والبيان ضد قول من زعم ان بين السنين قدر قيمة ما بينهما. وهذا القول إغفال من قائله، او هو خلاف سنة النبي صلى الله عليه وسلم. وكل قول خلاف سنته فمردود غير مقبول وَالْبَيَانِ ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ بَيْنَ السِّنِّيْنِ قَدْرُ قِيمَةِ مَا بَيْنَهُمَا. وَهَذَا الْقَوْلُ إِغْفَالٌ مِنْ قَائِلِهِ، أَوْ هُوَ خِلَافُ سُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَكُلُّ قَوْلٍ خِلَافَ سُنَّتِهِ فَمَرْدُودٌ غَيْرُ مَقْبُولٍ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ تحریر لکھوائی، ”بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ“ یہ زکوٰۃ کے وہ فرض احکام ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان کا حُکم دیا ہے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ”جس شخص کی زکوٰۃ جذعہ (چار سالہ اونٹ) ہو اور اس کے پاس جذعہ نہ ہو اور اس کے پاس حقہ ہو (تین سالہ اونٹ) تو اس شخص سے یہ تین سالہ اونٹ قبول کرلیا جائے اور ساتھ دو بکریاں لے لی جائیں اگر وہ میسر ہوں، وگرنہ بیس درہم وصول کرلیے جائیں۔ جناب بندار کی روایت ہے کہ ”اس کمی کی جگہ دو بکریاں لی جائیںگی۔“ اور جس کی زکوٰۃ ایک حقہ ہو اور اس کے پاس حقہ ہو بلکہ جذعہ موجود ہو تواس سے جذعہ لے لیا جائیگا اور تحصیلدار اسے بیس درہم یا دو بکریاں دے دیگا اور جس شخص کی زکوٰۃ حقہ (تین سالہ اونٹ) ہو اور اس کے پاس بنت لبون (دو سالہ اونٹنی) ہو تو اس سے دو سالہ اونٹنی قبول کرلی جائیگی اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم ادا کریگا اور جس شخص کی زکوٰۃ بنت لبون ہو اور اس کے پاس بنت لبون نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو اس سے حقہ لیکر تحصیلدار اُسے بیس درہم یا دوبکریاں ادا کر دیگا اور جس شخص کی زکوٰۃ ایک بنت لبون ہو مگر وہ اس کے پاس موجود نہ ہو اور اس کے پاس بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی) ہو تو اس سے یہی قبول کی جائیگی اور وہ اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں دیگا اور جس شخص کی زکوٰۃ بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی) ہو لیکن اس کے پاس یہ موجود نہ ہو بلکہ اس کے پاس بنت لبون (دو سالہ اونٹنی) ہو تو اس سے یہی قبول کرلی جائیگی اور تحصیلدار اسے بیس درہم یا دو بکریاں ادا کریگا اور جس شخص کے پاس بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی) نہ ہو اور اسکے پاس ابن لبون (دو سالہ اونٹ) موجود ہو تو اس سے وہ قبول کرلیا جائیگا اور ساتھ کوئی چیز ادا نہیں کی جائیگی۔“