4852. ابو احوص اور سفیان نے شبیب بن غرقدہ سے، انہوں نے حضرت عروہ بارقی رضی اللہ تعالی عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، اس میں ”اجر اور غنیمت“ کا ذکر نہیں کیا اور سفیان کی حدیث (کی سند) میں ہے: انہوں نے عروہ بارقی سے سنا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
امام صاحب اپنے کئی اساتذہ کی دو سندوں سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں اور اس میں اجر و غنیمت کا ذکر نہیں ہے، عروہ بارقی کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کا ذکر سفیان کی روایت میں ہے۔
4853. عیزار بن حریث نے عروہ بن جعد (بارقی) رضی اللہ تعالی عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی روایت بیان کی اور ”اجر اور غنیمت“ کا ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی دو سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں اجر و غنیمت کا ذکر نہیں ہے۔
4854. عبیداللہ کے والد معاذ اور یحییٰ بن سعید نے شعبہ سے، انہوں نے ابوتیاح سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برکت گھوڑوں کی پیشانیوں میں ہے۔“
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برکت گھوڑوں کی پیشانی میں ہے۔“
4855. خالد بن حارث اور محمد بن جعفر نے شعبہ سے، انہوں نے ابوتیاح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، اسی (سابقہ حدیث) کے مانند۔
امام صاحب دو اساتذہ کی دو سندوں سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
وکیع نے سفیان سے، انہوں نے سلم بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑوں میں شِکال کو ناپسند فرماتے تھے۔ (شِکال کا مفہوم اگلی حدیث میں بیان ہوا ہے۔)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، گھوڑے میں شِكال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند فرماتے تھے۔
عبداللہ بن نمیر اور عبدالرزاق نے سفیان سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی۔ اور عبدالرزاق کی حدیث میں یہ اضافہ کیا: شکال یہ ہے کہ گھوڑے کے داہنے پاؤں اور بائیں ہاتھ میں سفیدی ہو یا دائیں ہاتھ اور بائیں پاؤں میں سفیدی ہو (الٹی طرف کے آگے اور پیچھے دو قدم سفید ہوں۔)
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی دو سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، عبدالرزاق کی روایت میں یہ اضافہ ہے، شِكال یہ ہے کہ گھوڑے کے دائیں پاؤں اور بائیں ہاتھ میں سفیدی ہو یا دائیں ہاتھ اور بائیں پاؤں میں ہو۔
محمد بن جعفر اور وہب بن جریر نے ہمیں شعبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ بن یزید نخعی سے، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی جس طرح وکیع کی حدیث ہے۔ اور وہب کی روایت میں (سند اس طرح) ہے: انہوں نے عبداللہ بن یزید سے روایت کی لیکن نخعی کا ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی دو سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، لیکن ابن وہب کی روایت میں عبداللہ بن یزید کی نسبت نخعی کا ذکر نہیں ہے۔
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن عمارة وهو ابن القعقاع ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تضمن الله لمن خرج في سبيله، لا يخرجه إلا جهادا في سبيلي وإيمانا بي وتصديقا برسلي، فهو علي ضامن ان ادخله الجنة او ارجعه إلى مسكنه الذي خرج منه نائلا، ما نال من اجر او غنيمة، والذي نفس محمد بيده ما من كلم يكلم في سبيل الله إلا جاء يوم القيامة كهيئته، حين كلم لونه لون دم وريحه مسك، والذي نفس محمد بيده لولا ان يشق على المسلمين ما قعدت خلاف سرية تغزو في سبيل الله ابدا، ولكن لا اجد سعة، فاحملهم ولا يجدون سعة، ويشق عليهم ان يتخلفوا عني، والذي نفس محمد بيده لوددت اني اغزو في سبيل الله، فاقتل ثم اغزو، فاقتل ثم اغزو فاقتل ".وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ وَهُوَ ابْنُ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَضَمَّنَ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ، لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَإِيمَانًا بِي وَتَصْدِيقًا بِرُسُلِي، فَهُوَ عَلَيَّ ضَامِنٌ أَنْ أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ أَرْجِعَهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ نَائِلًا، مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا مِنْ كَلْمٍ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَهَيْئَتِهِ، حِينَ كُلِمَ لَوْنُهُ لَوْنُ دَمٍ وَرِيحُهُ مِسْكٌ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْلَا أَنْ يَشُقَّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ مَا قَعَدْتُ خِلَافَ سَرِيَّةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَبَدًا، وَلَكِنْ لَا أَجِدُ سَعَةً، فَأَحْمِلَهُمْ وَلَا يَجِدُونَ سَعَةً، وَيَشُقُّ عَلَيْهِمْ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنِّي، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي أَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأُقْتَلُ ثُمَّ أَغْزُو، فَأُقْتَلُ ثُمَّ أَغْزُو فَأُقْتَلُ ".
جریر نے عمارہ بن قعقاع سے، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے خود (ایسے شخص کی) ضمانت دی ہے کہ جو شخص اس کے راستے میں نکلا، میرے راستے میں جہاد، میرے ساتھ ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کے سوا اور کسی چیز نے اسے گھر سے نہیں نکالا، اس کی مجھ پر ضمانت ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا، یا پھر اسے اس کی اسی قیام گاہ میں واپس لے آؤں گا جس سے وہ (میری خاطر) نکلا تھا، جو اجر اور غنیمت اس نے حاصل کی وہ بھی اسے حاصل ہو گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! جو زخم بھی اللہ کی راہ میں لگایا جاتا ہے (تو زخم کھانے والا) قیامت کے دن اسی حالت میں آئے گا جس حالت میں اس کو زخم لگا تھا، اس (زخم) کا رنگ خون کا ہو گا اور خوشبو کستوری کی، اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! اگر مسلمانوں پر دشوار نہ ہوتا تو میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کسی بھی لشکر سے مختلف رویہ اپناتے ہوئے (گھر میں) نہ بیٹھتا، لیکن میرے پاس اتنی وسعت نہیں ہوتی کہ میں سب مسلمانوں کو سواریاں مہیا کر سکوں اور نہ ہی ان (سب) کے پاس اتنی وسعت ہوتی ہے اور یہ بات ان کو بہت شاق گزرتی ہے کہ وہ مجھ سے پیچھے رہ جائیں۔ اس ذات کی قسم کس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! مجھے یہ پسند ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جہاد کروں اور قتل کر دیا جاؤں، پھر جہاد کروں، پھر قتل کر دیا جاؤں اور پھر جہاد کروں، پھر قتل کر دیا جاؤں۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں نکلنے والے کو ضمانت دی، جبکہ صرف اللہ کے راستہ میں جہاد کے لیے نکلتا ہے، اس پر یقین رکھتے ہوئے اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے ہوئے، وہ میری ضمانت میں ہے کہ میں اس کو جنت میں داخل کروں گا، یا اپنے جس گھر میں نکلا، اس میں اجر یا غنیمت کے ساتھ واپس لاؤں گا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، جو زخم بھی اللہ کی راہ میں لگے گا، قیامت کے دن وہ زخم اس حالت میں آئے گا، جس میں وہ لگتے وقت تھا، اس کا رنگ خون والا رنگ ہو گا اور مہک کستوری کی طرح ہو گی، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، اگر مجھے اندیشہ نہ ہوتا کہ مسلمانوں کے لیے دشواری ہو گی، تو میں کسی دستہ سے کبھی پیچھے نہ بیٹھتا، جب وہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلتا، لیکن میرے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ میں ان سب کو سواری مہیا کر سکوں اور ان کے پاس اپنے طور پر سواری حاصل کرنے کی مقدرت نہیں اور مجھ سے پیچھے رہنا ان کے لیے دشواری کا باعث ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، میں چاہتا ہوں، میں اللہ کی راہ میں جنگ لڑتے شہید ہو جاؤں (پھر زندگی ملے) پھر غزوہ میں حصہ لیتے شہید ہو جاؤں (پھر زندگی ملے) پھر جہاد کروں اور شہید ہو جاؤں۔“