4791. عبدالوارث نے ہمیں جعد سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو رجاء عطاردی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو اپنے امیر کی کوئی بات بری لگے، وہ اس پر صبر کرے، کیونکہ لوگوں میں سے جو شخص بھی سلطان (کی اطاعت) سے ایک بالشت بھی باہر نکلا اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے امیر کی کسی بات کو ناپسند کیا، وہ اس (ناگواری) کو برداشت کرے، (اطاعت نہ چھوڑے) کیونکہ جو انسان بھی سلطان (اقتدار و حکومت) سے ایک بالشت بھر نکلتا ہے اور اسی حالت میں مر جاتا ہے، تو وہ جاہلیت کے دور کی موت مرتا ہے۔“
4792. حضرت جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اندھے (قومی، نسلی، لسانی) تعصب کے کسی جھنڈے کے نیچے لڑا، عصبیت کی پکار لگاتے ہوئے، یا عصبیت (والوں) کی حمایت کرتے ہوئے تو (یہ) جاہلیت کی موت ہو گی۔“
حضرت جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اندھے جھنڈے تلے قتل کر دیا جاتا ہے، تعصب کی دعوت دیتا ہے، یا تعصب کی بنا پر مدد کرتا ہے، تو اس کی موت جاہلیت کے زمانہ کی موت ہے۔“
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا عاصم وهو ابن محمد بن زيد ، عن زيد بن محمد ، عن نافع ، قال: " جاء عبد الله بن عمر إلى عبد الله بن مطيع، حين كان من امر الحرة ما كان زمن يزيد بن معاوية، فقال: اطرحوا لابي عبد الرحمن وسادة، فقال: إني لم آتك لاجلس اتيتك لاحدثك حديثا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقوله: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية "،حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: " جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ، حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ آتِكَ لِأَجْلِسَ أَتَيْتُكَ لِأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً "،
4793. زید بن محمد نے نافع سے روایت کی، انہوں نے کہا: یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں جب حَرہ کے واقعے میں جو ہوا سو ہوا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما عبداللہ بن مطیع کے پاس گئے، اس نے کہا: ابو عبدالرحمٰن! (حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی کنیت) کے لیے گدا بچھاؤ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: میں اس لیے تمہارے پاس نہیں آیا، میں تمہارے پاس (صرف) اس لیے آیا ہوں کہ تم کو ایک حدیث سناؤں جو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے (مسلمانوں کے حکمران کی) اطاعت سے ہاتھ کھینچا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حال میں حاضر ہو گا کہ اس کے حق میں کوئی دلیل نہ ہو گی اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی (مسلمان حکمران) کی بیعت نہیں تھی تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“
نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما، یزید بن معاویہ کے دور میں، جب حرہ کا واقعہ پیش آیا، جیسے بھی ہوا، عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے، تو اس نے کہا، ابو عبدالرحمٰن کے لیے تکیہ رکھو، تو ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا، میں تیرے پاس بیٹھنے کے لیے نہیں آیا، میں تو تمہیں وہ حدیث سنانے آیا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جس نے اطاعت سے ہاتھ نکالا، وہ قیامت کے دن اللہ کو اس حال میں ملے گا، کہ اس کے پاس (عذر کے لیے) کوئی دلیل نہیں ہو گی اور جو اس حال میں مرے گا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہیں ہو گی، وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“
4794. بکیر بن عبداللہ بن اشج نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ وہ ابن مطیع کے پاس گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح حدیث روایت کی۔
امام صاحب یہ حدیث اپنے ایک اور استاد کی سند سے بیان کرتے ہیں۔
4795. زید کے والد اسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے ہم معنی حدیث روایت کی جو نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سندوں سے مذکورہ روایت کے ہم معنی حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ہی سے بیان کرتے ہیں۔
شعبہ نے زیاد بن علاقہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے عَرفجہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جلد ہی فتنوں پر فتنے برپا ہوں گے، تو جو شخص اس امت کے معاملے (نظام سلطنت) کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہے جبکہ وہ متحد ہو تو اسے تلوار کا نشانہ بنا دو، وہ جو کوئی بھی ہو، سو ہو
حضرت عرفجہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ”واقعہ یہ ہے کہ یقینا ناپسندیدہ امور اور فتنوں کا ظہور ہو گا، تو جو انسان اس امت کے اتحاد و وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا ارادہ کرے، تلوار سے اس کی گردن اڑا دینا، خواہ وہ کسی درجہ کا مالک ہو۔“
ابو عوانہ، شیبان، اسرائیل، عبداللہ بن مختار اور ایک آدمی جس کا حماد نے نام لیا تھا، ان سب نے زیاد بن علاقہ سے، انہوں نے حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت بیان کی، مگر ان سب کی حدیث میں: "اسے قتل کر دو" کے الفاظ ہیں
امام صاحب اپنے چار اساتذہ کی چار سندوں سے حضرت عرفجہ ؓ کی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، صرف یہ فرق ہے کہ یہ اساتذہ فاضربوه
ابو یعفور نے حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جب تمہارا نظام (حکومت) ایک شخص کے ذمے ہو، پھر کوئی تمہارے اتحاد کی لاٹھی کو توڑنے یا تمہاری جماعت کو منتشر کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے تو اسے قتل کر دو
حضرت عرفجہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا، ”جو انسان تمہارے پاس آئے، جبکہ تم ایک دوسرے آدمی (امیر) پر متفق ہو اور وہ تم میں اختلاف پیدا کرنا چاہے، تمہارے اتحاد کی لاٹھی (قوت) کو توڑنا چاہیے، یا تمہاری جمعیت میں تفریق پیدا کرے تو اسے قتل کر دو۔“
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب دو خلیفوں کے لیے بیعت لی جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کر دو
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو خلیفوں کی بیعت کر لی جائے، تو ان میں سے دوسرے کو قتل کر دو۔“
16. باب: اگر امیر شرع کے خلاف کوئی کام کرے تو اس کو برا جاننا چاہیئے۔
Chapter: The obligation to denounce rulers for that in which they go against Shari'ah, but they should not be fought so long as they pray regularly, etc
ہمام بن یحییٰ نے کہا: ہمیں قتادہ نے حسن سے حدیث بیان کی، انہوں نے ضبہ بن محصن سے، انہوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جلد ہی ایسے حکمران ہوں گے کہ تم انہیں (کچھ کاموں میں) صحیح اور (کچھ میں) غلط پاؤ گے۔ جس نے (ان کی رہنمائی میں) نیک کام کیے وہ بَری ٹھہرا اور جس نے (ان کے غلط کاموں سے) انکار کر دیا وہ بچ گیا لیکن جو ہر کام پر راضی ہوا اور (ان کی) پیروی کی (وہ بَری ہوا نہ بچ سکا۔) " صحابہ نے عرض کی: کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں (جنگ نہ کرو
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقینا ایسے حکمران ہوں گے، وہ معروف اور منکر، اچھے برے دونوں قسم کے کام کریں گے، جس نے (اچھے برے کی) شناخت کر لی، وہ بری ہو گیا اور جس نے منکر کا انکار کیا، وہ (گناہ سے) سلامت رہا، لیکن جس نے برے کاموں پر رضا مندی کا اظہار کیا اور ان کی پیروی کی (وہ سلامت نہ رہا)“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا، کیا ہم ان سے جنگ نہ لڑیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔“