وقبض الرب- عز وجل- إياها ليربيها لصاحبها، والبيان انه لا يقبل إلا الطيبوَقَبْضِ الرَّبِّ- عَزَّ وَجَلَّ- إِيَّاهَا لِيُرَبِّيَهَا لِصَاحِبِهَا، وَالْبَيَانُ أَنَّهُ لَا يَقْبَلُ إِلَّا الطَّيِّبَ
اور اس بات کا بیان کہ اللہ تعالیٰ صدقہ قبول فرما کر صدقہ کرنے والے کے لئے اس کی پرورش کرتا ہے۔ اور اس کا بیان کہ اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ مال سے ہی صدقہ قبول فرماتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی مسلمان آدمی اپنی حلال و پاکیزہ کمائی سے صدقہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ صرف حلال مال سے کیا ہوا صدقہ ہی قبول کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس صدقے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیکراس کی اسی طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچّے یا فرمایا کہ گائے کے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے۔ حتّیٰ کہ ایک کھجور (کا صدقہ) بھی احد پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔“ جناب عتبہ کہتے ہیں کہ فَلُوَّهٗ کا معنی، بچھیرا ہے اور میں نے جناب عقبہ کی روایت میں احد کے برابر کے الفاظ ضبط نہیں کیئے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بندہ اپنی حلال و پاکیزہ کمائی سے صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے قبول کر لیتا ہے اور اُسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیکر اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھیرے یا بچھڑے کی پرورش کرتا ہے۔ بیشک کوئی آدمی ایک لقمے کا صدقہ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ یا فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ کی ہتھیلی میں پرورش پاتا ہے حتّیٰ کہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے، لہٰذا تم صدقہ کرو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جناب عبدالرزاق کی حدیث کی طرح بیان کیا۔ جناب جعفر کی روایت میں اضافہ ہے کہ اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بھی ہے «يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ» [ سورة البقرة: 276 ]”اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔“
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے جہنّم کی آگ کا تذکرہ کیا تو اس سے اللہ کی پناہ مانگی اور (جہنّم سے) نفرت کرتے ہوئے دو یا تین مرتبہ اپنا چہرہ مبارک پھیرا، پھر فرمایا: ”جہنّم کی آگ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرکے ہی بچو، اگر تمہارے پاس یہ بھی نہ ہو تو پاکیزہ کلمہ بول کر ہی آگ سے بچو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرکے ہی بچو۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اسماعیل سے مراد اسماعیل بن مسلم مکی ہے اور میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ہر شخص اپنے صدقے کے سائے میں ہو گا حتّیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے۔“ یا فرمایا: ”لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے۔“ جناب یزید بیان کرتے ہیں کہ اس لئے جناب ابوالخیر ہر روز کچھ نہ کچھ صدقہ ضرور کرتے تھے اگرچہ ایک کیک یا پیاز ہی ہوتا تو وہی صدقہ کر دیتے۔
جناب یزید بن ابی حبیب مرثد بن عبداللہ مزنی رحمه الله سے بیان کرتے ہیں کہ وہ اہل مصر میں سے سب سے پہلے مسجد میں جاتے ہیں۔ اور میں نے جب بھی انہیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو ان کی آستین میں صدقہ کرنے کے لئے نقد رقم یا روٹی یا گندم ضرور ہوتی حتّیٰ کہ بعض اوقات میں نے دیکھا کہ وہ صدقے کے لئے پیاز ہی لے آتے تو میں کہتا کہ اے ابوالخیر، پیاز تمہارے کپڑے بدبودار کردیتا ہے۔ تو وہ جواب دیتے کہ اے ابن حبیب، میرے گھر میں صدقہ دینے کے لئے اس کے سوا کوئی چیز موجود ہی نہ تھی (اس لئے یہی لے آیا ہوں) جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے مجھے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”قیامت کے دن مومن کا سایہ اس کا کیا ہوا صدقہ ہو گا۔“