سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میری والدہ نے بچّے کو جنم دیا تو میں بچّے کو لیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تاکہ آپ کھجور چبا کر اُس کے تالو کو لگائیں۔ اُس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹوں کے باڑے میں بکریوں کو نشان لگارہے تھے۔ امام شعبہ کہتے ہیں۔ میرے خیال میں جناب ہشام نے یہ کہا تھا کہ آپ بکریوں کے کانوں پرنشان لگارہے تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف کردی ہے، لہٰذا تم اپنے مالوں میں سے ہر چالیس درہم پر ایک درہم زکوٰۃ ادا کرو۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”ہر چالیس دینار میں ایک دینار اور ہر بیس دینار زکوٰۃ ہے۔“
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما عفا عن الصدقة في الرقيق صدقة الاموال دون صدقة الفطروَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا عَفَا عَنِ الصَّدَقَةِ فِي الرَّقِيقِ صَدَقَةِ الْأَمْوَالِ دُونَ صَدَقَةِ الْفِطْرِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان شخص پر اس کے غلام اور گھوڑے میں کوئی صدقہ واجب نہیں ہے سوائے صدقہ فطر کے۔“
حدثنا حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن حارثة بن مضرب، قال: جاء ناس من اهل الشام إلى عمر، فقالوا: إنا قد اصبنا اموالا: خيلا، ورقيقا، نحب ان يكون لنا فيها زكاة وطهور، فقال:" ما فعله صاحباي قبلي، فافعله"، فاستشار اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، وفيهم علي، فقال علي:" هو حسن إن لم تكن جزية يؤخذون بها راتبة" ، قال ابو بكر:" فسنة النبي صلى الله عليه وسلم في ان ليس في اربع من الإبل صدقة إلا ان يشاء ربها، وقوله في الغنم: فإذا كانت سائمة الرجل ناقصة من اربعين شاة شاة واحدة، فليس فيها صدقة إلا ان يشاء ربها، وفي الرقة ربع العشر، فإن لم يكن إلا تسعين ومائة، فليس فيها صدقة إلا ان يشاء ربها، دلالة على ان صاحب المال إن اعطى صدقة من ماله، وإن كانت الصدقة غير واجبة في ماله، فجائز للإمام اخذها إذا طابت نفس المعطي"، وكذلك الفاروق لما اعلم القوم ان النبي صلى الله عليه وسلم، والصديق قبله لم ياخذا صدقة الخيل والرقيق، فطابت انفسهم بإعطاء الصدقة من الخيل والرقيق متطوعين جاز للفاروق اخذ الصدقة منهم، كما اباح المصطفي صلى الله عليه وسلم اخذ الصدقة مما دون خمس من الإبل، ودون اربعين من الغنم، ودون مائتي درهم من الورقحَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ إِلَى عُمَرَ، فَقَالُوا: إِنَّا قَدْ أَصَبْنَا أَمْوَالا: خَيْلا، وَرَقِيقًا، نُحِبُّ أَنْ يَكُونَ لَنَا فِيهَا زَكَاةٌ وَطَهُورٌ، فَقَالَ:" مَا فَعَلَهُ صَاحِبَايَ قَبْلِي، فَأَفْعَلُهُ"، فَاسْتَشَارَ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِمْ عَلِيٌّ، فَقَالَ عَلِيٌّ:" هُوَ حَسَنٌ إِنْ لَمْ تَكُنْ جِزْيَةً يُؤْخَذُونَ بِهَا رَاتِبَةً" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ:" فَسُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَنْ لَيْسَ فِي أَرْبَعٍ مِنَ الإِبِلِ صَدَقَةٌ إِلا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَقَوْلُهُ فِي الْغَنَمِ: فَإِذَا كَانَتْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ نَاقِصَةً مِنْ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ وَاحِدَةٌ، فَلَيْسَ فِيهَا صَدَقَةٌ إِلا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي الرِّقَّةِ رُبْعُ الْعُشْرِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ إِلا تِسْعِينَ وَمِائَةٍ، فَلَيْسَ فِيهَا صَدَقَةٌ إِلا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ صَاحِبَ الْمَالِ إِنْ أَعْطَى صَدَقَةً مِنْ مَالِهِ، وَإِنْ كَانَتِ الصَّدَقَةُ غَيْرَ وَاجِبَةٍ فِي مَالِهِ، فَجَائِزٌ لِلإِمَامِ أَخْذُهَا إِذَا طَابَتْ نَفْسُ الْمُعْطِي"، وَكَذَلِكَ الْفَارُوقُ لَمَّا أَعْلَمَ الْقَوْمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالصِّدِّيقَ قَبْلَهُ لَمْ يَأْخُذَا صَدَقَةَ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَطَابَتْ أَنْفُسُهُمْ بِإِعْطَاءِ الصَّدَقَةِ مِنَ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ مُتَطَوِّعِينَ جَازَ لِلْفَارُوقُ أَخْذَ الصَّدَقَةِ مِنْهُمْ، كَمَا أَبَاحَ الْمُصْطَفي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْذَ الصَّدَقَةِ مِمَّا دُونَ خَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ، وَدُونَ أَرْبَعِينَ مِنَ الْغَنَمِ، وَدُونَ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ مِنَ الْوَرِقِ
جناب حارثہ بن مضرب بیان کرتے ہیں کہ کچھ شامی لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو اُنہوں نے عرض کی کہ بیشک ہمارے پاس گھوڑے اور غلام موجود ہیں اور ہم پسند کرتے ہیں کہ ہمارے ان اموال میں زکوٰۃ وصول کی جائے۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ کام مجھ سے پہلے میرے دونوں ساتھیوں نے نہیں کیا تو میں کیسے کروں؟ پھر انہوں نے نبی مکرم کے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ ان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی تھے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ بڑی اچھی بات ہے بشرطیکہ یہ مسلسل وصول ہونے والا جزیہ نہ بن جائے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سنّت نبوی یہ ہے کہ چار اونٹوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے الاّیہ کہ ان کا مالک خود اپنی خوشی سے ادا کرنا چاہے تو لے لی جائیگی۔ بکریوں کے بارے میں آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ ”جب کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو اس میں زکوٰۃ نہیں الاّیہ کہ ان کا مالک اپنی مرضی سے ادا کرنا چاہے اور چاندی میں چالیسواں حصّہ زکوٰۃ ہے۔ پھر اگر چاندی صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں زکٰوۃ نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا مالک بخوشی ادا کرنا چاہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب صاحب مال اپنے مال کی زکوٰۃ بخوشی ادا کرے جبکہ اس میں زکوٰۃ فرض نہ بنتی ہو تو امام ان کی زکوٰۃ وصول کر سکتا ہے۔ اسی طرح جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شامی لوگوں کو آگاہ کردیا کہ ان سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ وصول نہیں کی۔ پھر اُنہوں نے اپنی خوشی سے ان کی نفلی زکوٰۃ ادا کرنی چاہی تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لئے ان کے مالوں کی زکوٰۃ وصول کرنا جائز ہوگیا۔ جیسا کہ نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ سے کم اونٹوں، چالیس سے کم بکریوں اور دو سو درہم چاندی سے کم چاندی میں زکوٰۃ وصول کرنا جائز قراردیا ہے۔