1803. جب قربانی کا جانور تھک ہار کر عاجز آجائے اور اسے ذبح کردیا جائے تو قربانی کے جانور لے جانے والے شخص اور اس کے ساتھیوں کے لئے اس کا گوشت کھانا منع ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا ذویب ابو قبیصہ خزاعی رضی اللہ عنہ نے انہیں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کے اونٹ دے کر انہیں روانہ کیا تو فرمایا: ”اگر ان میں سے کوئی اونٹ تھک کر چلنے سے معذور ہو جائے تو اسے ذبح کر دینا اور اس کے جوتے اس کے خون میں ڈبو دینا (تاکہ لوگوں کے لئے نشانی رہے) لیکن تم اور تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی شخص اس کا گوشت نہ کھائے۔“ جناب بندار کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ذؤیب کے ساتھ اپنے قربانی کے جانور روانہ کیے اور یہ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ ”اور خون آلود جوتے اس کے پہلو پر مارو۔“
إن صح الخبر، ولا اخال؛ فإن في القلب من عبد الله بن عامر الاسلمي إِنَّ صَحَّ الْخَبَرُ، وَلَا أَخَالُ؛ فَإِنَّ فِي الْقَلْبِ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ الْأَسْلَمِيِّ
بشرطیکہ یہ حدیث صحیح ہو۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ صحیح نہیں کیونکہ عبداللہ بن عامر الاسلمی کے بارے میں میرا دل مطمئن نہیں ہے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس شخص نے نفلی قربانی کے لئے اونٹ بھیجا پھر وہ راستے میں گم ہوگیا تو وہ چاہے تو اس قربانی کا بدل بھیجدے اور اگر چاہے تو نہ بھیجے، اور اگر وہ قربانی کا جانور نذر کی وجہ سے بھیج رہا تھا تو پھر ضرور اس کا متبادل دے۔“
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص نفلی طور پر قربانی کا جانور بھیجے اور وہ جانور ہلاک ہو جائے تو وہ شخص خود اس میں سے کچھ نہ کھائے کیونکہ اگر اُس نے اس میں سے کچھ کھا لیا تو اس کا بدل دینا لازم ہوگا۔ اُسے چاہیے کہ اس جانور کو ذبح کرکے اُس کا جوتا اُس کے خون میں ڈبوئے اور پھر اس کے پہلو پرنشان لگادے لیکن اگر وہ کوئی لازمی قربانی تھی تو پھر اگر وہ چاہے تو اس میں سے کھا سکتا ہے۔“
عبد الرحمن بن قاسم اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب احرام باندھا تھا تو میں نے آپ کو خوشبو لگائی تھی اور جب آپ نے بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے احرام کھولا تھا (تو میں نے اُس وقت بھی آپ کو خوشبو لگائی تھی)۔
عبد الرحمن بن قاسم اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے ان دو ہاتھوں کے ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھنے کے وقت آپ کو خوشبو لگائی تھی اور آپ کے بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے احرام کھولنے کے وقت بھی لگائی تھی۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ روایت کے یہ الفاظ کہ جب آپ نے احرام باندھا تھا، یہ اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بارے میں ہم کہیں گے کہ عرب یہ کہتے ہیں جب تم نے ایسا کام کیا تو مراد یہ ہوتی ہے جب تم نے یہ کام کرنے کا ارادہ کیا، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھنے کا ارادہ کیا اُس وقت انہوں نے آپ کوخوشبو لگائی تھی۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ انہوں نے آپ کواحرام باندھنے کے بعد خوشبولگائی تھی۔ میں نے جو مفہوم ذکر کیا ہے اس کے صحیح ہونے کی دلیل وہ روایت ہے جومنصور نے اپنی سند کے ساتھ بیان کی ہے جو میں نے اس باب میں اس کے بعد بیان کی ہے۔ باوجود اسکے میں نے اس بارے میں روایات الكتاب الکبیر میں بیان کردی ہیں۔
جناب القاسم بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے احرام باندھنے سے پہلے خوشبو لگائی، اور یوم النحر (دس ذوالحجہ) کو بھی آپ کے طواف افاضہ کرنے سے پہلے خوشبو لگائی، اس خوشبو میں کستوری بھی شامل تھی۔
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تمھاری سب سے عمدہ اور پاکیزہ خوشبو کستوری ہے۔“ اس میں ان لوگوں کے خلاف واضح دلیل موجود ہے جو کستوری کو نجس قرار دیتے ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ گویا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کی مانگ میں خوشبو (کستوری) کی چمک کو دیکھ رہی ہوں حالانکہ آپ حالت احرام میں ہیں۔