سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب ہم کسی شخص کو نماز عشاءاور فجر میں موجود نہ پاتے توہم اس کے بارے میں بُرا گمان کرتے (کہ وہ منافق ہوگیا ہے)۔
جناب معدان بن ابی طلحہ یعمری بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا، تمہارا گھر کہاں ہے؟ میں نے جواب دیا کہ حمص سے پہلے ایک بستی میں ہے۔ سیدنا ابودراء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جس بستی اور گاؤں میں بھی تین شخص موجود ہوں پھر وہاں نماز (باجماعت) قائم نہ کی جائے تو شیطان ان پر غالب آجاتا ہے۔ لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑ لو۔ کیونکہ بھیڑیا دُور تنہا ہونے والی بھیڑ کو کھا جاتا ہے۔ جناب مسروقی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک بھیڑیا دُور اور تنہا ہونے والی بھیڑ (بکری) کو پکڑ لیتا ہے۔“
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹانگ (تکلیف یا درد کی وجہ سے چلنے پھرنے سے) رک گئی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (تیمار داری کے لئے) گئے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالا خانے کے سامنے آپ کے حجرہ مبارک میں بیٹھے ہوئے پایا۔ فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور ہم نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمّل کی تو فرمایا: ”جب میں بیٹھ کر نماز پڑھاؤں تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کرو، اور جب میں کھڑے ہو کر نماز پڑھاؤں تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو، اور تم (میرے گرد) اس طرح کھڑے نہ ہوا کرو جس طرح فارسی لوگ اپنے سرداروں اور بادشاہوں کے لئے (دست بستہ) کھڑے ہوتے ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین روز تک (نماز پڑھانے کے لئے) ہمارے پاس تشریف نہ لائے، پھر نماز کے لئے اقامت کہی گئی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھے (اسی دوران میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے نظر آنے والے منظر سے زیادہ پسند یدہ منظر ہم نے نہیں دیکھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا کہ آگے بڑھو (اور نماز پڑھاؤ) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ لٹکایا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ کے پاس نہیں پہنچ سکے۔ امام ابوبکر رحمه االله فرماتے ہیں کہ یہ روایت اس قسم سے تعلق رکھتی ہے جسے میں نے بیان کیا ہے کہ سمجھا جانے والا اشارہ کبھی کلام کے قائم مقام ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اشارے سے سمجھا دیا کہ آپ انہیں امامت کرانے کا حُکم دے رہے ہیں۔ لہٰذ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بول کر نماز پڑھانے کا حُکم دینے کی بجائے صر ف اشارے کو کافی سمجھا ہے۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے مکمّل وضو کیا پھر وہ فرض نماز ادا کرنے کے لئے گیا اور اُسے امام کے ساتھ (باجماعت) ادا کرے تو اُس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کی جماعت کے ساتھ نماز، اس کی اپنے گھر یا بازار میں اکیلے کی نماز سے پچیس سے زائد درجے فضیلت رکھتی ہے۔ اور یہ اس لئے کہ تم میں سے کوئی شخص جب وضو کرتا ہے تو بہترین وضو کرتا ہے۔ پھر وہ صرف نماز کے لئے گھر سے نکلتا ہے، وہ جو قدم بھی اُٹھاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اُس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے، اور ایک گناہ معاف فرما دیتا ہے۔“ یہ بندار کی حدیث ہے ابوموسیٰ کی روایت میں ہے کہ ”یا اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ جناب بشر بن خالد، مسلم بن جنادہ اور الدورقی کی روایت میں ہے کہ ”اور اُس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔“ کے الفاظ روایت کیے ہیں۔ جناب الدورقی کی روایت میں ہے کہ ”حتّیٰ کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتاہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص بہترین مکمّل وضو کرتا ہے، پھر وہ مسجد میں صرف نماز پڑھنے کے لئے آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس (کی آمد) سے اسی طرح خوش ہوتا ہے جس طرح غائب (سفر وغیرہ پر گئے ہوئے) شخص کے گھر والے اُس کی آمد پر خوش ہوتے ہیں۔“
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی وضو کرکے نماز کا اہتمام کرتے ہوئے مسجد کی طرف جاتا ہے تو اُس کی نیکیاں لکھنے والا کاتب اُس کے مسجد کی طرف بڑھنے والے ہر قدم کے بدلے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ اور بیٹھ کر نماز کا انتظار اور اہتمام کرنے والا شخص خشوع وخضوع کے ساتھ عبادت کرنے والے کی طرح ہے۔ اُسے گھر سے نکلنے کے وقت سے لیکر واپس لوٹنے تک نمازیوں میں لکھا جاتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام نفوس پر ہر اس دن میں صدقہ فرض کر دیا گیا جس میں سورج طلوع ہوتا ہے۔ اور اس میں ایک یہ بھی ہے کہ تم دو افراد کے درمیان عدل و انصاف کرو یہ صدقہ ہے۔ اور تم آدمی کو اُس کی سواری پر سوار ہونے میں مدد دو تو یہ بھی صدقہ ہوگا تم راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادو تو یہ بھی صدقہ ہوگا۔ اس میں سے یہ بھی ہے کہ تم کسی آدمی کو اُس کی سواری پر سوار کرنے اور اُس کا سامان اُس پر لادنے میں مدد دو تو یہ بھی صد قہ ہو گا۔ پاکیزہ بول بولنا بھی صدقہ ہے۔ اور نماز کے لئے چل کر جانے والے تیرا ہر قدم صدقہ ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاکیزہ بول بھی صد قہ ہے اور ہر وہ قدم جو تم چل کر نماز کے لئے جاتے ہو وہ بھی صدقہ ہے۔“