1651. امام کا تحصیلدار کو حُکم دینا کہ زکوٰۃ جہاں سے وصول کی جائے وہیں (غرباء وغیرہ میں) تقسیم کردی جائے۔ بشرطیکہ یہ حدیث صحیح ہو کیونکہ اشعث بن سواد کے متعلق میرا دل غیر مطمئن ہے اور اگر یہ روایت ثابت نہ ہوتو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت اسی مسئلہ کے بارے میں ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو اہل یمن کی زکوٰۃ ان کے مالداروں سے وصول کرکے انہی کے فقراء میں تقسیم کرنے کا حُکم کا دیا تھا
سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا اور اُسے حُکم دیا کہ وہ دولت مندوں سے زکوٰۃ لیکر (اسی علاقے کے) فقراء میں تقسیم کردے، تو اُس نے مجھے بھی ایک جوان اونٹنی دینے کا حُکم دیا (کیونکہ یہ بھی مستحقین میں شامل تھے)۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جہینہ قبیلے کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ میں سب سے آخر میں جس شخص کے پاس آیا وہ مدینہ منوّرہ کے بہت قریب رہتا تھا۔ اُس نے اپنے جانور میرے لئے جمع کیے۔ پھر بقیہ حدیث جناب عبداللہ بن ابی بکر کی حدیث کی طرح بیان کی۔ ان الفاظ تک، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لئے برکت کی دعا کی۔ جناب عمارہ کہتے ہیں کہ مجھے ابن عقبہ نے بھیجا۔ جناب یحییٰ کہتے ہیں، یعنی انب الولید بن عقبہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں (اسی قبیلے کی) زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا تو اس شخص کے مال کی زکوٰۃ تیس حقے بنی جن کے ساتھ نر اونٹ بھی شامل تھا۔ اس کے مجموعی جانور پندرہ سو اونٹ ہوئے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص اپنی قوم کی زکوٰۃ لیکر حاضر ہوا۔ یہ حدیث اور سیدنا عکراش بن ذؤیب رضی اللہ عنہ کی روایت اسی مسئلے کے متعلق ہے۔
سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یمنی شخص کو اہل یمن کی زکوٰۃ جمع کرنے کے لئے روانہ کیا تو وہ بہت سارا مال لیکرآیا۔ پھرجب آپ نے اس سے حساب لینے کے لئے ایک آدمی بھیجا تو وہ کہنے لگا کہ یہ میرا مال ہے اور یہ تمہارا ہے۔ پھراگر اُس سے پوچھا جائے۔ تمہیں یہ مال کہاں سے ملاہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ اگر وہ سچا ہے تو اُسے اُس وقت ہدیہ کیوں نہیں دے دیا جاتا جبکہ وہ اپنے والد یا والدہ کے گھر بیٹھا ہو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جس شخص کو بھی کسی کام کے لئے بھیجا، پھر وہ اس میں خیانت کرے تو وہ اس خیانت شدہ مال کو اپنی گردن پراُٹھائے قیامت کے دن حاضر ہوگا، اگروہ اونٹ ہوا تو وہ بلبلا رہا ہوگا یا گائے ہوئی تو وہ ڈکار رہی ہوگی، یا بکری ہوئی تو وہ ممیا رہی ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ میں نے یہ پیغام پہنچا دیا ہے۔“ یہ سن کر حضرت ابن زبیر نے سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے کہا تو کیا آپ نے یہ فرمان خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: «إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ» [ سورة البقرة: 271 ]”اگر تم اعلانیہ صدقات دو تو یہ اچھی بات ہے اور اگر تم اسے چھپا کر فقیروں کو دو تو وہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے ...“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو اُس نے کہا کہ اے بنی عبدالمطلب کے بیٹے «السَّلامُ عَلَيْك» ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وَعَلَيْك» اور تم پر بھی سلامتی ہو۔“ اُس نے کہا کہ میں نبی سعد بن بکر کی شاخ بیاض کا ایک آدمی ہوں۔ اور میں اپنی قوم کا پیغامبر اور آپ کی طرف اُن کا قاصد ہوں میں آپ سے چند سوالات کروںگا اور اس پوچھنے میں سختی کروںگا میں آپ کو قسم دوںگا اور قسم دینے میں بھی سخت رویہ اختیار کروںگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن سعد کے بھائی، جو چاہو پوچھو۔“ اُس نے کہا کہ آپ کو کس نے پیدا کیا ہے۔ آپ سے پہلے لوگوں کو کس نے پیدا کیا تھا اور آپ کے بعد آنے والوں کو کون پیدا کرنے والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ“ اُس نے کہا تو میں آپ کو اُسی اللہ کی قسم دیکر پوچھتا ہوں، کیا اُس نے تمہیں رسول بنایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ اس نے کہا، بلاشبہ ہم نے آپ کے خط میں پڑھا ہے اور آپ کے عامل نے بھی بتایا ہے کہ ہمارے جانوروں کی زکوٰۃ وصول کریگا اور ہمارے فقراء میں تقسیم کریگا؟ تو میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ نے آپ کو اس بات کا حُکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد «إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ» [ سورة البقرة: 271 ]”اگر تم ظاہر کرکے صدقہ کرو وہ اچھا ہے۔“ اسی مسئلے کے متعلق ہے۔
وهذا عندي من جنس الحمالة لشبه ان يكون المصطفى صلى الله عليه وسلم تحمل بهذه الدية فاعطاها من إبل الصدقة وَهَذَا عِنْدِي مِنْ جِنْسِ الْحِمَالَةِ لِشَبَهٍ أَنْ يَكُونَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُحُمِّلَ بِهَذِهِ الدِّيَةِ فَأَعْطَاهَا مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ
اور یہ مسئلہ میرے نزدیک حمالہ (کسی کی دیت یا تاوان وغیرہ اپنے ذمے لے لینا) کے باب سے ہے کیونکہ ممکن ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیت اپنے ذمے لے لی ہو پھر زکوٰۃ کے اونٹوں سے اس کی ادائیگی کی ہو
جناب بشیر بن بسیار بیان کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کے ایک فرد جسے ابن ابی حثمہ کہا جاتا ہے اس نے انہیں خبردی کہ ان کے چند افراد خیبر گئے اور وہاں (اپنے اپنے کام کے سلسلے میں) منتشر ہوگئے۔ پھر اُنہوں نے اپنے ایک ساتھی کو مقتول پایا۔ تو اُنہوں نے اُن لوگوں سے کہا جن کے علاقے سے وہ ملا تھا، تم نے ہمارے ساتھی کا قتل کیا ہے۔ (ان کے انکار پر) اُن لوگوں نے اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ ہم خیبر گئے تھے۔ پھر باقی حدیث ذکر کی اس حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون رائیگاں قرار دینا پسند نہ کیا، لہٰذا زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے سو اونٹ اس کی دیت ادا کر دی۔
سیدنا سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک مسکین آدمی کو صدقہ دینا صرف صدقہ ہی ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا دو چیزیں ہیں، وہ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔“ جناب ابن عیینہ اور عیسیٰ کی روایت میں حدیث کی راویہ الرباب کا ذکر ہے اور اس کی کنیت کا ذکر نہیں ہے۔ جبکہ الرباب ہی ام الرایح ہے۔