ہشام دستوائی نے قتادہ سے روایت کی، کہا: ہمیں حسن نے ضبہ بن محصب عنزی سے حدیث بیان کی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "تم پر ایسے امیر لگائے جائیں گے جن میں تم اچھائیاں بھی دیکھو گے اور برائیاں بھی، جس نے (برے کاموں کو) ناپسند کیا، وہ بری ہو گیا، جس نے انکار کیا وہ بچ گیا، مگر جس نے پسند کیا اور پیچھے لگا (وہ بری ہوا نہ بچ سکا۔) " صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں، آپ نے فرمایا: "نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا جس نے دل سے ناپسند کیا اور دل سے برا جانا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واقعہ یہ ہے، تم پر ایسے حکمران مقرر کیے جائیں گے، ان کی کچھ باتوں کو تم اچھا سمجھو گے اور کچھ کو برا خیال کرو گے، تو جس نے ان کی بری باتوں کو ناپسند سمجھا تو وہ (مؤاخذہ سے) بری ہو گیا اور جس نے ان کو ماننے سے انکار کر دیا، وہ (گناہ سے) سلامت رہا، لیکن جو ان پر راضی ہو گیا اور ان کو مانا (وہ بری اور سلامت نہ رہا)“ صحابہ کرام نے پوچھا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم ان سے جنگ نہ لڑیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔“ برا جاننے سے مراد دل سے برا جاننا ہے اور انکار سے مراد دل سے انکار ہے۔
ماد بن زید نے کہا: ہمیں معلیٰ بن زیاد اور ہشام نے حسن سے حدیث بیان کی، انہوں نے ضبہ بن محصن سے، انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سابقہ حدیث کی طرح، البتہ اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں: "جس نے انکار کیا، وہ بری ہو گیا اور جس نے ناپسند کیا، وہ بچ گیا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آگے مذکورہ روایت اس فرق کے ساتھ ہے، اس میں ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے انکار کیا، وہ بری ہو گیا اور جس نے مکروہ جانا سلامت رہا۔“
ابن مبارک نے ہشام سے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے ضبہ بن محصن سے، انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر اسی کے مانند بیان کیا، سوائے ان الفاظ کے: "جس نے پسند کیا اور پیچھے لگا" یہ الفاظ بیان نہیں کیے
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آگے مذکورہ بالا روایت ہے، مگر اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں، (لیکن جو راضی ہو گیا اور پیروی کی)
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، اخبرنا عيسى بن يونس ، حدثنا الاوزاعي ، عن يزيد بن يزيد بن جابر ، عن رزيق بن حيان ، عن مسلم بن قرظة ، عن عوف بن مالك ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " خيار ائمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم، ويصلون عليكم وتصلون عليهم، وشرار ائمتكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم، وتلعنونهم ويلعنونكم، قيل: يا رسول الله، افلا ننابذهم بالسيف، فقال: لا، ما اقاموا فيكم الصلاة وإذا رايتم من ولاتكم شيئا تكرهونه، فاكرهوا عمله ولا تنزعوا يدا من طاعة ".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ رُزَيْقِ بْنِ حَيَّانَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّيْفِ، فَقَالَ: لَا، مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ وَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْ وُلَاتِكُمْ شَيْئًا تَكْرَهُونَهُ، فَاكْرَهُوا عَمَلَهُ وَلَا تَنْزِعُوا يَدًا مِنْ طَاعَةٍ ".
یزید بن یزید بن جابر نے رُزیق بن حیان سے، انہوں نے مسلم بن قرظہ سے، انہوں نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے بہترین امام (خلیفہ) وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمہارے لیے دعا کریں اور تمہارے بدترین امام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں، تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔" عرض کی گئی: اللہ کے رسول! کیا ہم ان کو تلوار کے زور سے پھینک (ہٹا) نہ دیں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، جب تک کہ وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں اور جب تم اپنے حکمرانوں میں کوئی ایسی چیز دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو اس کے عمل کو ناپسند کرو اور اس کی اطاعت سے دستکش نہ ہو
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں، تم ان کے حق میں دعائے خیر کرتے ہو وہ تمہارے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں، تم ایک دوسرے کی نماز جنازہ میں شریک ہو اور تمہارے شریر (برے) یعنی بدترین حکمران وہ ہیں جن کو تم مبغوض سمجھتے ہو اور وہ تم سے بغض و نفرت رکھتے ہوں، تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں“ ہم (صحابہ) نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم ان کی بیعت کا قلادہ اتار نہ دیں، (ان کی بیعت کو توڑ نہ دیں) اور ان کے خلاف تلوار اٹھا لیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک وہ تمہارے اندر نماز کا اہتمام کریں اور جب تم اپنے حکمرانوں کے اندر ناپسندیدہ چیز دیکھو، تو خود اس کے ارتکاب کو ناپسند سمجھو، لیکن اطاعت سے دست بردار نہ ہو۔“
حدثنا داود بن رشيد ، حدثنا الوليد يعني ابن مسلم ، حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، اخبرني مولى بني فزارة وهو رزيق بن حيان ، انه سمع مسلم بن قرظة ابن عم عوف بن مالك الاشجعي، يقول: سمعت عوف بن مالك الاشجعي ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " خيار ائمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم، وتصلون عليهم ويصلون عليكم، وشرار ائمتكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم، وتلعنونهم ويلعنونكم، قالوا: قلنا يا رسول الله، افلا ننابذهم عند ذلك؟، قال: لا، ما اقاموا فيكم الصلاة، لا ما اقاموا فيكم الصلاة الا من ولي عليه، وال فرآه ياتي شيئا من معصية الله، فليكره ما ياتي من معصية الله، ولا ينزعن يدا من طاعة "، قال ابن جابر: فقلت: يعني لرزيق حين حدثني بهذا الحديث آلله يا ابا المقدام لحدثك بهذا او سمعت هذا من مسلم بن قرظة، يقول: سمعت عوفا، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فجثا على ركبتيه واستقبل القبلة، فقال: إي والله الذي لا إله إلا هو لسمعته من مسلم بن قرظة، يقول: سمعت عوف بن مالك، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم،حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، أَخْبَرَنِي مَوْلَى بَنِي فَزَارَةَ وَهُوَ رُزَيْقُ بْنُ حَيَّانَ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُسْلِمَ بْنَ قَرَظَةَ ابْنَ عَمِّ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ، قَالُوا: قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ؟، قَالَ: لَا، مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ، لَا مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ أَلَا مَنْ وَلِيَ عَلَيْهِ، وَالٍ فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلْيَكْرَهْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ "، قَالَ ابْنُ جَابِرٍ: فَقُلْتُ: يَعْنِي لِرُزَيْقٍ حِينَ حَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ آللَّهِ يَا أَبَا الْمِقْدَامِ لَحَدَّثَكَ بِهَذَا أَوْ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَوْفًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَسَمِعْتُهُ مِنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
داود بن رُشید نے کہا: ہمیں ولید بن مسلم نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے بنو فزارہ کے آزاد کردہ غلام رزیق بن حیان نے خبر دی کہ انہوں نے عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کے چچا زاد مسلم بن قرظہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "تمہارے بہترین امام (حکمران) وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمہارے لیے دعا کریں۔ اور تمہارے بدترین امام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں اور تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔" (حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے) کہا: صحابہ نے عرض کی: کیا ہم ایسے موقع پر ان کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، سن رکھو! جس پر کسی شخص کو حاکم بنایا گیا، پھر اس نے اس حاکم کو اللہ کی کسی معصیت میں مبتلا دیکھا تو وہ اللہ کی اس معصیت کو برا جانے اور اس کی اطاعت سے ہرگز ہاتھ نہ کھینچے۔" ابن جابر نے کہا: میں نے رزیق سے، جب انہوں نے مجھے یہ حدیث بیان کی، پوچھا: ابو مقدام! میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، واقعی انہوں نے یہ حدیث آپ کو بیان کی، یا آپ نے مسلم بن قرظہ سے سنی جبکہ وہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے عوف (بن مالک) رضی اللہ عنہ سے سنی اور وہ یہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا؟ کہا: تو وہ (رزیق) دو زانو بیٹھ گئے اور قبلے کی طرف منہ کر لیا اور کہا: اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں! میں نے یہ حدیث مسلم بن قرظہ سے سنی، وہ کہہ رہے تھے: میں نے عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”تمہارے بہترین امام (حکمران) وہ ہیں، جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور تم ان کے حق میں دعائے خیر کرتے ہو اور وہ تمہارے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں اور تمہارے بدترین یا برے حکمران وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت برساتے ہیں۔“ تو ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس حالت میں ان کی بیعت کو توڑ نہ ڈالیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک وہ تمہارے اندر نماز کا اہتمام کریں، نہیں جب تک وہ تمہارے اندر نماز کا اہتمام اور بندوبست کریں، خبردار جس پر کوئی حکمران بنا اور اس نے اسے اللہ کی کسی نافرمانی کا ارتکاب کرتے دیکھا، تو وہ جس معصیت کا ارتکاب کرتا ہے، اس کو برا سمجھے اور ہرگز اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔“ ابن جابر بیان کرتے ہیں، جب رزیق نے مجھے یہ حدیث سنائی، تو میں نے پوچھا، اے ابو القاسم! تمہیں اللہ کی قسم! کیا تمہیں انہوں نے یہ حدیث سنائی، یا تو نے مسلم بن قرظہ سے حدیث سنی اور انہوں نے کہا، میں نے عوف ؓ سے یہ کہتے ہوئے سنا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، تو وہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور قبلہ کی طرف رخ کر کے کہنے لگے، ہاں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے، میں نے مسلم بن قرظہ کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں نے عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو کہتے ہوئے سنا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
اسحٰق بن موسیٰ انصاری نے کہا: ہمیں ولید بن مسلم نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن جابر نے اسی سند سے خبر دی اور کہا: بنو گزارہ کے آزاد کردہ غلام رزیق۔ امام مسلم نے کہا: یہ حدیث معاویہ بن صالح نے بھی ربیعہ بن یزید سے روایت کی، انہوں نے مسلم بن قرظہ سے، انہوں نے عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں۔اور امام صاحب فرماتے ہیں، یہی روایت معاویہ بن صالح نے بھی اپنی سند سے بیان کی ہے۔
لیث نے ابوزبیر سے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: حدیبیہ کے دن ہم ایک ہزار چار سو تھے، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ وہ ببول (کیکر) کا درخت تھا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے اس بات پر آپ سے بیعت کی کہ ہم فرار نہ ہوں گے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر موت کی بیعت نہیں کی
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حدیبیہ کے دن چودہ سو (1400) افراد تھے، تو ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت ایک کیکر کے درخت کے نیچے کی، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آپ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ہم نے بیعت اس شرط پر کی تھی کہ میدان سے بھاگیں گے نہیں اور ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت نہیں کی تھی۔
سفیان نے ابوزبیر سے، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مر جانے پر بیعت نہیں کی، ہم نے آپ سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ ہم فرار نہ ہوں گے
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت نہیں کی تھی، ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اس بات پر بیعت کی تھی کہ ہم بھاگیں گے نہیں۔
محمد بن حاتم نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حجاج نے ابن جریج سے حدیث سنائی، کہا: مجھے ابوزبیر نے بتایا کہ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے پوچھا گیا تھا کہ حدیبیہ کے دن آپ لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟ انہوں نے کہا: ہم چودہ سو تھے، ہم نے ایک درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا ہاتھ تھام رکھا تھا، وہ ببول کا درخت تھا، ہم سب نے آپ سے بیعت کی سوائے جد بن قیس انصاری کے، (اس نے آپ سے بیعت نہیں کی) وہ اپنے اونٹ کے پیٹ کے نیچے چھپ گیا
ابو زبیر بیان کرتے ہیں، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا گیا، حدیبیہ کے دن صحابہ کرام کی تعداد کتنی تھی؟ انہوں نے بتایا، ہم چودہ سو (1400) تھے، تو ہم نے آپ سے بیعت کی اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک درخت کے نیچے آپ کا دست مبارک پکڑے ہوئے تھے اور یہ کیکر کا درخت تھا، جد بن قیس انصاری کے سوا ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، وہ اپنے اونٹ کے پیٹ کے نیچے چھپ گیا تھا۔
وحدثني إبراهيم بن دينار ، حدثنا حجاج بن محمد الاعور مولى سليمان بن مجالد، قال: قال ابن جريج : واخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابرا يسال " هل بايع النبي صلى الله عليه وسلم بذي الحليفة؟، فقال: لا، ولكن صلى بها، ولم يبايع عند شجرة إلا الشجرة التي بالحديبية "، قال ابن جريج: واخبرني ابو الزبير، انه سمع جابر بن عبد الله يقول: دعا النبي صلى الله عليه وسلم على بئر الحديبية.وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ دِينَارٍ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ مَوْلَى سُلَيْمَانَ بْنِ مُجَالِدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : وَأَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا يَسْأَلُ " هَلْ بَايَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ؟، فَقَالَ: لَا، وَلَكِنْ صَلَّى بِهَا، وَلَمْ يُبَايِعْ عِنْدَ شَجَرَةٍ إِلَّا الشَّجَرَةَ الَّتِي بِالْحُدَيْبِيَةِ "، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بِئْرِ الْحُدَيْبِيَةِ.
مجھے ابراہیم بن دینار نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سلیمان بن مجالد کے آزاد کردہ غلام حجاج بن محمد اعور نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ابن جریج نے کہا: مجھے ابوزبیر نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے سوال کیا گیا تھا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں بیعت لی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں، البتہ آپ نے وہاں نماز پڑھی تھی اور حدیبیہ کے درخت کے سوا آپ نے کسی اور درخت کے نیچے بیعت نہیں لی۔ ابن جریج نے کہا: انہیں ابوزبیر نے یہ بتایا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ یہ کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے کنویں پر دعا کی تھی
ابو زبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا گیا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں بیعت لی تھی؟ انہوں نے جواب دیا، نہیں، لیکن وہاں نماز پڑھی تھی اور حدیبیہ کے درخت کے سوا آپ نے کسی درخت کے پاس بیعت نہیں لی اور ابن جریج بیان کرتے ہیں اور مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے کنواں پر دعا کی تھی۔