سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تلبیہ میں یہ الفاظ کہے «لَبَّيْكَ إِلٰهَ الْحَقِّ» ”اے سچے اور حقیقی معبود، میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ میں یہ الفاظ بھی شامل تھے «لَبَّيْكَ إِلٰهَ الْحَقِّ» ”اے الہ الحق میں تیری خدمت میں حاضر ہوں۔“
جناب خلاد بن سائب اپنے والد گرامی سیدنا سائب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس حضرت جبرائیل عليه السلام تشریف لائے تو اُنہوں نے کہا کہ ”اپنے صحابہ کو حُکم دیجیئے کہ وہ تلبیہ کہتے ہوئے اپنی آوازیں بلند کریں۔“ جناب احمد کی روایت میں ”بِالْاِهْلَاِل وَالتَّلْبِيَةِ“ کے الفاظ ہیں۔ (معنی دونوں کا ایک ہی ہے کہ تلبیہ پکاریں)۔
جناب جعفر اپنے والد محترم سے بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں سوال کیا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ آپ (سفر حج) کے لئے نکلے حتّیٰ کہ آپ کی سواری آپ کو لیکر بیداء مقام پر سیدھی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے یہ کلمات توحید پکارے «لَبَّيْكَ اللَٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ» ”اے اللہ میں تیرے دربار میں حاضر ہوں، میں تیری عبادت پر قائم ہوں۔ میری تیری فرمانبرداری کے لئے تیری بارگاہ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں، اے اللہ، میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، بیشک تمام حمد و ثناء تیری ہی شان کے لائق ہے۔ اور سب نعمتیں تیرے ہی قبضہ میں ہیں۔ بادشاہی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔“ جب کہ صحابہ کرام ”ذالمعارج“(اے سیڑھیوں والے) کے الفاظ بڑھا دیتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ الفاظ سننے کے باوجود انہیں کچھ نہیں کہتے تھے۔
سیدنا سائب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میرے پاس حضرت جبرائیل عليه السلام آئے تو انہوں نے فرمایا کہ ”اپنے ساتھیوں کو حُکم دیں کہ وہ بلند آواز سے تلبیہ پکاریں۔“ جناب احمد بن منیع کی روایت میں ”بِالْاِهْلَاِل وَالتَّلْبِيَةِ“ کے الفاظ ہیں۔
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حضرت جبرائیل عليه السلام تشریف لائے تو فرمایا کہ ”ط اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اپنے ساتھیوں کو حُکم دیں کہ وہ با آواز بلند تلبیہ پکاریں کیونکہ یہ شعار حج ہے۔“
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس حضرت جبرائیل عليه السلام آئے توانہوں نے کہا کہ ”تلبیہ کو شعار بنائیں کیونکہ تلبیہ حج کا شعار ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ”تلبیہ حج کا شعار ہے“ یہ اسی قسم سے تعلق رکھتا ہے جس کے بارے میں میں بیان کرچکا ہوں کہ عرب لوگ یہ کہتے ہیں کہ ”یہ افضل ترین عمل ہے“ اور ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ عمل افضل ترین اعمال میں سے ایک ہے۔ کبھی عرب کہتے ہیں کہ ”بہترین عمل اس طرح ہے“ اور ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ عمل بہترین اعمال میں سے ایک بہتر عمل ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: ”تلبیہ شعار حج ہے“ سے آپ کی مراد یہ ہے کہ تلبیہ شعار حج میں سے ایک شعار ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حضرت جبرائیل عليه السلام نے مجھے بلند آواز سے تلبیہ پکارنے کا حُکم دیا کیونکہ یہ حج کے شعار میں سے ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے طرق کتاب الکبیر میں بیان کر دیے ہیں۔