سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی اور پوچھا: ”کیا فلاں آدمی حاضر ہے؟“ آگے بقیہ حدیث بیان کی جس کے آخر میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نماز میں) جتنے آدمی زیادہ ہوں گے اتنی ہی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہو گی۔“
سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، بلاشبہ مدینہ منوّرہ میں زہریلے کیڑے مکوڑے اور درندے بکثرت ہیں (تو کیا مجھے جماعت چھوڑنے کی رخصت ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» اور «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» (آؤ نماز کی طرف، دوڑو کامیابی کی طرف) کی آواز سنتے ہو؟“ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر(نماز باجماعت میں) حاضرہوا کرو۔“
وإن كانت منازلهم نائية عن المسجد، لا يطاوعهم قائدوهم بإتيانهم إياهم المساجد، والدليل على ان شهود الجماعة فريضة لا فضيلة، إذ غير جائز ان يقال: لا رخصة للمرء في ترك الفضيلة وَإِنْ كَانَتْ مَنَازِلُهُمْ نَائِيَةً عَنِ الْمَسْجِدِ، لَا يُطَاوِعُهُمْ قَائِدُوهُمُ بِإِتْيَانِهِمْ إِيَّاهُمُ الْمَسَاجِدَ، وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ شُهُودَ الْجَمَاعَةِ فَرِيضَةٌ لَا فَضِيلَةٌ، إِذْ غَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يُقَالَ: لَا رُخْصَةَ لِلْمَرْءِ فِي تَرْكِ الْفَضِيلَةِ
سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے وقت لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں اس نماز سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے پاس جاؤں اور اُن کے گھروں کو جلا دوں۔ تو سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ کو یقیناً میری تکلیف اور عذر کا علم ہے اور میرا کوئی راہنما بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم اذان سنتے ہو؟“ اُس نے جواب دیا کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر اس میں حاضر ہوا کرو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت نہ دی۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرا کوئی راہنما نہیں ہے۔ اس لفظ میں اختصار ہے۔ میرے علم کے مطابق ان کا ارادہ یہ تھا کہ میرا مستقل راہنما کوئی نہیں ہے۔ جیسا کہ ابو رزین کی روایت میں ہے (جو درج ذیل ہے)۔
جناب ابو رزین سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا، میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، بیشک میں ایک نابینا بوڑھا شخص ہوں، میرا گھر بھی دُور ہے۔ اور میرا ایک رہنما ہے جو مستقل میرے پاس نہیں ہوتا، تو کیا میرے لئے (نماز باجماعت میں حاضر نہ ہونے کی) رخصت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟“ اُنہوں نے جواب دیا ک جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تیرے لئے کوئی رخصت نہیں پاتا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنے نوجوانوں کو نماز کھڑی کرنے کا حُکم دوں اور کچھ نوجوانوں کو حُکم دوں کہ وہ نماز سے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے پاس جائیں اور اُن کو گھروں سمیت جلا دیں۔ اگر اُن میں سے کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ وہ گوشت کی ایک ہڈی یا ثرید کھانے کی دعوت کی طرف بلایا جا رہا ہے تو وہ ضرور قبول کرتا (اور حاضر ہوتا)۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے خود کو اس حال میں دیکھا کہ نماز باجماعت سے پیچھے صرف واضح اور کھلے نفاق والا شخص ہی رہتا تھا اور ہم نے خود کو اس حال میں بھی دیکھا کہ ایک (بیمار) شخص کو دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر چلایا جاتا حتّیٰ کہ اُسے صف میں لا کر کھڑا کر دیا جاتا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک منافقوں پر سب سے بھاری نماز عشاء اور نماز فجر ہیں۔ اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ ان میں کتنا اجر و ثواب ہے تو وہ ان میں ضرور حاضر ہوں اگر چہ انہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑے۔ بیشک میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں نماز پڑھنے کا حُکم دوں تو وہ کھڑی کر دی جائے، پھر میں ایک آدمی کو جماعت کرانے کا حُکم دوں، اور میں ایندھن کے ڈھیر لیکر نماز باجماعت سے پیچھے رہنے والوں کو اُن کے گھروں سمیت جلادوں۔“ یہ ابن نمیر کی حدیث ہے اور ابو معاویہ کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ ”میں نے ارادہ کیا ہے؟“ اور فرمایا کہ ”پھر میں ایک آدمی کو حُکم دوں وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے، پھر میں کچھ لوگوں کو جن کے پاس ایندھن کے ڈھیر ہوں اُنہیں اپنے ساتھ لیکر نماز سے پیچھے رہنے والوں کے پاس جاؤں اور میں اُن پر اُن کے گھروں کو آگ سے جلا دوں۔“