عبد الرحمٰن بن جبیر روایت کرتے ہیں سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جبکہ وہ اپنے دروازے پر کھڑے اپنے ہاتھ سے اشارے کر رہے تھے گویا کہ وہ خود سے باتیں کر رہے ہوں۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا کہ اے ابوعبدالرحمٰن، آپ کو کیا ہوا ہے کہ آپ اپنے آپ سے باتیں کر رہے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا، مجھے کیا ہوا ہے، کیا اللہ کا دشمن (شیطان) مجھے اس کلام سے غافل کر دینا چاہتا ہے جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آپ کافی عرصے سے گھر میں بیٹھے مشکلات برداشت کر رہے ہیں، کیا آپ مجلس میں جاکر گفتگو نہیں کریں گے۔ جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس شخص نے اللہ کہ راہ میں جہاد کیا تو اُس کی ضمانت اللہ کے ذمہ ہے۔ اور جس شخص نے بیمار آدمی کی تیمارداری کی وہ اللہ تعالیٰ کی ضمانت میں ہے۔ اور جو شخص مسجد کی طرف صبح کے وقت گیا یا شام کے وقت گیا تو اللہ کے ذمہ میں ہے۔ اور جو شخص امام کی بیمار پرسی کے لئے گیا تو اُس کی ضمانت اللہ پر ہے۔ اور جو شخص اپنے گھر میں بیٹھا رہا اُس نے کسی شخص کی برائی کے ساتھ غیبت نہ کی تو وہ اللہ کی ضمانت میں ہے۔ تو یہ اللہ کا دشمن (ابلیس) مجھے میرے گھر سے نکال کر مجلس میں لے جانا چاہتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صبح یا شام کے وقت مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنّت میں مہمان نوازی تیار کر دیتا ہے، جب بھی وہ صبح یا شام کو مسجد کی طرف جاتا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے ہر عضو پر ہر روز صدقہ واجب ہے۔“ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ یہ سخت ترین حُکم ہے جو آپ نے ہمیں دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا نیکی کا حُکم دینا اور بُرائی سے روکنا صدقہ ہے۔ کمزور آدمی کا بو جھ اُٹھانا تیرے لئے صدقہ ہے۔ تمہارا راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا صدقہ ہے۔ اور ہر قدم جسے تم نماز کی طرف اُٹھاتے ہو وہ صدقہ ہے۔“
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اندھیرے میں مساجد کی طرف چل کر جانے والوں کو قیامت کے دن مکمّل نور کی خوش خبری دی جاتی ہے۔“
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اندھیروں میں (مساجد کی طرف نماز کے لئے) چل کرجانے والوں کو مکمّل نور کی خوشخبری دے دو۔“
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کا گھر مدینہ منوّرہ میں سب گھروں سے دُور تھا۔ مگر اُس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُس کی نماز باجماعت فوت نہیں ہوتی تھی، تو مجھے اس پر بڑا ترس آیا (کہ اتنی مشقّت برداشت کرتا ہے) میں نے (اس سے) کہا کہ اے فلاں، اگر تم ایک گدھا خرید لو، جو تمہیں گرمی کی تپش سے بچائے، پتھروں سے زخمی ہونے سے تمہیں محفوظ کرے اور تمہیں زمینی زہریلے کیڑے مکوڑوں سے بچالے (تو یہ کام بہت اچھا ہے) اُس نے کہا کہ اللہ کی قسم، بیشک میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ میرا گھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے ساتھ متصل ہو۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات مجھ پر بڑی گراں گزری، حتّیٰ کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ بات ذکر کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بلاکر اس بارے میں پوچھا تو اُس نے آپ کو بھی وہی بات کہی۔ اور یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے اس کام میں اجروثواب کی امید رکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”بیشک تمہیں تمہاری نیت کے مطابق اجروثواب ملے گا۔“ جناب صنعانی کی روایت میں ہے کہ ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی چنانچہ آپ نے اُس سے اس بارے میں دریافت کیا۔ تو اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے نبی (میں یہ کام اس لئے کرتا ہوں) تاکہ میرے قدموں کے آثار لکھیں جائیں، اور میرا اپنے گھر والوں کی طرف لوٹنا اور میرا (مسجد کی طرف) آنا لکھا جائے، یا جس طرح اُس نے کہا، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں یہ سب کچھ عطا کرے۔ اور جس چیز کی تم نے نیت کی اللہ تمہیں وہ سب بھی عطا فرمائے۔“ یا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً نماز میں سب سے عظیم اجر و ثواب کا حق دار وہ شخص ہے جو ان سب سے زیادہ دُور سے چل کرآتا ہے، پھر وہ جو اس سے بھی دُور سے آتا ہے۔ اور جو شخص نماز کا انتظار کرتا ہے حتّیٰ کہ اُسے امام کے ساتھ با جماعت ادا کرتا ہے، اس شخص سے بڑے اجر و ثواب کا مالک ہے جو نماز (اکیلا) پڑھ کر سوجاتا ہے۔“ دونوں راویوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد (میں آنے، نماز پڑھنے اور دیکھ بھال کرنے) کا عادی ہو تو اُس کے لئے ایماندار ہونے کی گواہی دے دو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ» [ سورة التوبة: 18 ]”یقیناًً مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی مساجد کو نماز کے لئے اپنا ٹھکانہ بنا لیتا ہے تو اُس کے گھر سے نکلنے کے وقت اللہ تعالیٰ اُس سے اسی طرح خوش ہوتا ہے جس طرح غیر موجود شخص کی آمد پر اُس کے گھر والے خوش ہوتے ہیں۔“
وذكر صلاة الملائكة عليه ودعائهم له ما لم يؤذ فيه او يحدث فيه وَذِكْرِ صَلَاةِ الْمَلَائِكَةِ عَلَيْهِ وَدُعَائِهِمْ لَهُ مَا لَمْ يُؤْذِ فِيهِ أَوْ يُحْدِثْ فِيهِ
اور فرشتوں کا اُس شخص کے لئے دعا اور استغفار کرنے کا بیان، جب تک وہ کسی کو تکلیف نہ دے یا اُس کا وضو نہ ٹوٹ جائے