وإن كانت منازلهم نائية عن المسجد، لا يطاوعهم قائدوهم بإتيانهم إياهم المساجد، والدليل على ان شهود الجماعة فريضة لا فضيلة، إذ غير جائز ان يقال: لا رخصة للمرء في ترك الفضيلة وَإِنْ كَانَتْ مَنَازِلُهُمْ نَائِيَةً عَنِ الْمَسْجِدِ، لَا يُطَاوِعُهُمْ قَائِدُوهُمُ بِإِتْيَانِهِمْ إِيَّاهُمُ الْمَسَاجِدَ، وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ شُهُودَ الْجَمَاعَةِ فَرِيضَةٌ لَا فَضِيلَةٌ، إِذْ غَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يُقَالَ: لَا رُخْصَةَ لِلْمَرْءِ فِي تَرْكِ الْفَضِيلَةِ
سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے وقت لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں اس نماز سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے پاس جاؤں اور اُن کے گھروں کو جلا دوں۔ تو سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ کو یقیناً میری تکلیف اور عذر کا علم ہے اور میرا کوئی راہنما بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم اذان سنتے ہو؟“ اُس نے جواب دیا کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر اس میں حاضر ہوا کرو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت نہ دی۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرا کوئی راہنما نہیں ہے۔ اس لفظ میں اختصار ہے۔ میرے علم کے مطابق ان کا ارادہ یہ تھا کہ میرا مستقل راہنما کوئی نہیں ہے۔ جیسا کہ ابو رزین کی روایت میں ہے (جو درج ذیل ہے)۔