والدليل على ان الله- عز وجل- إنما امر نبيه صلى الله عليه وسلم باخذ الصدقة من بعض اموال المسلمين، لا من جميع اموالهم في قوله- عز وجل-: [خذ من اموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها] [التوبة: 103] إذ اسم المال واقع على الخيل والحمير جميعا، فبين به النبي صلى الله عليه وسلم الذي ولاه الله بيان ما انزل عليه، ان الله إنما امره باخذ الصدقة من بعض اموال المسلمين، لا من جميعها. وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ اللَّهَ- عَزَّ وَجَلَّ- إِنَّمَا أَمَرَ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنْ بَعْضِ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِينَ، لَا مِنْ جَمِيعِ أَمْوَالِهِمْ فِي قَوْلِهِ- عَزَّ وَجَلَّ-: [خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا] [التَّوْبَةِ: 103] إِذِ اسْمُ الْمَالِ وَاقِعٌ عَلَى الْخَيْلِ وَالْحَمِيرِ جَمِيعًا، فَبَيَّنَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي وَلَّاهُ اللَّهُ بَيَانَ مَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ، أَنَّ اللَّهَ إِنَّمَا أَمَرَهُ بِأَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنْ بَعْضِ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِينَ، لَا مِنْ جَمِيعِهَا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس مال ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اُس کا مال جمع کرکے اُن کی تختیاں بنا کر جہنّم کی آگ میں گرم کی جائیںگی اور ان کے ساتھ اس شخص کے پہلو اور اس کی پشت کو داغا جائیگا حتّیٰ کہ تمہارے حساب کے مطابق پچاس ہزار سال والے دن میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ پھر وہ جنّت یا جہنّم کی طرف اپنا راستہ دیکھے گا۔“ اور پھر اونٹوں اور بکریوں کے قصّے کے متعلق مکمّل حدیث بیان کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ گھوڑوں کی زکوٰۃ کے متعلق آپ کا حُکم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانی میں تا قیامت خیروبرکت بندھی ہوئی ہے اور گھوڑے تین قسم کے افراد کے لئے ہیں۔ ایک شخص کے لئے یہ اجر کا باعث ہیں اور ایک شخص کے لئے (پردہ پوشی) برابر ہیں (نہ ثواب نہ گناہ) اور تیسرے شخص کے لئے یہ گناہ کا باعث ہیں۔ جس شخص کے لئے یہ اجر و ثواب کا باعث ہیں وہ وہ شخص ہے جس نے انہیں اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے پالا اور اس کے لئے انہیں تیار رکھتا ہے۔ ان کے پیٹ میں کو کچھ جاتا ہے وہ اس کے لئے اجر لکھا جاتا ہے اور اگر وہ اسے کسی چراگاہ یا دوسبزہ زاروں میں چراتا ہے تو جو کچھ ان کے پیٹ میں جائیگا اس کے بدلے ان کے مالک کو اجر ملیگا اور اگر وہ ایک یا دو زقنذ بھرتا ہے تو مالک کو اس کے ہر قدم پر اجرملیگا۔ اور اگر اس نے کسی نہر سے اسے پانی پلایا تو گھوڑے کے پیٹ میں جانے والے ہر قطرے کے بدلے اُسے اجر ملیگا۔ حتّیٰ کہ آپ نے ان کی لید اور پیشابوں میں بھی اجر کا ذکر کیا۔ اور وہ گھوڑا جو اس کے لئے برابر برابر ہے تو وہ، وہ ہے جسے وہ سوال کرنے سے بچنے کے لئے، خوبصورتی اور اپنی پردہ پوشی کے لئے رکھتا ہے اور مالک تنگدستی اور خوشحالی میں ان پر سواری کرنے اور ان کی خوراک کے حقوق کو نہیں روکتا اور وہ گھوڑا جو اس کے لئے گناہ کا باعث ہے تو وہ، وہ ہے جسے وہ اترانے، فخر وغرور اور تکبر کے اظہار کے لئے پالتا ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، گدھوں کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کوئی حُکم نازل نہیں فرمایا سوائے اس جامع اور منفرد آیت کریمہ کے «فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ» ”جس شخص نے ذرّہ بھر بھلائی کی وہ اسے دیکھ لیگا اور جس نے ذرّہ بھر برائی کی وہ بھی اسے دیکھ لیگا۔“[ سورة الزلزلة: 6-7 ]
1591. زکوٰۃ کی وصولی کے بعد امام کو زکوٰۃ کی تقسیم میں تاخیر کرنے کی رخصت ہے۔ جب تک امام زکوٰۃ کے جانور تقسیم کرنے کا ارادہ نہیں کرتا وہ انہیں چراگاہ میں بھیج سکتا ہے۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زکوٰۃ کی بکریوں میں سے کچھ بکریاں جمع ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر، ان بکریوں کو (چرانے کے لئے) جنگل میں لے جاؤ۔“ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تو میں ان بکریوں کو چرانے کے لئے ربذہ مقام کی طرف لے گیا۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔