سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کہتے ہیں کہ اس دوران جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوکر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما چلتے اور گرتے ہوئے (مسجد میں) آئے۔ اُن دونوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اُترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کو اُٹھا لیا، پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے «أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ» [ سورة الأنفال: 28 ]”بیشک تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش کا باعث ہے۔“ بیشک میں نے ان دو بچّوں کو چلتے ہوئے گرتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا حتّیٰ کہ میں نے نیچے اُتر کر انہیں اُٹھالیا۔ زید بن حباب کے واسطے سے جناب حسین کی روایت میں ہے، ”تو میں صبر نہ کرسکا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ دوبارہ شروع کر دیا۔
سیدنا ابورفاعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رھے تھے۔ تو میں نے عرض کی کہ (میں) ایک دین سے نا واقف شخص ہوں، جسے معلوم نہیں کہ اُس کا دین کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ روک دیا۔ پھر ایک کرسی لائی گئی۔ جس کے پائے لوہے سے خالی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس پر تشریف فرما ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس علم سے مجھے سکھانا شروع کیا جو علم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر (بقیہ) خطبہ ارشاد فرمایا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عید الفطر کی نمازیں پڑھی ہیں، یہ تمام صحابہ کرام نماز خطبے سے پہلے پڑھتے تھے۔ (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تشریف لائے، گویا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ مردوں کو اپنے ہاتھ کے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ فرما رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے عورتوں کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ» [ سورة الممتحنة: 12 ]”اے نبی، جب آپ کے پاس مؤمن عورتیں بیعت کے لئے حاضر ہوں۔“ آخر آیت تک تلاوت فرمائی۔ تلاوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اسی بات پر (قائم) ہو؟ صرف ایک عورت نے جواب دیا کہ ہاں جی، جناب حسن کو معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ عورت کون تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ کرو خیرات کرو۔“ چناچہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کپڑا پھیلا دیا اور کہا کہ اپنا صد قہ لاؤ۔ پس عورتوں نے اپنے زیورات اور انگوٹھیاں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنا شروع کر دیں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر والے دن کھڑے ہوئے، تو خطبے سے پہلے نماز سے ابتداء کی، پھر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا۔ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو عورتوں کے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں نصیحت فرمائی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلایا ہوا تھا۔ جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ جناب ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے امام عطا ء سے پو چھا، کیا یہ صدقہ فطر تھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں لیکن وہ ایک عام صدقہ تھا جو اُنہوں نے اسی وقت ادا کیا تھا۔ عورت اپنا کنگن یا چھلہ وغیرہ (سیدنا بلال کی چادر میں) ڈال رہی تھیں اور وہ (زیورات وغیرہ) صدقہ کررہی تھیں۔ میں نے جناب عطاء سے پوچھا، کیا آپ کے نزدیک اب بھی امام کے لئے ضروری اور واجب ہے کہ وہ خطبے سے فارغ ہو کر عورتوں کے پاس آئے اور اُنہیں وعظ ونصیحت کرے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں۔ میری عمر کی قسم، یہ اُن پر واجب ہے۔ کیا وجہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے؟
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب عبدالمالک بن ابی سلیمان کی عطا کے واسطے سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حُکم دیا۔ اُنہیں وعظ ونصیحت کی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، عورتوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ترغیب دلائی، پھر فرمایا: ”تم صدقہ کرو کیونکہ تمہاری اکثریت جہنّم کا ایندھن ہے۔ توعورتوں کے درمیان سے پچکے ہوئے رخساروں والی ایک عورت نے کہا، اے اللہ کے رسول، یہ کیوں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تم شکوے شکایات بہت زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو“ چنانچہ اُنہوں نے صدقہ وخیرات کرتے ہوئے اپنے گلے کے ہار، زیورات، اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی چادر میں ڈال دیں۔
943. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے فارغ ہوکر عورتوں کے پاس انہیں وعظ و نصیحت کرنے کے لئے اس لئے تشریف لائے تھے کیونکہ عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ اور وعظ و نصیحت سن نہیں سکی تھیں
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ آپ عورتوں کو وعظ نہیں سنا سکے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس تشریف لائے اور اُنہیں وعظ و نصیت کی۔ یہ دونوں روایات جنہیں امام عطاء سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں، صحیح ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں عید والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور فرمایا: ”ہم نے نماز ادا کرلی ہے، تو جو شخص چاہے وہ خطبہ سننے کے لئے بیٹھا رہے، اور جو شخص جانا چاہے وہ چلاجائے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ خراسانی روایت نہایت غریب ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اسے صرف فضل بن موسی شیبانی نے روایت کیا ہے یہ روایت ابوعمارکے پاس بھی موجود تھی، اُنہوں نے نیسابور میں ہمیں یہ حدیث بیان نہیں کی، اہل بغداد کو یہ حدیث بیان کی تھی جیسا کہ بعض عراقی علماء نے مجھے بتایا ہے۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نمازوں میں، ایک بار فرمایا: ”عید میں سورة الأعلى «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» اور سورة الغاشية «هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ» پڑھا کرتے تھے۔ اور اگر عید جمعہ کے دن آجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نمازوں میں یہی سورتیں پڑھتے۔