سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق والے دن فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ان کافروں کے دل اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے جیسے انہوں نے ہمیں درمیانی نماز سے مشغول کیے رکھا ـ“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کافروں نے ہمیں درمیانی نماز، نماز عصر سے مشغول کر دیا تھا، اللہ تعالیٰ ان کی قبروں یا فرمایا کہ ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے۔“ جناب الاشج کی روایت میں ہے کہ ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عصر کی نماز) دو عشاؤں کے درمیان پڑھی۔ جناب سلم نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ مغرب اور عشاء کے درمیان (نماز عصر پڑھی)۔
سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونا پسند کرتے تھے اور عشاء کے بعد گفتگو کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب شقیق بن عبداللہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے عشاء کے بعد بات چیت کرنا سخت معیوب قرار دیا۔
853. اس بات کی دلیل کا بیان کہ عشاء کے بعد گفتگو کے لئے جاگنے کی ممانعت اُن کاموں کی وجہ سے ہے جو انسان کے لئے ضروری نہ ہوں، مسلمانوں کے مسائل میں مشورہ وغیرہ کے لئے جاگا جاسکتا ہے
جناب ابراہیم اور علقمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا جبکہ وہ میدان عرفات میں کھڑے تھے، اُس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین، میں کوفہ سے آیا ہو ں اور میں وہاں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آیا ہوں جو قرآن مجید کو زبانی لکھواتا ہے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سخت ناراض ہوئے۔ اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر مسلمانوں کے مسائل وامور میں رات کے وقت مشورہ کیا کرتے تھے۔
قال ابو بكر خبر عبد الله بن عمرو من هذا الجنس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يحدثنا عن بني إسرائيل حتى يصبح ما يقوم فيها إلا إلى عظم صلاة" . ثناه بندار ، حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن قتادة ، عن ابي حسان ، عن عبد الله بن عمرو ، ح وحدثنا بندار ، حدثنا عفان ، حدثنا ابو هلال ، عن قتادة ، عن ابي حسان ، عن عمران بن حصين : عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله. قال ابو بكر: فالنبي صلى الله عليه وسلم قد كان يحدثهم بعد العشاء عن بني إسرائيل ليتعظوا مما قد نالهم من العقوبة في الدنيا مع ما اعد الله لهم من العقاب في الآخرة لما عصوا رسلهم، ولم يؤمنوا فجائز للمرء ان يحدث بكل ما يعلم ان السامع ينتفع به من امر دينه بعد العشاء، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد كان يسمر بعد العشاء في الامر من امور المسلمين، مما يرجع إلى منفعتهم عاجلا وآجلا دينا ودنيا، وكان يحدث اصحابه عن بني إسرائيل لينتفعوا بحديثه، فدل فعله صلى الله عليه وسلم على ان كراهة الحديث بعد العشاء بما لا منفعة فيه دينا، ولا دنيا، ويخطر ببالي ان كراهته صلى الله عليه وسلم الاشتغال بالسمر، لان ذلك يثبط عن قيام الليل، لانه إذا اشتغل اول الليل بالسمر ثقل عليه النوم آخر الليل، فلم يستيقظ، وإن استيقظ لم ينشط للقيامقَالَ أَبُو بَكْرٍ خَبَرُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مِنْ هَذَا الْجِنْسِ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُحَدِّثُنَا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ حَتَّى يُصْبِحَ مَا يَقُومُ فِيهَا إِلا إِلَى عُظْمِ صَلاةٍ" . ثناهُ بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو هِلالٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ : عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يُحَدِّثُهُمْ بَعْدَ الْعِشَاءِ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لِيَتَّعِظُوا مِمَّا قَدْ نَالَهُمْ مِنَ الْعُقُوبَةِ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مِنَ الْعِقَابِ فِي الآخِرَةِ لَمَّا عَصَوْا رُسُلَهُمْ، وَلَمْ يُؤْمِنُوا فَجَائِزٌ لِلْمَرْءِ أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا يَعْلَمُ أَنَّ السَّامِعَ يَنْتَفِعُ بِهِ مِنْ أَمْرِ دِينِهِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يَسْمُرُ بَعْدَ الْعِشَاءِ فِي الأَمْرِ مِنْ أُمُورِ الْمُسْلِمِينَ، مِمَّا يَرْجِعُ إِلَى مَنْفَعَتِهِمْ عَاجِلا وَآجِلا دِينًا وَدُنْيَا، وَكَانَ يُحَدِّثُ أَصْحَابَهُ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لِيَنْتَفِعُوا بِحَدِيثِهِ، فَدَلَّ فِعْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنَّ كَرَاهَةَ الْحَدِيثِ بَعْدَ الْعِشَاءِ بِمَا لا مَنْفَعَةَ فِيهِ دِينًا، وَلا دُنْيَا، وَيَخْطِرُ بِبَالِي أَنَّ كَرَاهَتَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الاشْتِغَالَ بِالسَّمَرِ، لأَنَّ ذَلِكَ يُثَبِّطُ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ، لأَنَّهُ إِذَا اشْتَغَلَ أَوَّلَ اللَّيْلِ بِالسَّمَرِ ثَقُلَ عَلَيْهِ النَّوْمُ آخِرَ اللَّيْلِ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ، وَإِنِ اسْتَيْقَظَ لَمْ يَنْشَطْ لِلْقِيَامِ
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت اسی قسم کے متعلق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات کے وقت) ہمیں بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کرتے تھے حتّیٰ کہ صبح ہوجاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دوران صرف بڑی نماز (یعنی فرض نماز) کے لئے اُٹھتے تھے۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی مثل روایت کرتے ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو عشاء کے بعد بنی اسرائیل کے حالات بیان کیا کرتے تھے تاکہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کریں، بنی اسرائیل کو ملنے والے دنیاوی عذاب سے اور اس اخروی عذاب سے جو ان کی رسولوں کی نافرمانی کرنے اور ایمان نہ لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ لہٰذا آدمی کے لئے عشاء کے بعد ایسی مفید گفتگو کرنا جائز ہے جس سے سامعین کو دینی فائدہ ہو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے امور میں سے کسی معاملہ میں عشاء کے بعد گفتگو کیا کرتے تھے جس سے مسلمانوں کے دین و دنیا میں جلدی یا تاخیر سے فائدہ ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو بنی اسرائیل کے حالات و واقعات بیان کرتے تھے تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سے مستفید ہوں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل مبارک میں اس بات کی دلیل ہے کہ عشاء کے بعد وہ گفتگو ناپسندیدہ ہے جس میں دینی اور دنیاوی کوئی فائدہ نہ ہو۔ اور میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشاء کے بعد گفتگو کو ناپسند کرنا اس لئے بھی ہو سکتا ہے کہ یہ نماز تہجّد میں سستی اور غفلت کا سبب بنتی ہے، کیونکہ جب انسان ابتدائی رات میں گفتگو میں مشغول رہے گا تو رات کے آخری پہر اُسے گہری نیند آئے گی تو وہ بیدار نہیں ہوسکے گا۔ اور اگر بیدار ہو بھی جائے تو نماز تہجّد کے لئے چاق و چوبند نہیں ہو گا۔