جناب یحییٰ بن یعمر بیان کرتے ہیں کہ میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حج اور عمرے کی ادائیگی کے لئے چلے تو ہم نے کہا، اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابہ کی ملاقات کریں تو کتنا اچھا ہوگا۔ لہٰذا ہم نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی تو اُنہوں نے فرمایا کہ مجھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی وہ فرماتے ہیں کہ اس دوران کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے جب ایک شخص اچانک نمودار ہوا اُس کے کپڑے نہایت سفید اور صاف تھے جبکہ بال بالکل سیاہ اور صاف تھے جبکہ ہم اسے جانتے نہیں تھے (یعنی اجنبی تھا مگر سفرکے آثار اس پر موجود نہیں تھے) وہ قریب ہوکر دو زانوں بیٹھ گیا اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ کو بولا، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے اسلام کے بارے میں بتائیں کہ اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اسلام یہ ہے) کہ تم گواہی دو کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بیشک محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو، اور رمضان المبارک کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر تم اس تک سفر کی استطاعت رکھتے ہو۔“ اُس نے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا ہے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔
1743. اس بات کی دلیل کا بیان کہ بعض دفعہ اسلام پر الف لام تعریف کا ہوتا ہے (اور وہ کل کا معنی دیتا ہے) لیکن اس کے باوجود اس کا اطلاق اسلام کے بعض شعبوں پر ہوجاتا ہے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود پر حق نہیں (اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں)، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔“
1744. حج کو جلدی ادا کرنے کا بیان۔ اس خوف کی بنا پر کہ کہیں کعبہ کے اُٹھائے جانے کی وجہ سے حج فوت نہ ہوجائے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ کعبہ دو بار منہدم ہونے کے بعد اُٹھالیا جائے گا
إذ النبي صلى الله عليه وسلم اعلم انها ترفع بعد هدم مرتين إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ أَنَّهَا تُرْفَعُ بَعْدَ هَدْمِ مَرَّتَيْنِ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت اللہ سے فائدہ اُٹھا لو کیونکہ یہ دوبار منہدم ہوگا اور تیسری بار اُٹھا لیا جائیگا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں آپ کا یہ فرمان کہ ”تیسری بار اس کی عمارت اُٹھالی جائیگی“ کا مطلب یہ ہے کہ تیسری بار منہدم ہونے کے بعد اُٹھالیا جائیگا کیونکہ منہدم شدہ کو اُٹھانا محال ہے کیونکہ جب گھر گر جاۓ اور وہاں کوئی عمارت باقی نہ رہے تو اُسے ”بیت“ گھر کا نام نہیں دیا جاتا۔
إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد اعلم انه يعتمر ويحج البيت بعد خروج ياجوج وماجوج إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّهُ يُعْتَمَرُ وَيُحَجُّ الْبَيْتُ بَعْدَ خُرُوجِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ
ان کے نکلنے سے پہلے نہ ہوگا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی بیت اللہ کا حج اور عمرہ کیا جائے گا
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی اس بیت اللہ کا حج وعمرہ ضرور کیا جائیگا۔“ ابوقدامہ کی روایت میں ہے کہ یاجوج ماجوج کے بعد حج وعمرہ ہوتا رہیگا۔ اور جناب ابوموسیٰ کی روایت میں ہے کہ اس گھر کا حج ضرور کیا جائیگا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا تو کہا: ”بیشک اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔“ تو ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، کیا ہرسال حج فرض ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا حتّیٰ کہ اُس نے یہی سوال تین بارکیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں کہہ دیتا کہ ہاں ہر سال فرض ہے تو وہ فرض ہوجاتا۔ اور اگر (ہر سال) فرض ہوجاتا تو تم اسے ادا نہ کرسکتے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھے چھوڑ دو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں (خواہ مخواہ سوال نہ کرو) کیونکہ تم سے پہلے لوگ بھی اس لئے تباہ و برباد ہوئے کہ وہ اپنے انبیاء سے بہت زیادہ سوال کرتے تھے اور انبیاء کرام سے بہت باتوں میں اختلاف کرتے تھے۔ لہٰذا میں تمہیں جس چیز کا حُکم دوں تو تم حسب استطاعت اس پر عمل کرو اور جب کسی چیز سے تمہیں روک دوں تو تم اس سے رک جاوَ۔“ راوی کہتے ہیں تو یہ آیت نازل ہوئی «لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ» [ سورة المائدة: 101]”(اے ایمان والو) ایسی باتوں کے بارے میں سوال نہ کرو اگر تم پرظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔“