یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے کہا: میں نے امام مالک سے پوچھا: سمی نے آپ کو ابوصالح کے واسطے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، وہ تم میں سے ایک (مسافر) کو سونے، کھانے اور پینے سے روک دیتا ہے، جب تم میں سے کوئی شخص وہ کام سر انجام دے چکے جو اس کے پیشِ نظر تھا تو وہ جلد اپنے گھر آئے"؟ انہوں (امام مالک) نے کہا: ہاں۔
امام مالک کے شاگرد یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے ان سے پوچھا، کیا آپ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ روایت سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر عذاب کا حصہ ہے، وہ تمہیں اپنے سونے، اپنے کھانے اور اپنے پینے سے روکتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی اس سفر سے اپنی ضرورت پوری کر لے، فورا اپنے گھر لوٹ آئے۔“ انہوں نے کہا، ہاں۔
یزید بن ہارون نے ہمام سے حدیث بیان کی، انہوں نے اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اپنے گھر والوں پر دستک نہ دیتے تھے۔ آپ (سفر سے گھر والوں کے پاس) صبح کو یا شام کو تشریف لاتے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، رات کو گھر نہیں آتے تھے، وہ ان کے پاس صبح یا شام کو تشریف لاتے تھے۔
عبدالصمد بن عبدالوارث نے کہا: ہمیں حمام نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی، البتہ انہوں نے کہا: (گھروں) داخل نہ ہوتے تھے۔
یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، صرف اتنا فرق ہے کہ اس میں لا يطرق
ہشیم نے سیار سے، انہوں نے (عامر) شعبی سے، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم ایک غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم گھروں کے اندر داخل ہونے کے لیے جانے لگے تو آپ نے فرمایا: "رک جاؤ، حتی کہ ہم (کچھ تاخیر سے) رات کے وقت، یعنی عشاء کے وقت جائین تاکہ بکھرے بالوں والی اپنے بال سنوار لے اور اور شوہر کی غیر موجودگی میں رہنے والی اپنی صفائی کرے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو جب ہم مدینہ پہنچے، ہم نے گھروں میں داخل ہونا چاہا، تو آپ نے فرمایا: ”ٹھہر جاؤ، تاکہ ہم رات کو (عشاء کے وقت) داخل ہوں، تاکہ پراگندہ بالوں والی بال درست کر لے اور جس عورت کا شوہر غائب تھا، وہ زیر ناف بال صاف کر لے۔“
عبدالصمد نے کہا: ہمیں شعبہ نے سیار سے حدیث بیان کی، انہوں نے عامر (شعبی) سے، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص رات کے وقت گھر واپس آئے تو رات کو (اچانک) اپنے گھر میں داخل نہ ہو (بلکہ اتنی دیر توقف کرے) کہ شوہر کی غیر حاضری میں رہنے والی اپنی صفائی کر لے اور الجھے بالوں والی بال سنوار لے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی رات کو سفر سے آئے، تو اچانک رات کو دروازہ کھٹکھٹائے (اتنا توقف کرے) تاکہ جس عورت کا خاوند غائب تھا، وہ زیر ناف بال صاف کر لے اور پراگندہ بال کنگھی پٹی کر لے۔“
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے عاصم سے حدیث بیان کی، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب کوئی انسان لمبا وقت گھر سے دور رہا ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رات کو اچانک گھر میں داخل ہونے سے منع فرمایا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ جب آدمی طویل عرصہ تک غائب رہے (پھر اچانک) رات کو اپنے گھر آ جائے۔
وکیع نے سفیان سے، انہوں نے محارب سے، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ انسان رات کو (اچانک) گھر والوں کے پاس جا پہنچے اور ان کو خیانت (جس طرح خاوند نے کہا ہوا ہے، اس طرح نہ رہنے) کا مرتکب سمجھے اور ان کی کمزوریاں ڈھونڈے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو اس غرض سے گھر آنے سے منع فرمایا، کہ وہ ان کی خیانت پکڑنا چاہے یا ان کی لغزشوں کا تجسس کرے۔
وحدثنيه محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان بهذا الإسناد، قال عبد الرحمن: قال سفيان: لا ادري هذا في الحديث ام لا يعني ان يتخونهم او يلتمس عثراتهم.وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: قَالَ سُفْيَانُ: لَا أَدْرِي هَذَا فِي الْحَدِيثِ أَمْ لَا يَعْنِي أَنْ يَتَخَوَّنَهُمْ أَوْ يَلْتَمِسَ عَثَرَاتِهِمْ.
عبدالرحمٰن نے کہا: ہمیں سفیان نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔ عبدالرحمٰن نے کہا: سفیان نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ "ان کو خیانت کا مرتکب سمجھے اور ان کی کمزوریاں تلاش کرے" کے الفاظ حدیث میں ہیں یا نہیں۔
امام صاحب یہی حدیث ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں یہ ہے، سفیان کہتے ہیں، مجھے معلوم نہیں، یہ ٹکڑا حدیث میں ہے یا نہیں، ”گھر والوں کا تجسس کرے یا ان کمزوریوں سے آگاہ کرے۔“