وكراهية رد السائل من غير إعطاء إذا لم يكن للمسئول ما يجزل العطية وَكَرَاهِيَةِ رَدِّ السَّائِلِ مِنْ غَيْرِ إِعْطَاءٍ إِذَا لَمْ يَكُنْ لِلْمَسْئُولِ مَا يُجْزِلُ الْعَطِيَّةَ
جب کسی شخص کے پاس زیادہ بڑا عطیہ دینے کی گنجائش نہ ہوتو بھی سائل کو بغیر عطا کیے لوٹانا ناپسندیدہ ہے
جناب ابن بجید اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (بعض اوقات) سائل میرے پاس آتا ہے جبکہ میرے پاس اُسے دینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا (تو میں کیا کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سائل کو (خالی ہاتھ) نہ لوٹانا، اگر ایک کھری ہی ہو تو وہی دے دو۔“ جناب اشج راوی نے ”مَا اُعْطِيْهِ“ کے الفاظ بیان نہیں کیئے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ابن بجید سے مراد عبدالرحمان بن بجید بن قبطی ہے۔
جناب ابن حارثہ کے بھائی عبدالرحمٰن بن بجید سے روایت ہے کہ انہیں ان کی دادی نے بیان کیا۔ وہ ام بجید ہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرنے والوں میں سے تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اللہ کی قسم، مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور میرے پاس اسے دینے کے لئے کوئی چیز نہیں ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حُکم دیا: ”ا گر تمہیں اسے دینے لئے جلی ہوئی کھری کے سوا کچھ نہ ملے تو وہی اس کے ہاتھ میں تھما دو“۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صدقہ کرکے صدقہ واپس لے لیتا ہے اس کی مثال اس کتّے جیسی ہے جو قے کرتا ہے پھر اپنی قے کو چاٹ لیتا ہے۔“
1721. اعلانیہ صدقہ اس نیت سے کرنا مستحب ہے کہ لوگ اس کی پیروی کرتے ہوئے صدقہ کریںگے، صدقے کی ابتداء کرنے والے شخص کواس کی پیروی میں صدقہ کرنے والے تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا۔
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے صدقہ کرنے کا حُکم دیا تو لوگوں نے اس حُکم کی تعمیل میں تاخیر کردی حتّیٰ کہ آپ کے چہرہ مبارک پر غصّے کے آثار نمودار ہوگئے۔ پھر ایک انصاری صحابہ ایک تھیلی لایا اور وہ صدقہ میں دیدی۔ پھر لوگ پے درپے صدقہ لانے لگے حتّیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے کِھل اُٹھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ رائج کیا تو اسے اپنا بھی اور اس طریقے پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا بھی اجرملے گا جبکہ اُن کے اپنے اجر میں بھی کمی نہیں کی جائیگی۔ اور جس شخص نے (اسلام میں) برا طریقہ رائج کیا تو اُسے اس کا اور اس طریقے پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا بھی گناہ ہوگا جبکہ دیگر عمل کرنے والوں کے اپنے گناہ میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔“
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غیرت دو قسم کی ہے۔ ایک اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور دوسری ناپسند ہے۔ جن کاموں میں تہمت لگنے اور بدگمانی پیدا ہونے کا خطرہ ہو ان میں غیرت کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ اور جن امور میں شک و شبہ اور تہمت لگنے کا خدشہ ہو ان میں غیرت کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ جب آدمی صدقہ خیرات کرکے اترائے تو اللہ تعالیٰ اس شوخی کو پسند کرتا ہے۔ اور جس فخر وغرور کا سبب تکبر ہواسے اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین افراد کی دعا بہت قبول ہوتی ہے، والد کی دعا (اولاد کے حق میں) مسافر اور مظلوم کی دعا“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ ایک تیر کے سبب سے تین افراد کو جنّت میں داخل کرتا ہے۔ تیربنانے والے کو، تیر مجاہد کو فراہم کرنے والے کو اور اللہ کی راہ میں اس تیر کو چلانے والے مجاہد کو۔“