سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ایسے لوگوں کو نماز پڑھا رہے ہیں جنہیں قرآن یاد نہیں ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کام کو درست قراردیا تھا اور فرمایا تھا کہ ”انہوں نے درست یا بہت اچھا کام کیا ہے۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے حتّیٰ کہ وہ نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو اُس کے لئے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔“ اور ایک روایت میں آیا ہے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری رات ہمیں قیام کرایا، اپنے اہل وعیال اور ازواج مطہرات کو بھی جمع کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا طویل قیام کیا کہ ہمیں فلاح کے چھوٹ جانے کا ڈر پیدا ہوا۔ اور آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والے صحابہ کرام قاری اور حافظ تھے۔ وہ سب کے سب ان پڑھ نہیں تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ”جس شخص نے امام کے ساتھ قیام کیا حتّیٰ کہ امام نماز سے فارغ ہوگیا تو اُس کے لئے ساری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔“ میں اس بات کی دلیل ہے کہ قاری اور ان پڑھ شخص جب امام کے ساتھ اس کی نماز سے فارغ ہونے تک قیام کرتا ہے تو اُس کے لئے ساری رات کا قیام لکھا جاتا ہے اور ساری رات کے قیام کا ثواب کا لکھا جانا بعض رات کے قیام کے ثواب لکھے جانے سے افضل و بہتر ہے۔ جبکہ اُس نے قیام کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک کے دن میں روزہ رکھا، پانچ نمازیں باقاعدگی سے ادا کیں، زکوٰۃ ادا کی، اللہ کی توحید کی گواہی دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کیا۔
سیدنا عمرو بن مرہ جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قضاعہ قبیلے کا ایک شخص آیا تو اُس نے آپ سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، بتائیں اگر میں گواہی دوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں نماز پنجگانہ ادا کروں، رمضان المبارک کے روزے رکھوں اور قیام کروں، زکوٰۃ ادا کروں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس حالت میں فوت ہوا تو وہ صد یقین اور شہداء میں شمار ہو گا۔“
حضرت ابوسلمہ رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا، تو عرض کی کہ اماں جان، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے بارے میں بتائیں تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کی رات کی نماز رمضان المبارک اور دیگر مہینوں میں تیرہ رکعات ہی تھیں۔ یہ عبدالجبار کی روایت ہے۔ اور ابوہاشم کی روایت ہے کہ ”میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا تو میں نے اُن سے رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں سوال کیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ کی نماز تیرہ رکعت تھی۔ ان میں دو رکعات نماز فجر کی سنّتیں ہوتی تھیں۔
1529. رمضان المبارک کے آخری عشرے کی تمام راتوں میں عبادت کے لئے جاگنا مستحب ہے۔ ان راتوں میں بیویوں سے ہمبستری نہ کرنا، عبادت میں مشغول رہنا اور آدمی کا اپنے گھر والوں کو بھی جگانا مستحب ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو اپنی کمر کس لیتے اور رات کو جاگتے (خوب عبادت کرتے) اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔ جناب عبداللہ بن محمد زہری بیان کرتے ہیں کہ ہم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کوفرماتے ہوئے سنا۔