رمضان المبارک میں سفر کے دوران جن لوگوں کے لئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ان کے ابواب کا مجموعہ
1381.
1381. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکّہ والے سال (دوران سفر) صحابہ کرام کو روزہ کھولنے کا حُکم اس لئے دیا تھا کیونکہ روزہ کھولنا اُن کے لئے جنگ میں قوت و طاقت کا باعث تھا۔ یہ وجہ نہیں تھی کہ سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں
حدثنا عبد الله بن هاشم ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن معاوية ، عن ربيعة بن يزيد ، حدثني قزعة ، قال: اتيت ابا سعيد ، وهو مكثور عليه , فلما تفرق الناس عنه، قلت: لا اسالك عما يسالك هؤلاء عنه , وسالته عن الصوم في السفر , فقال: سافرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى مكة ونحن صيام , فنزلنا منزلا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم قد دنوتم من عدوكم , والفطر اقوى لكم". فكانت رخصة , فمنا من صام , ومنا من افطر. ثم نزلنا منزلا آخر , فقال:" إنكم مصبحو عدوكم , والفطر اقوى لكم , فافطروا" . فكانت عزمة، فافطرنا , ثم قال: فلقد رايتنا نصوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك في السفر. قال ابو بكر: فهذا الخبر بين واوضح ان النبي صلى الله عليه وسلم سماهم عصاة إذ عزم عليهم في الفطر ليكون اقوى لهم على عدوهم , إذ قد دنوا منهم , ويحتاجون إلى محاربتهم , فلم ياتمروا لامره ؛ لان خبر جابر في عام الفتح , وهذا الخبر في تلك السفرة , ايضا فلما عزم النبي صلى الله عليه وسلم عليهم بالفطر، ليكون الفطر اقوى لهم , فصاموا حتى كان يغشى على بعضهم , ويحتاج إلى ان يظلل , وينضح الماء عليه , فيضعفوا عن محاربة عدوهم , جاز ان يسميهم عصاة , إذ امرهم بالتقوي لعدوهم , فلم يطيعوا , ولم يتقووا لهمحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، حَدَّثَنِي قَزْعَةُ ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ ، وَهُوَ مَكْثُورٌ عَلَيْهِ , فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْهُ، قُلْتُ: لا أَسْأَلُكُ عَمَّا يَسْأَلُكَ هَؤُلاءِ عَنْهُ , وَسَأَلْتُهُ عَنِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ , فَقَالَ: سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ وَنَحْنُ صِيَامٌ , فَنَزَلْنَا مَنْزِلا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ قَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ , وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ". فَكَانَتْ رُخْصَةً , فَمِنَّا مَنْ صَامَ , وَمِنَّا مَنْ أَفْطَرَ. ثُمَّ نَزَلْنَا مَنْزِلا آخَرَ , فَقَالَ:" إِنَّكُمْ مُصَبِّحُو عَدُوِّكُمْ , وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ , فَأَفْطِرُوا" . فَكَانَتْ عَزْمَةً، فَأَفْطَرْنَا , ثُمَّ قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا نَصُومُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي السَّفَرِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذَا الْخَبَرُ بَيَّنَ وَأَوْضَحَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّاهُمْ عُصَاةً إِذْ عَزَمَ عَلَيْهِمْ فِي الْفِطْرِ لِيَكُونَ أَقْوَى لَهُمْ عَلَى عَدُوِّهِمْ , إِذْ قَدْ دَنَوْا مِنْهُمْ , وَيَحْتَاجُونَ إِلَى مُحَارَبَتِهِمْ , فَلَمْ يَأْتَمِرُوا لأَمْرِهِ ؛ لأَنَّ خَبَرَ جَابِرٍ فِي عَامِ الْفَتْحِ , وَهَذَا الْخَبَرُ فِي تِلْكَ السَّفْرَةِ , أَيْضًا فَلَمَّا عَزَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ بِالْفِطْرِ، ليَكُونُ الْفِطْرُ أَقْوَى لَهُمْ , فَصَامُوا حَتَّى كَانَ يُغْشَى عَلَى بَعْضِهِمْ , وَيَحْتَاجُ إِلَى أَنْ يُظَلَّلَ , وَيُنْضَحَ الْمَاءُ عَلَيْهِ , فَيَضْعُفُوا عَنْ مُحَارَبَةِ عَدُوِّهِمْ , جَازَ أَنْ يُسَمِّيَهُمْ عُصَاةً , إِذْ أَمْرَهُمْ بِالتَّقَوِّي لِعَدُوِّهِمْ , فَلَمْ يُطِيعُوا , وَلَمْ يَتَقَوَّوْا لَهُمْ
جناب قزعہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جبکہ اُن کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا تو جب لوگ منتشر ہوئے تو میں نے عرض کی کہ میں آپ سے ان چیزوں کے بارے میں سوال نہیں کروں گا جن کے بارے میں یہ لوگ آپ سے سوال کر رہے تھے۔ اور میں نے اُن سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ ہم نے روزہ رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّہ کی طرف سفر کیا پھر ہم ایک جگہ آرام کرنے کے لئے رُکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تم اپنے دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو اور روزہ نہ رکھنا یہ تمہارے لئے تقویت کا باعث ہے۔“ تو یہ رخصت تھی لہٰذا ہم میں سے بعض نے روزہ رکھ لیا اور کچھ افراد نے روزہ نہ رکھا۔ پھر ہم ایک اور منزل پر اُترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم صبح کے وقت دشمن کے پاس پہنچنے والے ہو اور اب تمہارا روزہ نہ رکھنا تمہارے لئے (دشمن کے مقابلے میں) طاقت کا باعث ہوگا۔ لہٰذا روزہ نہ رکھو۔ اس طرح یہ لازمی حُکم تھا تو ہم نے روزہ چھوڑ دیا۔ پھر فرماتے ہیں کہ پھر اس سفر کے بعد میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ ہم سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزہ رکھ لیتے تھے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت واضح طور پر بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نافرمان اُس وقت قراردیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں روزہ کھولنے کا وجوبی حُکم دے دیا تھا تاکہ دشمن کے مقابلے میں انہیں قوت و طاقت حاصل ہوسکے۔ کیونکہ وہ دشمن کے قریب آ چکے تھے اور ان کے ساتھ جنگ کی ضرورت تھی۔ مگر اُنہوں نے آپ کے حُکم کی تعمیل نہ کی (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نافرمان قرار دیا) کیونکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت اور یہ روایت دونوں فتح مکّہ والے سال کے سفر سے متعلق ہیں۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کھولنا اُن کے لئے ضروری قراردے دیا تاکہ روزہ کھولنا اُن کے لئے طاقت کا باعث ہو اور اُنہوں نے روزہ نہ کھولا حتّیٰ کہ ایک شخص بیہوش ہوگیا اور اس پر سایہ کرنا پڑا اور پانی کا چھڑکاؤ کرنا پڑا، اور وہ دشمن کے مقابلے کے لئے کمزورہوگئے تو ایسے وقت میں انہیں نافرمان قرار دینا درست اور جائز تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں دشمن کے مقابلے کے لئے طاقت حاصل کرنے کا حُکم دیا تھا اور اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کی اور نہ دشمن کے لئے طاقت حاصل کی۔ بے رغبتی کی وجہ سے سنّت نبوی کو ترک کرنے والے کو نافرمان قرار دینا درست ہے۔ صرف سنّت نبوی کو چھوڑنے پر نافرمان نہیں کہا جائے گا کیونکہ سنّت نبوی کو چھوڑنا معصیت ونافرمانی نہیں ہے جبکہ اس پر عمل کرنا فضیلت کا باعث ہے۔
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کے روزہ چھوڑنے کے جواز کے باب میں سیدنا انس بن مالک قشیری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نے بعد میں ذکر کی ہے۔
سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ ”اے اللہ کے رسول، میں سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں تو کیا (روزہ رکھنے کی صورت میں) مجھے کوئی گناہ ہو گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے تو جو شخص اس رخصت سے فائدہ اُٹھائے تو بہت اچھا ہے۔ اور جو شخص روزہ رکھنا پسند کرے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت کو اختیار کرو، جو رخصت اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اسے قبول کرو۔“
1385. اللہ تعالی کی اپنے مؤمن بندوں کو دی ہوئی رخصت کو قبول کرتے ہوئے رمضان المبارک میں سفر کے دوران روزہ نہ رکھنا مستحب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی اپنی رخصت کو قبول کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اُس کی رخصتوں کو اختیار کیا جائے جیسا کہ وہ پسند کرتا ہے کہ اُس کی نافرمانی ترک کر دی جائے۔“
سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا اور وہ مسلسل روزے رکھتے تھے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں اختیار ہے تم چاہو تو روزہ رکھ لو اور اگر تم چاہو تو روزہ چھوڑ دو۔“
سیدنا ابوسعید خدری اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ان دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا تو روزہ رکھنے والا روزہ رکھ لیتا اور چھوڑنے والا چھوڑدیتا۔ پھر روزہ چھوڑنے والا روزے دار پر کوئی اعتراض نہ کرتا اور نہ روزے دار روزہ چھوڑنے والے پر کوئی عیب لگاتا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ باب بڑا طویل ہے۔ میں نے اسے کتاب الکبیر میں بیان کر دیا ہے۔