حسن بن محمد زعفرانی روح شعبه قلم، حماد، منصور اور سلیمان ابراہیم اسود کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، گویا کہ میں اس وقت بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں آپ اُس وقت احرام باندھے ہوئے تھے۔ سلیمان نامی راوی نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں میں، جبکہ منصور نامی راوی نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی جڑوں میں (خوشبو) دیکھ رہی ہوں۔ جبکہ حکم اور حماد نامی راوی نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی مانگ میں۔
إذا اراد الإحرام كي يكون اقل شهوة لجماع النساء في الإحرام، إذا كان حديث عهد بجماعهن إِذَا أَرَادَ الْإِحْرَامَ كَيْ يَكُونَ أَقَلَّ شَهْوَةٍ لِجِمَاعِ النِّسَاءِ فِي الْإِحْرَامِ، إِذَا كَانَ حَدِيثَ عَهْدٍ بِجِمَاعِهِنَّ
نیز احرام باندھنے کا ارادہ ہوتو آدمی کا پہلے اپنی بیوی سے جماع کرنا بھی مستحب ہے تاکہ دوران احرام اسے بیوی سے جماع کی خواہش اور چاہت کم ہو جب کہ وہ قریبی دنوں میں بیوی سے جماع کرچکا ہوگا
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا يحيى بن سعيد ، ومحمد بن ابي عدي ، عن شعبة ، عن إبراهيم بن المنتشر ، عن ابيه انه سال ابن عمر عن الطيب عند الإحرام، فقال: لان اتطيب بقطران احب إلي من ان افعل ذلك، قال: فذكرته لعائشة ، فقالت:" يرحم الله ابا عبد الرحمن، كنت اطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيطوف على نسائه، ثم يصبح محرما ينضح طيبا" ، سمعت الربيع، يقول: سئل الشافعي عن الذبابة تقع على النتن، ثم تطير فتقع على ثوب المرء، فقال الشافعي: يجوز ان تيبس ارجلها في طيرانها، فإن كان كذلك، وإلا فالشيء إذا ضاق اتسعحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الطِّيبِ عِنْدَ الإِحْرَامِ، فَقَالَ: لأَنْ أَتَطَيَّبَ بِقَطِرَانٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِعَائِشَةَ ، فَقَالَتْ:" يَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ، ثُمَّ يُصْبِحُ مُحْرِمًا يَنْضَحُ طِيبًا" ، سَمِعْتُ الرَّبِيعَ، يَقُولُ: سُئِلَ الشَّافِعِيُّ عَنِ الذُّبَابَةِ تَقَعُ عَلَى النَّتْنِ، ثُمَّ تَطِيرُ فَتَقَعُ عَلَى ثَوْبِ الْمَرْءِ، فَقَالَ الشَّافِعِيُّ: يَجُوزُ أَنْ تَيْبَسَ أَرْجُلُهَا فِي طَيَرَانِهَا، فَإِنْ كَانَ كَذَلِكَ، وَإِلا فَالشَّيْءُ إِذَا ضَاقَ اتَّسَعَ
جناب المنتشر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے احرام کے وقت خوشبو لگانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں قطران (تارکول سے ملتا جلتا بدبودار تیل جو خارشی اونٹوں کو ملتے ہیں) کو جسم پر مل لوں تو میرے نزدیک احرام کے وقت خوشبو لگا نے سے یہ بہتر ہے۔ جناب منتشرفرماتے ہیں کہ میں نے ان کی یہ بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمٰن پر رحم فرمائے (انہیں یہ مسئلہ معلوم نہیں) میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگاتی تھی پھر آپ اپنی بیویوں سے ہمبستری کرتے پھر آپ صبح کے وقت احرام باندھ لیتے حالانکہ خوشبو آپ کے جسم مبارک سے پھوٹ کر نکل رہی ہوتی۔ امام ربیع فرماتے ہیں کہ امام شافعی رحمه الله سے اس مکّھی کے بارے میں سوال کیا گیا جو گندگی پر بیٹھنے کے بعد اڑتی ہوئی آتی ہے اور آدمی کے کپڑوں پر بیٹھ جاتی ہے تو وہ آدمی کیا کرے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اگر تُو اس کی ٹانگیں ہوا میں اڑنے کے دوران خشک ہوگئی تھیں تو پھر تو کوئی حرج نہیں۔ اور اگر ابھی تر ہی تھیں تو بھی حرج نہیں کیونکہ جب کسی مسئلہ میں انتہائی مشکل اور تنگی آجائے تو دین اسلام اس میں رخصت و آسانی دے دیتا ہے۔ (یعنی اس مکّھی سے بچنا جب دشوار ہوگیا تو اتنی قلیل مقدار میں گندگی معاف ہوگی)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لئے جحفہ اور اہل نجد کے لئے قرن منازل میقات مقرر فرمائے۔ جناب عبدالجبار نے اپنی روایت میں بیان کیا کہ مجھے بتایا گیا ہے لیکن میں نے یہ الفاظ سنے نہیں کہ آپ نے اہل یمن کے لئے یلملم میقات مقرر فرمایا ہے، جناب مخزومی کی روایت میں ہے، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور اہل یمن یلملم سے احرام باندھیں گے اور تلبیہ پڑھیں گے۔“
والبيان ان مواقيت من منزله اقرب إلى الحرم من هذه المواقيت: منازلهموَالْبَيَانُ أَنَّ مَوَاقِيتَ مَنْ مَنْزِلُهُ أَقْرَبُ إِلَى الْحَرَمِ مِنْ هَذِهِ الْمَوَاقِيتِ: مَنَازِلُهُمْ
تو جن لوگوں کے گھر ان میقات کی نسبت حرم سے قریب ہوں تو ان کے میقات ان کے گھر ہی ہوںگے۔ اور وہ اپنے اپنے گھروں ہی سے احرام باندھ لیںگے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ والوں کے لئے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لئے جحفہ، اہل یمن کے لئے یلملم اور اہل نجد کے لئے قرن منازل میقات مقرر فرمائے ہیں۔ یہ میقات ان علاقوں کے لوگوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بھی جو دوسرے علاقوں کے رہائشی ہوں اور ان میقات سے گزر کرحج وعمرہ کے لئے جارہے ہوں۔ لہٰذا جو شخص حج یا عمرہ ادا کرنا چاہتا ہو اور اس کا گھر ان میقات کے اندر (مکّہ کی جانب) واقع ہو تو وہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھے گا۔ اسی طرح اہل مکّہ اپنے گھروں سے احرام باندھ کرتلبیہ پڑھیں گے۔
1811. اس بات کا بیان کہ مذکورہ میقات ان علاقوں کے رہائشی لوگوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بھی ہیں جو ان میقات سے گزریں گے لیکن وہ ان علاقوں کے رہائشی نہیں ہیں
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ اہلِ شام کے لئے جحفہ اہلِ نجد کے لئے قرن اور اہلِ یمن کے لئے یلملم کو میقات قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہ ان لوگوں کے لئے اور ان کے پرے (یعنی دوسری طرف) کے علاقوں سے آنے والوں کے لئے ہیں۔ جو شخص حج یا عمرہ کا ارادہ کرتا ہے (یہ حُکم اُس کے لئے ہے) لیکن جو اس سے پہلے رہتا ہے (یعنی مکّہ کی طرف رہتا ہے) وہ اپنے گھر سے ہی احرام باندھے گا تو یہ حُکم شروع ہوگا، یہاں تک کہ اہلِ مکّہ تک پہنچے گا (یعنی اہلِ مکّہ، مکّہ سے احرام باندھیں گے)۔
ابو زبیر بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا جن سے میقات کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بیان کیا ہے کہ اہلِ مدینہ کا میقات ذوالحلیفہ ہے اور دوسرے راستے سے جحفہ ہے۔ اہلِ عراق کا میقات ذات عرق ہے۔ اہلِ نجد کا قرن ہے اور اہلِ یمن کا یلملم ہے۔ امام صاحب رحمه الله بھی فرماتے ہیں کہ ذات عرق کے بارے میں یہ حُکم ہے کہ یہ اہلِ عراق کا میقات ہے اس کے بارے میں ابن جریج کی بیان کردہ روایت کے علاوہ بھی روایات ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی ایک روایت بھی محدثین کے نزدیک مستند طور پر منقول نہیں ہے۔ میں نے یہ تمام تر روایات کتاب الکبیر میں بیان کردی ہیں۔