سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس دوران جب کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے تو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ (مسجد میں) داخل ہوئے، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا کنایہ کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اذان کے بعد تاخیر سے آتے ہیں؟ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے امیر المؤمنین، جب میں نے اذان سنی تو صرف وضو ہی کیا ہے (اور کوئی کام نہیں کیا) پھر مسجد میں آگیا ہوں ـ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، صرف وضو ہی کرکے آئے ہو ـ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ ”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے آئے تو اُسے چاہیے کہ غسل کرے“ جناب ولید کی روایت میں ہے کہ وہ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے۔ کہ یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ ”جمعہ کے دن۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ منبر پر کھڑے فرما رہے تھے: ”تم میں سے جو شخص جمعہ کے لئے آئے تو اُسے غسل کرنا چاہیے ـ“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا جب کہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے آئے تو اُسے غسل کرلینا چاہیے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے: ”جب تم میں سے کوئی شخص (جمعہ کے لئے) مسجد میں آئے تو اُسے غسل کرلینا چاہیے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردوں اور عورتوں میں سے جو شخص جمعہ کے لئے آئے اُسے غسل کر لینا چاہیے اور جو مرد یا عورت جمعہ کے لئے نہ آئے تو اُس پر غسل کرنا واجب نہیں ہے۔“ یہ جناب ابن ارفع کی حدیث ہے ـ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ لوگ اپنے کام کاج خود ہی کرتے تھے، تو وہ جمعہ کے لئے اپنی اسی حالت میں چلے جاتے تو اُنہیں حُکم دیا گیا کہ اگر تم غسل کرلیا کرو تو بہتر ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ لوگ عوالی مقام سے اپنے گھروں سے جمعہ کے لئے آتے تھے۔ وہ چوغے پہن کر آتے تھے۔ (راستے میں) اُن پر گرد وغبار پڑتا اور اُنہیں پسینہ آجاتا تو اُن کے جسموں سے بُو نکلنے لگتی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اُن میں سے ایک شخص آیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف فرما تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اپنے اس دن (جمعہ) کے لئے غسل کر لیا کرو تو بہت بہتر ہو گا۔“
حدثنا الربيع بن سليمان المرادي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرنا سليمان وهو ابن بلال , عن عمرو وهو ابن ابي عمرو مولى المطلب , عن عكرمة ، عن ابن عباس ، ان رجلين من اهل العراق، اتياه فسالاه عن الغسل يوم الجمعة اواجب هو؟ فقال لهما ابن عباس: من اغتسل فهو احسن واطهر , وساخبركم لماذا بدا الغسل: كان الناس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم محتاجين , يلبسون الصوف , ويسقون النخل على ظهورهم , وكان المسجد ضيقا , مقارب السقف , فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة في يوم صائف شديد الحر , ومنبره قصير , إنما هو ثلاث درجات , فخطب الناس , فعرق الناس في الصوف , فثارت ارواحهم ريح العرق والصوف حتى كان يؤذي بعضهم بعضا , حتى بلغت ارواحهم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر , فقال:" ايها الناس , إذا كان هذا اليوم فاغتسلوا , وليمس احدكم اطيب ما يجد من طيبه او دهنه" حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ بِلالٍ , عَنْ عَمْرٍو وَهُوَ ابْنُ أَبِي عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ , عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، أَتَيَاهُ فَسَأَلاهُ عَنِ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوَاجِبٌ هُوَ؟ فَقَالَ لَهُمَا ابْنُ عَبَّاسٍ: مَنِ اغْتَسَلَ فَهُوَ أَحْسَنُ وَأَطْهَرُ , وَسَأُخْبِرُكُمْ لِمَاذَا بَدَأَ الْغُسْلُ: كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجِينَ , يَلْبَسُونَ الصُّوفَ , وَيَسْقُونَ النَّخْلَ عَلَى ظُهُورِهِمْ , وَكَانَ الْمَسْجِدُ ضَيِّقًا , مُقَارِبَ السَّقْفِ , فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ شَدِيدِ الْحَرِّ , وَمِنْبَرُهُ قَصِيرٌ , إِنَّمَا هُوَ ثَلاثُ دَرَجَاتٍ , فَخَطَبَ النَّاسَ , فَعَرِقَ النَّاسُ فِي الصُّوفِ , فَثَارَتْ أَرْوَاحُهُمْ رِيحَ الْعَرَقِ وَالصُّوفِ حَتَّى كَانَ يُؤْذِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا , حَتَّى بَلَغَتْ أَرْوَاحُهُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ , إِذَا كَانَ هَذَا الْيَوْمُ فَاغْتَسِلُوا , وَلْيَمَسَّ أَحَدُكُمْ أَطْيَبَ مَا يَجِدُ مِنْ طِيبِهِ أَوْ دُهْنِهِ"
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اُن کے پاس دو عراقی شخص آئے اور اُنہوں نے آپ سے جمعہ کے دن غسل کرنے کے متعلق پوچھا، کیا وہ واجب ہے؟ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اُنہیں جواب دیا کہ جس شخص نے غسل کیا تو وہ زیادہ بہتر اور زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے ـ اور میں عنقریب تمہیں بتاؤں گا کہ (جمعہ کے روز) غسل کرنے کا حُکم کیسے شروع ہوا ـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں لوگ ضرورت مند اور غریب تھے ـ وہ اُونی کپڑے پہنتے تھے اور اپنی کھجوروں کو اپنی کمر پر پانی اُٹھا اُٹھا کر سیراب کرتے تھے اور مسجد نبوی تنگ تھی اور چھت بھی بلند نہ تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موسم گرما کے ایک شدید گرم دن میں جمعہ کے روز گھر سے تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر بھی چھوٹا سا تھا، صرف تین سیٹرھیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا تو لوگوں کو اُونی لباس میں پسینہ آگیا، اُون اور پسینہ کی ملی جُلی ان کی بُو پھیل گئی۔ حتّیٰ کہ وہ ایک دوسرے کے لئے اذیت کا باعث بن گئے۔ یہاں تک کہ اُن کی بُو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچ گئی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو، جب یہ دن ہو تو غسل کیا کرو اور تم میں کسی شخص کو جو اچھی خوشبو یا تیل مہیا ہو تو وہ اسے لگا لے۔“