إذا كان ذلك ارجا لإسلامهم وارق لقلوبهم إذا سمعوا القرآن والذكر قال الله عز وجل: {فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا} [التوبة: ٢٨] إِذَا كَانَ ذَلِكَ أَرْجَا لِإِسْلَامِهِمْ وَأَرَقَّ لِقُلُوبِهِمْ إِذَا سَمِعُوا الْقُرْآنَ وَالذِّكْرَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا} [التوبة: ٢٨]
جبکہ یہ چیز قرآن مجید اور ذکرِ الہٰی سننے کے بعد ان کے اسلام لانے کی امید دلائے اور ان کے دلوں کو خوب نرم کرنے کا باعث بن سکتی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے «فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا» [ سورة التوبة: 28 ]”ایمان والو، مشرک تو ہیں ہی پلید، لہٰذا وہ اس برس کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔“
سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ثقیف قبیلہ کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا تاکہ یہ چیز اُن کے دلوں کو خوب نرم کر دے (اور وہ اسلام قبول کرلیں۔)
جناب ابوزبیر بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا» [ سورۃ التوبه: 28 ]”بلاشبہ مشرکین پلید ہیں، لہٰذا وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں“ کی تفسیر کرتے ہوئے سنا، اُنہوں نے فرمایا، مگر یہ کہ وہ غلام ہو یا اہل ذمہ کا کوئی فرد ہو (تو وہ مسجد حرام میں داخل ہو سکتا ہے۔)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مسجد نبوی میں رات کو سویا کرتا تھا حالانکہ میں کنوارا تھا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک سیاہ فام عورت کسی عربی قبیلے کی لونڈی تھی۔ اُنہوں نے اسے آزاد کر دیا اور وہ اُن کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ ایک روز اُن کی ایک لڑکی گھر سے باہر گئی۔ اُس نے سرخ رنگ کے چمڑے کا کمر بند ہار پہنا ہوا تھا۔ تو اُس کا وہ کمر بند ہار گر گیا۔ وہاں سے ایک چیل گزری تو اُس نے اُسے گوشت سمجھ کر اُچک لیا (اور چلی گئی) قبیلہ والوں نے اُسے تلاش کیا مگر اُنہیں کمر بند ہار نہ ملا ـ اُنہوں نے اس کی چوری کا الزام اُس لونڈی پر لگا دیا ـ پھر اُس کی تلاشی لی حتّیٰ کہ اُس کی شرم گاہ میں بھی تلاش کیا گیا ـ وہ اسی تلاش اور تحقیق میں تھے کہ چیل وہاں سے گزری تو اُس نے وہ کمر بند ہار پھینک دیا۔ وہ ہار اُن کے درمیان آکر گرا، تو اُس لونڈی نے انہیں کہا کہ یہی وہ ہار ہے جس کا الزام تم نے مجھ پر لگایا تھا حالانکہ میں اس سے بالکل بری تھی۔ اور اب وہ تمہارے سامنے پڑا ہے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسلمان ہوگئی، تو اُس کا خیمہ یا جھونپڑی مسجد میں (لگادی گئی) تھی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ میرے پاس آکر بیٹھا کرتی تھی، اور جب بھی میرے پاس آکر بیٹھتی وہ یہ شعر پڑھتی ”وَيَوْمَ الْوِشَاِح مِنْ تَعَاجِيْبِ رَبَّنَا إِلَّا أَنَّهُ مِنْ بَلْدَةِ اَلكُفْرِ أَنْجَانِيْ“(اور کمربند ہار کی گمشدگی اور بازیابی کا دن میرے رب کے عجائبات میں سے ہے۔ مگر یہ کہ اس نے مجھے سر زمین کفر سے نجات عطا فرمادی۔) میں نے اُس سے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ تم جب بھی میرے پاس بیٹھتی ہو تو یہ شعر پڑھی ہو؟ تو اُس نے مجھے یہ واقعہ بیا ن کیا۔ میں نے اعتکاف کے لئے مساجد میں گنبد نما خیمے لگا نے کے متعلق احادیث کتاب الاعتکاف میں بیان کی ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ (جنگ خندق میں) ہفت اندام کی رگ میں تیر لگ گیا (اور وہ شدید زخمی ہو گئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے لئے مسجد میں خیمہ لگوایا تاکہ قریب رہ کر اُن کی تیمار داری کر سکیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اُن کا زخم بھرنے لگا۔ تو اُنہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی، اے اللہ، تو خوب جانتا ہے کہ میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں کہ میں تیرے دین کے لئے ایسے لوگوں سے جہاد کروں جنہوں نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور اسے (مکّہ مکرّمہ سے) نکال دیا۔ اور طرح طرح کی تکلیف دیں۔ میرا خیال ہے کہ تُو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ ختم کر دی ہے۔ لہٰذا میرے اس زخم کو جاری کر دے تاکہ میری موت (شہادت) اسی زخم کی وجہ سے ہو جائے۔ راوی کہتا ہے کہ وہ اسی حال میں تھے کہ ایک رات اُن کا زخم پھوٹ پڑا، اُن کا خون اس قدر بہہ نکلا کہ وہ دوسرے لوگوں کے خیمے میں داخل ہوگیا ـ تو اُنہوں نے پکار کر پوچھا کہ اے خیمے والو، یہ کیا چیز تمھاری طرف سے ہمارے خیمے میں آرہی ہے؟ تو اُنہوں نے دیکھا تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کا سینہ زخم کی وجہ سے پھٹ چکا تھا اور اُن کا خون تیز آواز کے ساتھ نکل رہا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سلیمان بن داؤد عليه السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اُنہیں اپنے حُکم کے موافق حُکم عطا فرمائے، اور ایسی بادشاہت و حکومت عطا فرمائے جو ان کے بعد کسی کو نصیب نہ ہو اور جو شخص بھی اس مسجد میں صرف نماز پڑھنے کی نیت سے آئے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو جائے جس طرح وہ اپنی پیدائش کے دن تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”پہلی دو دعائیں تو قبول ہوگئی تھیں اور مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کی جائے گی۔“
851. اس درمیانی نماز کا بیان جس کی حفاظت و نگہداشت کا حُکم اللہ تعالی نے ان جملہ نمازوں کی حفاظت کے حُکم کے بعد دوبارہ تاکید کے ساتھ دیا ہے جن میں یہ بھی شامل تھی
وهذا من واو الوصل التي نقول إنما على معنى التكرار والتاكيد، لا من واو الفصل، إذ محال ان تكون الصلاة الوسطى ليست من الصلوات قال الله عز وجل: {حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى} [البقرة: ٢٣٨] فالصلاة الوسطى كانت داخلة في الصلوات التي امر الله في اول الذكر بالمحافظة عليها، ثم قال: {والصلاة الوسطى} [البقرة: ٢٣٨] على معنى التكرار والتاكيد، وقد استقصيت هذا الجنس في كتاب الإيمان عند ذكر اعتراض من اعترض علينا فادعى ان الله عز وجل قد فرق بين الإيمان والاعمال الصالحة بواو استئناف في قوله: {والذين آمنوا وعملوا الصالحات} [البقرة: ٨٢]وَهَذَا مِنْ وَاوِ الْوَصْلِ الَّتِي نَقُولُ إِنَّمَا عَلَى مَعْنَى التَّكْرَارِ وَالتَّأْكِيدِ، لَا مِنْ وَاوِ الْفَصْلِ، إِذْ مُحَالٌ أَنْ تَكُونَ الصَّلَاةُ الْوُسْطَى لَيْسَتْ مِنَ الصَّلَوَاتِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى} [البقرة: ٢٣٨] فَالصَّلَاةُ الْوُسْطَى كَانَتْ دَاخِلَةً فِي الصَّلَوَاتِ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ فِي أَوَّلِ الذِّكْرِ بِالْمُحَافَظَةِ عَلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: {وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى} [البقرة: ٢٣٨] عَلَى مَعْنَى التَّكْرَارِ وَالتَّأْكِيدِ، وَقَدِ اسْتَقْصَيْتُ هَذَا الْجِنْسِ فِي كِتَابِ الْإِيمَانِ عِنْدَ ذِكْرِ اعْتِرَاضِ مَنِ اعْتَرَضَ عَلَيْنَا فَادَّعَى أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ فَرَّقَ بَيْنَ الْإِيمَانِ وَالْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ بِوَاوِ اسْتِئْنَافٍ فِي قَوْلِهِ: {وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} [البقرة: ٨٢]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب میں فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اُن مشرکوں کی قبروں اور اُن کے گھروں کو آگ سے بھرے جیسے اُنہوں نے ہمیں درمیانی نماز سے مشغول کیے رکھا حتّیٰ کہ سورج غروب ہو گیا۔“