ اور بچّھو، اور اس علاقے کے باشندوں اور ہر والد اور اس کے مولود کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے اونٹوں کے ہار اپنے ان دو ہاتھوں سے بٹا کرتی تھی۔ جناب مخزومی کی روایت ہیں”هاتين“(ان دو) کے لفظ کا ذکر موجود نہیں۔
ضد قول من زعم ان إشعار البدن مثلة، فسمى سنة النبي صلى الله عليه وسلم مثلة بجهلهضِدَّ قَوْلِ مِنْ زَعَمَ أَنَّ إِشْعَارَ الْبُدْنِ مُثْلَةٌ، فَسَمَّى سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُثْلَةً بِجَهْلِهِ
اس عالم کے قول کے برخلاف جس کا خیال ہے کہ اشعار کرنا مثلہ ہے۔ اس طرح اس نے اپنی جہالت کہ بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کو مثلہ کا نام دے دیا ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر ادا کی اور اپنے قربانی کے اونٹوں کو کوہان کی دائیں جانب اشعار کرنے کا حُکم دیا، اور اسے دو جوتوں کا ہار پہنایا اور اس کے زخم سے خون صاف کردیا۔
حضرت عروہ بن زبیر رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدنا ناجیہ الخزاعی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے اونٹ مکّہ مکرّمہ پہنچاتے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میرے قربانی کے اونٹوں میں سے جو تھک جائے۔ میں اسے کیا کروں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حُکم دیا کہ میں ہر تھک جانے والے اونٹ کو ذبح کرکے اس کے جوتے اس کے خون میں ڈبو کر چھوڑ دوں۔ تاکہ ضرورتمند لوگ اس کا گوشت کھالیں۔ جناب وکیع کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اونٹ کو ذبح کردو اور اس کا جوتا اس کے خون میں ڈبو کر اس کے پہلو پر مارو (تاکہ لوگ اسے پہچان کر گوشت کھالیں)“