نا محمد بن يحيى ، نا محمد بن عثمان الدمشقي ، حدثنا سعيد بن بشير ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن سمرة بن جندب ، قال:" امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نرد على ائمتنا السلام , وان نتحاب , وان يسلم بعضنا على بعض" . قال ابو بكر: قال الله تبارك وتعالى: وإذا حييتم بتحية فحيوا باحسن منها او ردوها سورة النساء آية 86 , وفي خبر جابر بن سمرة: ثم يسلم على من عن يمينه، وعلى من عن شماله، دلالة على ان الإمام يسلم من الصلاة عند انقضائها على من عن يمينه من الناس إذا سلم عن يمينه، وعلى من عن شماله إذا سلم عن شماله، والله عز وجل امر برد السلام على المسلم في قوله: وإذا حييتم بتحية فحيوا باحسن منها او ردوها سورة النساء آية 86، فواجب على الماموم رد السلام على الإمام إذا الإمام سلم على الماموم عند انقضاء الصلاةنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَرُدَّ عَلَى أَئِمَّتِنَا السَّلامَ , وَأَنْ نَتَحَابَّ , وَأَنْ يُسَلِّمَ بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا سورة النساء آية 86 , وَفِي خَبَرِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ: ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى مَنْ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَلَى مَنْ عَنْ شِمَالِهِ، دِلالَةً عَلَى أَنَّ الإِمَامَ يُسَلِّمُ مِنَ الصَّلاةِ عِنْدَ انْقِضَائِهَا عَلَى مَنْ عَنِ يَمِينِهِ مِنَ النَّاسِ إِذَا سَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَلَى مَنْ عَنْ شِمَالِهِ إِذَا سَلَّمَ عَنْ شِمَالِهِ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَ بِرَدِّ السَّلامِ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي قَوْلِهِ: وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا سورة النساء آية 86، فَوَاجِبٌ عَلَى الْمَأْمُومِ رَدُّ السَّلامِ عَلَى الإِمَامِ إِذَا الإِمَامُ سَلَّمَ عَلَى الْمَأْمُومِ عِنْدَ انْقِضَاءِ الصَّلاةِ
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ہم اپنے اماموں کے سلام کا جواب دیں، باہمی محبت و الفت کریں اور ایک دوسرے کو سلام کریں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے «وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا» [ سورة النساء: 86 ]” اور جب تمہیں سلام کہا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا وہی لوٹا دو -“ اور سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ پھر اپنی دائیں جانب والوں اور اپنی بائیں جانب والوں کو سلام کہے - یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام جب نماز کے اختتام پر اپنی دائیں طرف سلام پھیرے گا تو اپنی دائیں جانب والے لوگوں کو سلام کہے گا اور جب اپنی بائیں جانب سلام پھیرے گا تو اپنی بائیں جانب والے لوگوں کو سلام کہے گا - اور اللہ تعالیٰ نے مسلمان شخص کے سلام کا جواب دینے کا حُکم دیا ہے - ارشاد باری تعالیٰ ہے «وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا» [ سورة النساء: 86 ]”اور جب تمہیں سلام کہا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا وہی لوٹا دو۔“ چنانچہ مقتدی کو امام کے سلام کا جواب دینا واجب ہے کیونکہ امام نے نماز کے اختتام پر سلام پھیرتے وقت مقتدیوں ہی کو سلام کہا ہے۔
وفيه دليل ايضا ان الإمام إذا سلم عن يمينه، والمامومين الذين عن يساره إذا سلم عن يساره وَفِيهِ دَلِيلٌ أَيْضًا أَنَّ الْإِمَامَ إِذَا سَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ، وَالْمَأْمُومِينَ الَّذِينَ عَنْ يَسَارِهِ إِذَا سَلَّمَ عَنْ يَسَارِهِ
اور اس میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ جب امام اپنی دائیں جانب سلام پھیرے گا (تو اپنی دائیں جانب والے مقتدیوں کو سلام کہے گا) اور جب بائیں جانب سلام پھیرے گا تو اپنی بائیں جانب والے مقتدیوں کو سلام کہے گا
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے دیکھا حتّیٰ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک کی سفیدی دکھائی دینے لگتی۔ تو جناب زہری رحمه الله فر ماتے ہیں کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی صورت میں نہیں سنی گئی۔ تو جناب اسماعیل بن محمد کہتے ہیں کہ کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث سنی ہیں؟ اُنہوں نے کہا کہ نہیں۔ پوچھا گیا، تو کیا دو تہائی سُنی ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پوچھا گیا تو کیا آدھی سن لی ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس پر جناب اسماعیل نے فرمایا، تو یہ حدیث اس آدھی تعداد میں سے ہے جو نہیں سُنی گئی۔
سیدنا یزید بن اسود عامری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے حج میں شریک ہوا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد خیف میں فجر کی نماز پڑھی - پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمّل کی اور سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے پیچھے دو آدمی دیکھے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص شیطان کے لئے اپنے نفس سے حصّہ مقرر نہ کرے کہ وہ صرف دائیں طرف ہی پھرنے کو اپنے لئے صحیح اور ضروری سمجھے - میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کو اکثر اپنی بائیں طرف پھرتے ہوئے دیکھا ہے۔
إذا لم يكن مقابله من قد فاته بعض صلاة الإمام فيكون مقابل الإمام إذا قام يقضي. إِذَا لَمْ يَكُنْ مُقَابِلُهُ مَنْ قَدْ فَاتَهُ بَعْضُ صَلَاةِ الْإِمَامِ فَيَكُونَ مُقَابِلَ الْإِمَامِ إِذَا قَامَ يَقْضِي.
جبکہ اس کے سامنے کوئی ایسا شخص نہ ہو جس کی کچھ نماز امام کے ساتھ فوت ہوگئی ہو۔ لہٰذا جب وہ کھڑے ہو کر اپنی نماز مکمّل کرے گا تو وہ امام کے سامنے ہوگا
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، پھر جب سلام پھیرا تو ہماری طرف اپنا چہرہ مبارک کر کے متوجہ ہوئے -
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو ہماری طرف اپنے چہرہ مبارک کے ساتھ متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اے لوگو، میں تمھارا امام ہوں تو تم مجھ سے پہلے نہ رکوع کیا کرو نہ سجدہ - تم قیام، قعود اور نماز سے فارغ ہونے میں مجھ پر سبقت نہ کیا کرو اور بلاشبہ میں اپنے پیچھے بھی دیکھتا ہوں، اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم وہ چیز دیکھ لو جو میں نے دیکھی ہے تو تم لوگ بہت کم ہنسو اور بہت زیادہ رونے لگو۔ ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ نے کیا دیکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنّت اور جنّہم دیکھی ہے۔“ یہ جناب ہارون کی روایت ہے۔ اور جناب علی بن مسہر کی روایت میں ”قعود“ کے الفاظ نہیں ہیں اور یہ الفاظ موجود ہیں کہ ”بیشک میں تمہیں اپنے سامنے اور اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں -“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ ہلکی مگر مکمّل نماز پڑھاتے تھے - سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں ادا کیں - آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے ہی اُٹھ کر چلے جاتے تھے - پھر میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نمازیں ادا کیں تو وہ جب سلام پھیرتے تو اپنی جگہ سے اُچھل کر کھڑے ہو جاتے گویا کہ وہ گرم پتھر سے اُٹھے ہوں - جناب علی بن عبدالرحمان نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے ہلکی اور مختصر نماز پڑھاتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه ﷲ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے، اسے عبداﷲ بن فروخ کے سوا کوئی راوی بیان نہیں کرتا۔
1152. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سلام پھیرتے ہی اُٹھ جاتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے عورتیں نہیں ہوتی تھیں
واستحباب ثبوت الإمام جالسا إذا كان خلفه نساء ليرجع النساء قبل ان يلحقهم الرجال. وَاسْتِحْبَابِ ثُبُوتِ الْإِمَامِ جَالِسًا إِذَا كَانَ خَلْفَهُ نِسَاءٌ لِيَرْجِعَ النِّسَاءُ قَبْلَ أَنْ يَلْحَقَهُمُ الرِّجَالُ.
امام کا اُس وقت بیٹھے رہنا مستحب ہے جب اس کے پیچھے عورتیں ہوں تاکہ وہ مردوں کے ملنے سے پہلے واپس لوٹ جائیں