سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلّیی، عذرہ اور قضاعہ قبیلے کے خاندان بنی سعد بن ہدیم کے تمام افراد سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا تو میں نے اُن سے زکوٰۃ وصول کی حتّیٰ کہ میں اُن میں سے ایک شخص کے پاس پہنچا جس کا گھر اور علاقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منوّرہ سے سب سے قریب تھا۔ جب اُس شخص نے میرے سامنے اپنا سارا مال جمع کیا تو اس میں صرف ایک بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی) زکوٰۃ تھی تو میں نے اُس سے کہا کہ ایک سالہ اونٹنی ادا کردو، تمہاری زکوٰۃ اتنی ہی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ اس اونٹنی کا نہ دودھ ہے اور نہ وہ سواری کے قابل ہے۔ اللہ کی قسم، تم سے پہلے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے مال میں تشریف لائے ہیں اور نہ آپ کا تحصیلدار آیا ہے اور میں اپنے مال سے اللہ تعالیٰ کو ایسا جانور قرض نہیں دینا چاہتا جو نہ دودھ دیتا ہو اور نہ وہ سواری کے قابل ہو۔ لیکن تم یہ جوان موٹی تازی اونٹنی لے لو۔ میں نے کہا کہ میں وہ جانور نہیں لے سکتا جسے لینے کا مجھے حُکم نہیں ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے قریب ہی تشریف فرما ہیں۔ لہٰذا تم آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر وہی پیش کش کرلو جو تم نے مجھے کی ہے۔ اگر آپ نے وہ قبول فرمائی تو ٹھیک ہے اور اگر آپ نے واپس کردی تو بھی درست ہے۔ اُس نے کہا کہ میں یہ کام کروںگا۔ لہٰذا وہ میرے ساتھ وہی اونٹنی لیکر چل پڑا جو اُس نے مجھے پیش کی تھی۔ حتّیٰ کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے تو اُس نے آپ سے عرض کی کہ اے اللہ کے نبی، آپ کا تحصیلدار میرے پاس میرے مال کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے آیا ہے۔ اور اللہ کی قسم، میرے مال میں اس سے پہلے نہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور نہ آپ کا تحصیلدار آیا ہے۔ تو میں نے اس کے سامنے اپنے جانور جمع کیے تو اس نے کہا کہ اس میں ایک سالہ اونٹنی زکوٰۃ ہے اور اس اونٹنی کا نہ دودھ ہے اور نہ وہ سواری کے قابل ہے اور میں نے اسے اپنی جوان فربہ اور خوبصورت اونٹنی پیش کی تاکہ وہ اسے وصول کرلے مگر اس نے انکار کر دیا ہے اور وہ اونٹنی یہ ہے۔ میں اسے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے لایا ہوں لہٰذا آپ قبول فرمالیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر زکوٰۃ اتنی ہی تھی یعنی ایک، ایک سالہ اونٹنی اور اگر تم بخوشی اچھی اونٹنی دینا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا اجر عطا فرمائیگا اور ہم نے وہ اونٹنی تم سے قبول کرلی ہے۔“ اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول وہ اونٹنی یہ ہے۔ میں اسے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے لایا ہوں، آپ اسے قبول فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی وصول کرنے کا حُکم دیا اور اس کے مال میں برکت کی دعا فرمائی۔
جناب عمارہ بن عمرو بن حزم فرماتے ہیں کہ زمانے نے کروٹ بدلی حتّیٰ کہ جب سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا عہد حکو مت آیا اور انہوں نے مروان بن حکم کو مدینہ منوّرہ کا امیر بنایا تو اس نے مجھے بلّیی، عذرہ اور قضاعہ قبیلے کے خاندان بنی سعد بن ہدیم کے تمام افراد سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا تو میں اُس شخص کے پاس پہنچا (جس کا ذکر اوپر والی حدیث میں ہوا ہے) جبکہ وہ بہت بوڑھا ہوچکا تھا تو میں نے ان سے پندرہ سو اونٹوں کی زکوٰۃ تیس حقہ ان کے نر سانڈھ سمیت وصول کی۔ جناب ابن سحاق کہتے ہیں کہ ہمارے خیال میں حضرت عمارہ کا اونٹنیوں کے ساتھ نر بھی وصول کرنا سنّت ہونے کی وجہ سے تھا کہ جب کسی شخص کی زکوٰۃ تیس حقے ہو تو ان کا نربھی ساتھ وصول کیا جائے گا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے میرے لئے یہ تحریر لکھوائی ”بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ“ یہ زکوٰۃ کی فرضیت کے وہ احکام ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر واجب کیے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان کا حُکم دیا ہے پھر راویوں نے مکمّل حدیث بیان کی ہے اور یہ الفاظ بھی روایت کیے کہ زکوٰۃ کے ڈر سے الگ الگ جانوروں کو جمع نہ کیا جائے اور نہ اکٹھے جانوروں کو الگ الگ کیا جائے اور دونوں شریک زکوٰۃ کی وصولی میں برابر برابر شریک ہوں گے۔
1583. مویشیوں کو زکوٰۃ وصول کرتے وقت اپنے ٹھکانے پر منگوانا منع ہے۔ مویشیوں کی زکوٰۃ ان کے مالکوں کے ٹھکانے پر وصول کرنے کا حُکم ہے۔ انہیں تحصیل دار کے پاس مویشی لانے کا حُکم نہیں دیا جائے گا تاکہ وہ ان کی زکوٰۃ وصول کرے
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکّہ والے سال فرماتے ہوئے سنا کہ ”اے لوگو، باہمی تعاون وحمایت کے جو معاہدے جاہلیت میں ہوئے تھے تو اسلام کو مزید تقویت دیگا اور اب اسلام میں (دوسروں پر ظلم و ستم کرنے کے لئے) باہمی حمایت و نصرت کے معاہدے نہیں ہوںگے۔ تمام مسلمان کافروں کے مقابلے میں متحد و متفق ہوںگے۔ ایک ادنیٰ اور کمزور مسلمان بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے اور ان کا دُور دراز کا مسلمان بھی ان کی دی ہوئی پناہ کی پاسداری کریگا (یا ان کے آگے جانے والا لشکر پچھلے مجاہدین کو غنیمت میں شریک کریگا) اور ان کے حملہ آور مجاہدین (معسکر میں) بیٹھنے والوں کو غنیمت میں شریک کریںگے۔ مؤمن شخص کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائیگا۔ کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے آدھی ہے۔ زکوٰۃ کے لئے جانور اکٹھے کرکے تحصیلدار کے ٹھکانے پر نہیں لائے جائیںگے اور نہ ان کو ٹھکانوں سے دور لے جایا جائیگا اور جانوروں کی زکوٰۃ مالکوں کے ٹھکانوں پر ہی وصول کی جائیگی۔“ اس سند سے روایت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں آپ کے فرامین لکھ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ میں نے عرض کیا کہ آپ کے غصّے اور خوشی دونوں حالتوں میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں کیونکہ میرے لائق نہیں کہ میں دین کے بارے میں حق کے سوا کچھ کہوں۔“
والبيان ضد قول من زعم ان بين السنين قدر قيمة ما بينهما. وهذا القول إغفال من قائله، او هو خلاف سنة النبي صلى الله عليه وسلم. وكل قول خلاف سنته فمردود غير مقبول وَالْبَيَانِ ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ بَيْنَ السِّنِّيْنِ قَدْرُ قِيمَةِ مَا بَيْنَهُمَا. وَهَذَا الْقَوْلُ إِغْفَالٌ مِنْ قَائِلِهِ، أَوْ هُوَ خِلَافُ سُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَكُلُّ قَوْلٍ خِلَافَ سُنَّتِهِ فَمَرْدُودٌ غَيْرُ مَقْبُولٍ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ تحریر لکھوائی، ”بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ“ یہ زکوٰۃ کے وہ فرض احکام ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان کا حُکم دیا ہے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ”جس شخص کی زکوٰۃ جذعہ (چار سالہ اونٹ) ہو اور اس کے پاس جذعہ نہ ہو اور اس کے پاس حقہ ہو (تین سالہ اونٹ) تو اس شخص سے یہ تین سالہ اونٹ قبول کرلیا جائے اور ساتھ دو بکریاں لے لی جائیں اگر وہ میسر ہوں، وگرنہ بیس درہم وصول کرلیے جائیں۔ جناب بندار کی روایت ہے کہ ”اس کمی کی جگہ دو بکریاں لی جائیںگی۔“ اور جس کی زکوٰۃ ایک حقہ ہو اور اس کے پاس حقہ ہو بلکہ جذعہ موجود ہو تواس سے جذعہ لے لیا جائیگا اور تحصیلدار اسے بیس درہم یا دو بکریاں دے دیگا اور جس شخص کی زکوٰۃ حقہ (تین سالہ اونٹ) ہو اور اس کے پاس بنت لبون (دو سالہ اونٹنی) ہو تو اس سے دو سالہ اونٹنی قبول کرلی جائیگی اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم ادا کریگا اور جس شخص کی زکوٰۃ بنت لبون ہو اور اس کے پاس بنت لبون نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو اس سے حقہ لیکر تحصیلدار اُسے بیس درہم یا دوبکریاں ادا کر دیگا اور جس شخص کی زکوٰۃ ایک بنت لبون ہو مگر وہ اس کے پاس موجود نہ ہو اور اس کے پاس بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی) ہو تو اس سے یہی قبول کی جائیگی اور وہ اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں دیگا اور جس شخص کی زکوٰۃ بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی) ہو لیکن اس کے پاس یہ موجود نہ ہو بلکہ اس کے پاس بنت لبون (دو سالہ اونٹنی) ہو تو اس سے یہی قبول کرلی جائیگی اور تحصیلدار اسے بیس درہم یا دو بکریاں ادا کریگا اور جس شخص کے پاس بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی) نہ ہو اور اسکے پاس ابن لبون (دو سالہ اونٹ) موجود ہو تو اس سے وہ قبول کرلیا جائیگا اور ساتھ کوئی چیز ادا نہیں کی جائیگی۔“
جناب عکراش بن ذویب بیان کرتے ہیں کہ بنو مرہ بن عبید نے مجھے اپنے مال کی زکوٰۃ دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو میں مدینہ منوّرہ میں آپ کے پاس حاضر ہوا۔ میں نے آپ کو مہاجرین اور انصاری صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرما پایا۔ میں آپ کے پاس ایسے اونٹ لایا تھا گویا کہ وہ ارطی درخت کے سرخ سرخ پھل (یا جڑیں) ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم کون ہو؟“ میں نے عرض کیا عکر اش بن ذؤیب۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا اعلیٰ نسب بیان کرو۔“ میں نے کہا کہ ابن حرقوص ابن خورہ بن عمرو بن النزال بن مرہ بن عبید اور یہ بنی مرہ بن عبید کی زکوٰۃ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر فرمایا: ”یہ میری قوم کے اونٹ ہیں۔ یہ میری قوم کی زکوٰۃ ہے۔“ پھر آپ نے حُکم دیا کہ ان اونٹوں کو زکوٰۃ کے اونٹوں والی نشانی لگا دو اور زکوٰۃ کے اونٹوں میں شامل کردو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لیکر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف تشریف لے گئے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔